
اسرائیلی جارحیت، پاکستان کا واضح موقف
تحریر :سی ایم رضوان
واہ کیا بات ہے امریکہ کی اور کیا کہانیاں ہیں اس کے طاقت کے اظہار کی اور کیا کیا گل کھلائے ہیں اس نے پچھلی نصف صدی میں۔ امریکہ نے افغانستان میں مسلمانوں کو مارا ہے، شام میں مسلمانوں کو مارا ہے، عراق میں مسلمانوں کو مارا ہے، اب جبکہ صدر ٹرمپ جنگ مخالف بیانیہ لے کر اقتدار میں آیا ہے تو اس کا مائی باپ اسرائیل فلسطین میں ہزاروں مسلمانوں کو مار چکا ہے اور مسلسل مارے جا رہا۔ تادم تحریر بھی مسلمانوں کی قتل و غارت جاری ہے اور یہ انتہائی ظالمانہ اور خونی حقیقت کا مظہر کردار ہے۔ پوری دنیا نے دیکھا ہے کہ گزشتہ کئی دہائِیوں کے دوران امریکہ نے کئی مسلم ممالک میں جنگیں چھیڑیں۔ کئی مسلمانوں کو ہلاک کیا، کئی مسلمانوں کو شدید مصائب میں مبتلا کیا ہے، کئی مسلم بچوں کو ہلاک کیا ہے اور کئی مسلمانوں کے ساتھ بدسلوکی کی اور انہیں بنیادی انسانی حقوق سے محروم کیا ہے۔ کسی نے نہیں دیکھا کہ امریکہ نے ان ممالک کے مسلمانوں کی جانوں اور انسانی حقوق کا خیال رکھا ہو۔ 2001 ء کے گیارہ ستمبر کے واقعے کے بعد امریکہ کی طرف سے شروع کی جانے والی افغان جنگ کے بعد سے افغان عوام شدید پریشانیوں، مصیبتوں میں جکڑے ہوئے ہیں۔ تب سے خطہ میں دہشت گردوں کی کمین گاہیں بنی ہوئی ہیں جن سے افغانستان کے ہمسایہ ملک پاکستان میں، کتنے ہی عام شہری اور کتنے مسلمان مارے جا چکے ہیں، امریکہ کی قیادت میں مغربی اتحادی فوج کی نام نہاد غلط بمباری میں کئی معصوم شہری مارے گئے امریکہ کی چھیڑی ہوئی عراق، شام اور لیبیا کی جنگیں بہت بڑی انسانی تباہ کاریوں کا باعث بنیں، لاتعداد مسلمانوں کی جانیں لے چکی ہیں۔ تاہم اب تک کس نے ان کے جنگی جرائم کی تفتیش کی ہے؟ کیا انہوں نے کبھی دوسروں کو تفتیش کی اجازت دی ہے؟۔
امریکی اور مغربی طاقتوں کے مظالم کے حوالے سے بہت ساری تصاویر ہیں جو عالمی میڈیا پر چلتی رہیں۔ عراقی جنگ کے دوران امریکہ نے تباہی پھیلانے والے اسلحہ رکھنے کے بہانے عراق کی جائز حکومت کا تختہ الٹا، عراق کے قومی رہنما کو پھانسی دی۔ امریکہ نے لاتعداد بے گناہ شہریوں اور مسلمانوں کو ہلاک کیا۔ پھر ایک دن امریکی حکومت نے اعتراف کیا کہ سابق عراقی حکومت کے پاس بڑے پیمانے پر تباہی پھیلانے والے کسی ہتھیار کی موجودگی کا کوئی ثبوت نہیں ملا۔ کیا اتنے بڑے انسانی المیہ کے لئے یہ ایک جملہ کافی تھا؟ امریکہ نے یہ بھی نہیں کہا کہ امریکہ ان ہلاکتوں پر شرمندہ ہے۔ بالفاظ دیگر اس جنگ کو چھیڑنے کی وجہ نہیں تھی کوئی بہانہ نہیں تھا۔ اس بے وجہ جنگ میں بہت سارے لوگ بغیر کسی وجہ کے مارے گئے۔ اس کا ذمہ دار کون ہے؟ عالمی ضمیر کی جانب سے کم از کم اتنا پوچھنا تو بنتا ہے کہ امریکیوں نے کب مسلمانوں کی جانوں کا خیال رکھا ہے؟ کب ان کے انسانی حقوق کی پروا کی ہے؟۔
