Column

سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں 45خوارج ہلاک، 19جوان شہید

سیکیورٹی فورسز کی کارروائیاں 45خوارج ہلاک، 19جوان شہید
پاکستان ایک طویل عرصے سے دہشت گردی کے ناسور سے نبردآزما ہے۔ پچھلے چند روز کے دوران دہشت گردی کے خلاف جاری جنگ میں 19جوانوں نے جام شہادت نوش کیا ہے جب کہ فتنہ الخوارج کے 45دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا گیا ہے۔ افواجِ پاکستان، قانون نافذ کرنے والے ادارے اور عوام کی بے پناہ قربانیوں کے بعد ایک بار پھر ایک نازک موڑ پر کھڑے ہیں جہاں دہشت گردی کے خلاف فیصلہ کن جنگ جاری ہے۔ حالیہ دنوں میں خیبرپختونخوا کے مختلف علاقوں میں سیکیورٹی فورسز نے دو اہم آپریشنز کے دوران بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے فتنہ الہندوستان اور خوارج کے 35دہشت گردوں کو ہلاک کرکے بڑی کامیابی حاصل کی ہے۔ ان آپریشنز میں 12جوانوں نے جام شہادت نوش کیا، جو قوم کے لیے ایک گراں قدر قربانی ہے۔ 10سے 13ستمبر 2025ء کے دوران سیکیورٹی فورسز نے خیبرپختونخوا میں دو بڑے انٹیلی جنس بیسڈ آپریشنز کیے، جن کا مقصد ان ٹھکانوں کو نشانہ بنانا تھا جہاں بھارت کے ایماء پر کام کرنے والے دہشت گرد گروہ پناہ لیے ہوئے تھے۔ ان کارروائیوں میں باجوڑ اور وزیرستان جیسے حساس علاقوں کو ٹارگٹ کیا گیا۔ باجوڑ میں 22اور وزیرستان میں 13دہشت گرد مارے گئے، جو مختلف کارروائیوں میں ملوث تھے۔ ان کارروائیوں کے دوران وافر اسلحہ، گولا بارود اور دیگر جنگی سازوسامان برآمد ہوا۔ یہ بات خوش آئند ہے کہ فورسز نے انتہائی پیشہ ورانہ انداز میں ان کارروائیوں کو پایہ تکمیل تک پہنچایا، تاہم مادرِ وطن کی حفاظت میں 19جوانوں کی شہادت نے پوری قوم کو غم زدہ کر دیا۔ ان شہداء کی قربانیاں اس بات کا ثبوت ہیں کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ہر قیمت پر ملک کی سالمیت اور امن کے تحفظ کے لیے تیار ہیں۔ دوسری طرف، دیر کے علاقے لال قلعہ میں ہونے والا آپریشن بھی قومی سلامتی کے لیے ایک اہم موڑ ثابت ہوا۔ خفیہ معلومات پر کیے گئے اس آپریشن میں سیکیورٹی فورسز نے بھارتی اسپانسرڈ دہشت گرد گروہ کے ٹھکانے کو مثر انداز میں نشانہ بنایا اور 10دہشت گردوں کو ہلاک کیا۔ اس آپریشن میں ہمارے بہادر سپاہیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ دے کر یرغمال بنائے گئے معصوم شہریوں کی جانیں بچائیں۔ اس کارروائی کے دوران 7 جوان، جن میں نائیک عبدالجلیل، نائیک گل جان، لانس نائیک عظمت اللہ، سپاہی عبدالمالک، سپاہی محمد امجد، سپاہی محمد داد اور سپاہی فضل قیوم شامل ہیں، شہید ہوئے۔ یہ جوان ملک و ملت کی خاطر ایک ایسی قربانی دے گئے جو تاریخ کے اوراق میں سنہری حروف سے لکھی جائے گی۔ آئی ایس پی آر کے مطابق، ان کارروائیوں میں بھارتی سرپرستی میں کام کرنے والے دہشت گردوں کے ساتھ افغان شہریوں کے بھی ملوث ہونے کے شواہد سامنے آئے ہیں۔ یہ بات انتہائی سنگین ہے اور بین الاقوامی سطح پر افغانستان کی عبوری حکومت کے لیے ایک سوالیہ نشان بن کر ابھرتی ہے۔ افغان سرزمین کا پاکستان کے خلاف دہشت گردی کے لیے استعمال نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی ہے بلکہ دونوں ممالک کے تعلقات پر بھی منفی اثر ڈال سکتی ہے۔ پاکستان نے بارہا افغان حکومت سے توقع ظاہر کی ہے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گرد گروہوں کی آماجگاہ بننے سے روکے گی، مگر زمینی حقائق اس کے برعکس نظر آتے ہیں۔ اگر یہ روش برقرار رہی تو پاکستان کو اپنے دفاعی حکمتِ عملی میں مزید سختی لانا پڑے گی تاکہ سرحد پار سے ہونے والی دہشت گردی کو روکا جا سکے۔بھارتی پراکسی فتنہ الخوارج کا ذکر بارہا آئی ایس پی آر کی رپورٹس میں سامنے آیا ہے۔ یہ اس بات کا واضح ثبوت ہے کہ بھارت ایک جانب تو عالمی برادری میں پاکستان کو بدنام کرنے کی کوشش کرتا ہے اور دوسری طرف خفیہ طور پر دہشت گرد گروہوں کی پشت پناہی کرکے پاکستان کے اندرونی معاملات میں مداخلت کرتا ہے۔ یہ ایک غیر ذمے دارانہ اور جارحانہ رویہ ہے جسے عالمی برادری کو سنجیدگی سے لینا چاہیے۔دہشت گردی کے خلاف یہ آپریشنز نہ صرف سیکیورٹی فورسز کی صلاحیتوں کا مظہر ہیں بلکہ یہ اس قومی عزم کا بھی اظہار ہیں کہ پاکستان دہشت گردی کے ناسور کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنے کے لیے کسی بھی حد تک جا سکتا ہے۔ عوام، حکومت، اور فوج سب ایک ہی صفحے پر ہیں، اور یہی اتحاد پاکستان کی اصل طاقت ہے۔ 19شہداء کی قربانیاں رائیگاں نہیں جائیں گی اور قوم ان کے خون کا قرض چکانے کے لیے ہمہ وقت تیار ہے۔ پوری قوم 19جوانوں کی شہادت پر اُن کے اہل خانہ کے غم کے برابر کی شریک ہے۔ ضروری ہے کہ ہم بحیثیت قوم اس موقع پر مزید یکجہتی کا مظاہرہ کریں اور سیکیورٹی اداروں کی کوششوں کو سراہتے ہوئے ان کا بھرپور ساتھ دیں۔ اس وقت عالمی برادری کی بھی ذمے داری بنتی ہے کہ وہ افغانستان پر دبائو ڈالے کہ وہ اپنی سرزمین کو دہشت گردوں کے لیے استعمال نہ ہونے دے۔ مزید برآں، بھارت کی پراکسی جنگ کے ثبوتوں پر بھی سنجیدگی سے غور کیا جائے اور بھارت کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی پر جوابدہ بنایا جائے۔ یہ واضح ہو چکا ہے کہ دہشت گرد چاہے کسی بھی سرپرستی میں ہوں، پاکستان کی سرزمین پر ان کے لیے کوئی جگہ نہیں۔ ہماری سیکیورٹی فورسز، انٹیلی جنس ادارے اور عوام متحد اور دشمن کو ہر محاذ پر شکست دینے کے لیے پُرعزم ہیں۔ یہ جنگ صرف گولیوں کی نہیں، نظریات کی بھی ہے اور فتح صرف اسی کی ہوگی جو حق پر ہے۔ پاکستان ان شاء اللہ دہشت گردی سے پاک ملک بنے گا اور شہداء کے لہو سے لکھی گئی یہ تاریخ اس بات کی گواہی دے گی کہ قوموں کو قربانیاں دے کر ہی آزادی، سلامتی اور وقار ملتا ہے۔
