ColumnImtiaz Aasi

کسان کنگال ہو گیا

کسان کنگال ہو گیا
تحریر : امتیاز احمد شاد
پاکستان ایک زرعی ملک ہے، جس کی معیشت کا انحصار بڑی حد تک کھیتی باڑی پر ہے۔ گندم، چاول، کپاس، گنا، مکئی اور سبزیاں نہ صرف عوام کی خوراک پوری کرتی ہیں بلکہ برآمدات کے ذریعے ملکی زرمبادلہ کمانے کا بھی اہم ذریعہ ہیں۔ کسان دن رات محنت کر کے زمین کو سنوارتا ہے۔ وہ بیج بوتا ہے، کھاد ڈالتا ہے، پانی لگاتا ہے اور پھر مہینوں کی مشقت کے بعد فصل اُگاتا ہے۔ کسان کی محنت صرف اپنی زندگی گزارنے کے لیے نہیں ہوتی بلکہ وہ پوری قوم کے لیے خوراک پیدا کرتا ہے اور یوں ملک کی معیشت کا پہیہ بھی چلاتا ہے۔ مگر افسوس، حالیہ دنوں میں آنے والے شدید اور تباہ کن سیلاب نے کسان کے خواب بکھیر دئیے۔کھیت کھلیان پانی میں ڈوب گئے، تیار فصلیں برباد ہو گئیں، مال مویشی ہلاک ہو گئے، بیج اور زرعی آلات بہہ گئے، اور کسان ہاتھ پر ہاتھ رکھے کنگال ہو کر رہ گیا۔ پاکستان میں سیلاب کوئی نیا مسئلہ نہیں۔ ہر سال مون سون کی بارشیں اور دریائوں میں طغیانی آتی ہے، لیکن گزشتہ برسوں میں موسمیاتی تبدیلی نے اس صورتحال کو نہایت سنگین بنا دیا ہے۔
دنیا بھر میں گلوبل وارمنگ کے باعث درجہ حرارت بڑھ رہا ہے۔ برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں، جس کی وجہ سے دریاں میں پانی کی سطح بلند ہو رہی ہے۔ پاکستان میں ہمالیہ اور قراقرم کی پہاڑیوں کے برفانی ذخائر تیزی سے گھٹ رہے ہیں اور ان کے پگھلنے سے آنے والے پانی نے دریاں میں خطرناک اضافہ کر دیا ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ بے تحاشا جنگلات کی کٹائی نے زمین کو کمزور کر دیا ہے۔ درخت بارش کے پانی کو جذب کرنے اور مٹی کو تھامنے میں مددگار ہوتے ہیں، مگر جنگلات کے تیزی سے ختم ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی مٹی کو بہا لے جاتا ہے اور زمین تیزی سے کٹا کا شکار ہو جاتی ہے۔ مزید برآں، دریائوں کے کنارے مضبوط بند نہ بننے کی وجہ سے پانی دیہاتوں میں داخل ہو جاتا ہے۔ شہروں اور دیہاتوں میں نکاسی آب کا موثر نظام نہ ہونے کی وجہ سے بارش کا پانی جمع ہو کر کھیتوں، گھروں اور سڑکوں کو اپنی لپیٹ میں لے لیتا ہے۔ یوں قدرتی آفات اور انسانی غفلت مل کر ایک ایسا خوفناک سیلاب لے آتی ہیں جو کسان کی دہائیوں کی محنت کو لمحوں میں برباد کر دیتا ہے۔
کسان کی زندگی کھیت اور مویشیوں سے جڑی ہوتی ہے۔ کھیت ہی اس کا ذریعہ معاش ہیں۔ جب کھیت ہی تباہ ہو جائیں تو کسان کے لیے زندگی کا پہیہ چلانا ناممکن ہو جاتا ہے۔ مکئی، کپاس اور تیل دار اجناس کے کھیت پانی میں ڈوب گئے۔ چاول کے کھیت جو مناسب مقدار میں پانی پر انحصار کرتے ہیں، وہ بھی حد سے زیادہ پانی کی وجہ سے خراب ہو گئے۔ سبزیاں گل سڑ گئیں، گنے کے کھیت زمین سے اکھڑ گئے۔ کسان کے لیے گائے، بھینس، بکری اور بھیڑ صرف جانور نہیں بلکہ آمدنی کا ذریعہ ہیں۔ انہی کے دودھ، گوشت اور کھال سے کسان کو آمدنی ہوتی ہے۔ مگر سیلابی ریلے ہزاروں جانور بہا لے گئے۔ جو بچے وہ بھوک اور بیماری کے باعث مر گئے۔ کچے مکانات پانی میں گر گئے، بیج، کھاد اور زرعی اوزار ضائع ہو گئے۔ کھیتوں میں اتنی مٹی اور ریت جم گئی ہے کہ دوبارہ قابلِ کاشت بننے میں مہینے بلکہ سال لگ سکتے ہیں۔