در حقیقت، ایسی بہت ساری مثالیں موجود ہیں جو سوال کرتی ہیں کہ کیا امریکہ نے شامی مسلمانوں کی جانوں اور انسانی حقوق کی پروا کی ہے؟ کیا امریکہ فلسطینی مسلمانوں کی جانوں اور انسانی حقوق کی پرواہ کرتا ہے؟ پھر اچانک امریکہ کو انسانی حقوق اور جنگ بندیوں کی فکر کیوں ہونے لگی ہے؟ منافقانہ اخلاقی اونچی زمین پر کھڑے ہو کر اپنے سیاسی مقاصد کے لئے خود مختار ملکوں پر باپندیاں عائد کرنا، ان ملکوں کی حکومتوں کا تختہ الٹنا اور بڑے پیمانے پر جنگیں شروع کر کے انسانی تباہی پھیلانا امریکہ کا معمول رہا ہے جسے اب ٹرمپ کی سیاسی پالیسی کے تناظر میں اسرائیل نے جاری رکھا ہوا ہے۔ کیا ان کی ان وحشیانہ کارروائیوں کو اقوام متحدہ کی منظوری حاصل ہوتی ہے؟ انہوں نے کب عالمی برادری کو اپنے مظالم کی تحقیقات کی اجازت دی ہے؟ حقیقت میں امریکہ کی نظر میں یہ دنیا طاقت کی جگہ ہے جہاں جنگل کا قانون چلتا ہے۔ امریکہ خود کو جنگل کا بادشاہ سمجھتا ہے اور غنڈہ گردی کی سیاست کرتا ہے اور یہ تصور اس کی جڑوں میں پنپ چکا ہے۔ اب اسرائیل عالمی بدمعاش کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ سلسلہ وار اسرائیلی جارحیت کے خلاف پاکستان کی جانب سے شدید احتجاج، سخت ترین سفارتی پالیسی اور بیانات اب محض بیان بازی نہیں رہے بلکہ ایک واضح اور دو ٹوک موقف اور جارحیت کے خلاف دنیا بھر کا نمایاں محاذ بن گئے ہیں۔ جس کا ایک پہلو یہ ہے کہ گزشتہ روز اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل میں اسی بحث کے دوران پاکستان اور اسرائیل کے درمیان سخت جملوں کا تبادلہ بھی ہوا اور پاکستان نے قطر میں حماس رہنمائوں پر حالیہ اسرائیلی حملے کو غیر قانونی، بلا اشتعال اور خطے کے استحکام کے لئے خطرہ قرار دیا۔ پاکستان اور اسرائیل کے مابین سخت جملوں کا یہ تبادلہ مشرقِ وسطیٰ کی صورتحال پر بلائے گئے ہنگامی اجلاس میں ہوا۔ یہ اجلاس الجزائر، پاکستان اور صومالیہ کی درخواست پر طلب کیا گیا تھا، جس کی حمایت فرانس اور برطانیہ نے بھی کی تھی۔ پاکستان کے مستقل مندوب برائے اقوام متحدہ عاصم افتخار احمد نے اپنے خطاب کا آغاز اسرائیلی حملے کی سخت مذمت سے کیا اور اسے قطر کی خود مختاری کی خلاف ورزی اور ڈھٹائی پر مبنی غیر قانونی کارروائی قرار دیا۔ انہوں نے کہا کہ یہ کوئی الگ واقعہ نہیں بلکہ اسرائیل کی جارحیت اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزی کے ایک بڑے اور مستقل سلسلے کا حصہ ہے جو خطے کے امن و استحکام کو کمزور کرتا ہے۔ عاصم افتخار نے مزید کہا کہ اسرائیلی حملوں نے ایک رہائشی علاقے کو نشانہ بنایا، جس سے شہریوں کی زندگیاں جان بوجھ کر خطرے میں ڈالی گئیں، لہٰذا یہ بین الاقوامی انسانی قانون کی سنگین خلاف ورزی ہے۔ انہوں نے اس حملے کو سفارت کاری کے لئے براہِ راست چیلنج قرار دیا کیونکہ یہ اس وقت کیا گیا جب غزہ کے حوالے سے حساس مذاکرات ممکنہ کامیابی کی طرف بڑھ رہے تھے۔ ان کے مطابق کسی اہم ثالث کے علاقے اور براہِ راست مذاکرات میں شامل افراد کو نشانہ بنانا دراصل سفارت کاری کو سبوتاژ کرنے، امن کی کوششوں کو ناکام بنانے اور شہریوں کی مشکلات بڑھانے کی دانستہ کوشش ہے۔ انہوں نے قطر کے ساتھ پاکستان کی یکجہتی پر زور دیتے ہوئے وزیر اعظم شہباز شریف اور وزیر خارجہ اسحاق ڈار کے حالیہ دورہ دوحہ کو مثال کے طور پر پیش کیا اور کہا کہ یہ دورہ قطر کی سلامتی و خودمختاری کے لئے پاکستان کی غیر متزلزل حمایت اور مشرق وسطیٰ میں امن کے لئے عزم کی علامت ہے۔ انہوں نے اسرائیلی حملے کو اقوام متحدہ کے چارٹر بالخصوص آرٹیکل 2(4)کی خلاف ورزی بھی قرار دیا۔
جو کسی ریاست کی علاقائی سالمیت یا سیاسی آزادی کے خلاف طاقت کے استعمال یا اس کی دھمکی کو ممنوع قرار دیتا ہے۔ پاکستانی سفیر نے خبردار کیا کہ یہ حملہ اسرائیل کی اس پالیسی کا حصہ ہے جو غزہ، شام، لبنان، ایران اور یمن میں سرحد پار کارروائیوں کی ایک طویل تاریخ رکھتی ہے، انہوں نے کہا کہ یہ بین الاقوامی قانون کی منظم خلاف ورزی اور خطے کو عدم استحکام کا شکار کرنے کی اسرائیل کی کھلی پالیسی کی ایک اور مثال ہے۔ انہوں نے یاد دہانی کرائی کہ سلامتی کونسل نے اسی روز ایک بیان میں دوحہ پر حملوں کی متفقہ مذمت کی، جانی نقصان پر افسوس کا اظہار کیا، کشیدگی کم کرنے کی اہمیت پر زور دیا اور قطر کی خود مختاری اور علاقائی سالمیت کی توثیق کی، بیان میں قطر کے مصر اور امریکا کے ساتھ مل کر غزہ جنگ بندی کے مذاکرات میں کلیدی کردار کو بھی سراہا گیا۔ دوسری طرف سے اسرائیل کے سفیر نے ابتدا میں اپنے خطاب میں پاکستان میں اسامہ بن لادن کی ہلاکت کی مثال دی تاکہ دوحہ پر حملے کا جواز پیش کر سکیں۔ انہوں نے کہا کہ جب بن لادن کو پاکستان میں ختم کیا گیا تو سوال یہ نہیں تھا کہ غیر ملکی سرزمین پر دہشت گرد کو کیوں نشانہ بنایا گیا، سوال یہ تھا کہ ایک دہشت گرد کو پناہ کیوں دی گئی؟ یہی سوال آج بھی اٹھتا ہے، بن لادن کے لئے کوئی استثنیٰ نہیں تھا، اور حماس کے لئے بھی نہیں ہے۔ اس پر پاکستان نے فوری طور پر جواب دینے کا حق استعمال کیا، سفیر عاصم افتخار احمد نے اس موازنے کو ’’ ناقابل قبول اور بیہودہ‘‘ قرار دیتے ہوئے الزام لگایا کہ اسرائیل اپنی ’’ غیر قانونی کارروائیوں اور بین الاقوامی قانون کی خلاف ورزیوں‘‘ سے توجہ ہٹانے کی کوشش کر رہا ہے۔ انہوں نے کہا کہ ’’ یہ ( اسرائیل) اقوام متحدہ کے چارٹر اور بین الاقوامی قانون کا مسلسل خلاف ورزی کرنے والا ایک قابض ہے جو عالمی برادری، انسانی حقوق کی تنظیموں اور حتیٰ کہ خود اقوام متحدہ کو بھی دھمکاتا ہے، اور یہ سب کچھ استثنیٰ کے ساتھ کرتا ہے، حملہ آور ہونے کے باوجود یہ خود کو مظلوم ظاہر کرتا ہے، مگر آج یہ مکمل طور پر بے نقاب ہو چکا ہے۔ انہوں نے پاکستان کے دہشت گردی کے خلاف کردار پر بھی زور دیتے ہوئے کہا کہ بین الاقوامی برادری بخوبی جانتی ہے کہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں پاکستان نے بے پناہ قربانیاں دی ہیں، القاعدہ بڑی حد تک پاکستان کی انسدادِ دہشت گردی کی کوششوں کے باعث ختم ہوئی، اور ہم اس اجتماعی جدوجہد کے لئے پُرعزم ہیں۔ اس کے جواب میں اسرائیلی سفیر نے کہا کہ پاکستان اور دیگر ممالک دہرا معیار اپناتے ہیں‘‘، انہوں نے کہا کہ ’’ ہو سکتا ہے میری باتوں سے انہیں تکلیف پہنچی ہو اور میں اس پر معذرت خواہ ہوں، لیکن میں ہمیشہ حقائق پر بات کرتا ہوں، حقیقت یہ ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں مارا گیا، اور اس پر کسی نے امریکہ پر تنقید نہیں کی، جب دوسرے ممالک دہشت گردوں پر حملہ کرتے ہیں تو کوئی ان کی مذمت نہیں کرتا۔ امریکہ کی ہمدردی حاصل کرنے کی ناکام کوشش کرتے ہوئے انہوں نے مزید کہا کہ آپ اس حقیقت کو تبدیل نہیں کر سکتے کہ نائن الیون ہوا تھا اور نہ ہی یہ حقیقت بدل سکتی ہے کہ اسامہ بن لادن پاکستان میں تھا اور وہیں مارا گیا، جب آپ ہم پر تنقید کرتے ہیں تو ذرا یہ سوچیں کہ آپ اپنے ملک کے لئے کون سے معیار اپناتے ہیں اور اسرائیل کے لئے کون سے‘‘۔
قارئین! اسرائیل کا یہ موقف سابق امریکی پالیسی کا غماز بھی ہے اور تسلسل بھی کہ وہ ڈھٹائی کے ساتھ جارحیت کا جواز بھی پیش کر رہا ہے اور ساتھ ہی نہ صرف فلسطین پر ظلم جاری رکھے ہوئے ہے بلکہ دنیا میں جس ملک پر بھی چاہے چڑھ دوڑتا ہے مگر پاکستان اس کی ہر جارحیت پر واضح دو ٹوک اور موثر آواز بلند کر رہا ہے اور دنیا اور خطہ کے امن کو ترجیح دے رہا ہے۔
سی ایم رضوان