ڈینگی کا بڑھتا ہوا خطرہ
اسلام آباد میں گزشتہ 24گھنٹے کے دوران ڈینگی کے 25نئے کیسز کا رپورٹ ہونا نہ صرف وفاقی دارالحکومت کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے بلکہ پورے ملک کے لیے ایک سنجیدہ وارننگ بھی ہے۔ ڈینگی مخصوص علاقوں تک محدود نہیں، یہ ملک گیر خطرہ بنتا جارہا ہے جس کے تدارک کے لیے فوری، جامع اور ہمہ جہت اقدامات کی ضرورت ہے۔ رپورٹ کے مطابق اسلام آباد کے علاقے بھارہ کہو سے 8، سوہان سے 4، سیکٹر G۔5سے 2جبکہ دیگر علاقوں سے ایک ایک کیس رپورٹ ہوا ہے۔ یہ صرف اسلام آباد تک محدود مسئلہ نہیں۔ ملک بھر کے مختلف شہروں، بالخصوص کراچی، لاہور، راولپنڈی، پشاور اور کوئٹہ میں بھی ہر سال مون سون کے بعد ڈینگی کیسز میں نمایاں اضافہ دیکھنے میں آتا ہے۔ اس وقت ملک کے بعض حصوں میں سیلابی صورت حال ہے۔ ڈینگی، ملیریا سمیت دیگر وبائی امراض کے خطرات میں بڑی تعداد میں اہلیان وطن گھرے ہوئے ہیں۔ صفائی کے ناقص انتظامات، کھلے پانی کا جمع ہونا، ٹائرز اور کوڑا کرکٹ میں بارش کا پانی ٹھہرنے سے مچھروں کی افزائش میں اضافہ ہوتا ہے۔ ڈینگی جیسے وائرس کے خلاف کامیابی صرف پیشگی منصوبہ بندی، مستقل نگرانی اور عوامی شعور کی بیداری سے ہی حاصل کی جاسکتی ہے۔ وقت آگیا ہے کہ حکومت قومی سطح پر پروگرام کے تحت پورے ملک میں سال بھر ڈینگی کی مانیٹرنگ، مچھر کش مہم، آگاہی مہمات اور صفائی کے مستقل منصوبے شروع کیے جائیں۔ شہریوں کو بھی اس حوالے سے اپنی ذمے داری نبھانی ہوگی۔ گھر کے اندر اور باہر پانی جمع نہ ہونے دینا، احتیاطی تدابیر اپنانا اور صفائی کا خاص خیال رکھنا ہر فرد کی ذمے داری ہے۔ ڈینگی محض ایک موسمی وبا نہیں، یہ ایک ایسا چیلنج ہے جو ہماری اجتماعی غفلت کی نشان دہی کرتا ہے۔ اگر ہم نے ابھی بھی اس پر سنجیدگی سے قابو نہ پایا تو ہر سال بڑی تعداد میں قیمتی جانیں ضائع ہوتی رہیں گی اور ہمارا صحت کا نظام مزید دبا کا شکار ہوجائے گا۔ وفاقی اور صوبائی حکومتوں کو چاہیے کہ وہ صرف وقتی کارروائیوں پر انحصار کرنے کے بجائے ایک طویل المدتی، مربوط اور جدید سائنسی بنیادوں پر مبنی حکمتِ عملی اپنائیں۔ یہ ہماری صحت، معیشت اور آنے والی نسلوں کے مستقبل کا سوال ہے اور اس پر مزید تاخیر کی کوئی گنجائش نہیں۔

جواب دیں

Back to top button