اکثر کسان بیج اور کھاد خریدنے کے لیے بینکوں یا بڑے زمینداروں سے قرض لیتے ہیں۔ جب فصل تباہ ہو جاتی ہے تو ان کے پاس قرض واپس کرنے کا کوئی ذریعہ نہیں بچتا۔ نتیجتاً کسان مزید غربت اور کسمپرسی کا شکار ہو جاتا ہے۔
سیلاب نے صرف کسان کو ہی نہیں بلکہ پورے ملک کی معیشت کو متاثر کیا ہے۔ زرعی پیداوار میں کمی کے باعث سبزیوں، پھلوں اور دیگر اجناس کی قلت ہو گئی ہے۔ جب سپلائی کم اور طلب زیادہ ہو تو لازمی طور پر مہنگائی بڑھتی ہے۔ عوام پہلے ہی مہنگائی کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں اور اب سیلاب کے بعد اشیائے خورونوش کی قیمتوں میں ہوشربا اضافہ سامنے آ رہا ہے۔ سیلاب نے ہزاروں خاندانوں کو بے گھر کر دیا ہے۔ بچے تعلیم سے محروم ہو گئے ہیں، کیونکہ سکول یا تو سیلاب کی زد میں آ گئے یا ریلیف کیمپوں میں بدل گئے ہیں۔ بیماریوں کا پھیلا بھی ایک بڑا مسئلہ ہے۔ کھڑا پانی مچھروں کی افزائش گاہ بن گیا ہے، جس کے باعث ملیریا، ڈینگی اور ڈائریا جیسی بیماریاں عام ہو رہی ہیں۔ خواتین، بزرگ اور بچے کھلے آسمان تلے زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔ اگرچہ حکومت اور فلاحی ادارے متاثرین کی مدد کر رہے ہیں، لیکن یہ امداد متاثرین کی ضروریات کے مقابلے میں ناکافی ہے۔ کھانے پینے کی اشیاء اور عارضی رہائش فراہم کی جا رہی ہے مگر اصل مسئلہ کسان کی بحالی ہے۔ اگر کسان کے کھیت دوبارہ آباد نہ کیے گئے، اگر اسے بیج، کھاد اور مویشی فراہم نہ کیے گئے تو وہ مستقل طور پر غربت کا شکار رہے گا اور ملک کی زرعی پیداوار کبھی سنبھل نہیں پائے گی۔ سیلاب صرف ایک وقتی مسئلہ نہیں بلکہ ایک مسلسل خطرہ ہے۔ ہمیں بطور قوم یہ سوچنا ہوگا کہ ہم اپنی آنے والی نسلوں کو کیسے محفوظ رکھ سکتے ہیں۔ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو کلائمٹ چینج سے سب سے زیادہ متاثر ہو رہے ہیں۔ ہمیں عالمی سطح پر آواز بلند کرنی ہوگی کہ ترقی یافتہ ممالک اپنے کاربن کے اخراج کو کم کریں کیونکہ ان کی صنعتی سرگرمیاں ہمارے جیسے ممالک کو تباہ کر رہی ہیں۔ ملک کے اندر ہمیں ایسی زرعی پالیسی کی ضرورت ہے جو صرف وقتی ریلیف پر نہیں بلکہ مستقل بنیادوں پر کسان کو سہارا دی۔ دریاں کے کنارے مضبوط بند باندھنے ہوں گے، نکاسی آب کا نظام بہتر بنانا ہوگا، سیلابی پانی کو ذخیرہ کرنے کے لیے ڈیم بنانے ہوں گے، اور جنگلات کی کٹائی روکنے کے ساتھ ساتھ نئے درخت لگانے ہوں گے۔ کسان کے لیے آسان قرضے فراہم کیے جائیں، اس کے نقصان کا ازالہ کرنے کے لیے انشورنس کا نظام لایا جائے، بیج اور کھاد سبسڈی پر دئیے جائیں، اور جدید ٹیکنالوجی سے کسان کو آگاہ کیا جائے تاکہ وہ بہتر پیداوار حاصل کر سکے۔
کسان پاکستان کی ریڑھ کی ہڈی ہے۔ اگر کسان تباہ ہوگا تو ملک کی معیشت کبھی مضبوط نہیں ہو سکتی۔ حالیہ سیلاب نے ہمیں یہ سبق دیا ہے کہ ہمیں اپنی زمین، پانی اور ماحول کو سنجیدگی سے لینا ہوگا۔ کسان کی بحالی صرف کسان کا نہیں بلکہ پورے پاکستان کا مسئلہ ہے۔ حکومت، عوام اور اداروں کو مل کر ایسے اقدامات کرنے ہوں گے جو نہ صرف آج کے زخم بھر سکیں بلکہ کل کے خطرات سے بھی محفوظ رکھ سکیں۔
اگر ہم نے کسان کو سہارا نہ دیا تو آنے والی نسلیں بھوک، غربت اور ماحولیاتی آفات کے طوفان میں بہہ جائیں گی۔ لیکن اگر ہم متحد ہو کر منصوبہ بندی کریں تو کسان دوبارہ اپنے کھیت آباد کرے گا، سبزیاں اور اناج اگائے گا، اور یوں پاکستان کی معیشت ایک بار پھر مضبوطی کی طرف گامزن ہوگی۔

جواب دیں

Back to top button