خسارہ
خسارہ
تحریر : صفدر علی حیدری
کتاب ہدایت کہتی ہے
’’ انسان ہر آن خسارے میں ہے ‘‘
اور انسانوں کی اکثریت کا یہی حال ہے ۔ بنی نوع انسان کی غالب اکثریت خسارے کی فصل کاٹ رہی ہے۔ اور عجیب بات یہ ہے کہ انھیں اس بات کا احساس بھی نہیں ہے کہ وہ گھاٹا پانے والے ہیں۔
وائے ناکامی متاع کارواں جاتا رہا
کارواں کے دل سے احساس زیاں جاتا رہا
منیر نیازی کے الفاظ میں
میری ساری زندگی کو بے ثمر اس نے کیا
عمر میری تھی مگر اس کو بسر اس نے کیا
مولا علیؓ کا فرمان ہے
’’ دنیا والے ایسے سواروں کے مانند ہیں جو سو رہے ہیں اور سفر جاری ہے ‘‘
حالاں کہ
’’ افسوس ! زادِ راہ تھوڑا ، راستہ طویل، سفر دور دراز اور منزل سخت ہے ‘‘
تاریخ انسانی شاہد ہے کہ کسی بھی دور میں ، اکثریت کبھی بھی حق پرست نہیں رہی ۔ حق پرست سدا اقلیت میں ہی رہے ہیں۔ سدا کمزور، غریب اور مظلوم بھی۔
ہر دور میں الٰہی دعوت پر سب سے پہلے نچلے طبقے کے پسے ہوئے عوام نے لبیک کہا۔ نتیجتاً ان پر ظلم کے پہاڑ توڑے گئے۔ ان پر عرصہ حیات تنگ کر دیا گیا۔ گویا ان کے حالات پہلے سے زیادہ برے ہو گئے۔ مگر آفرین ہے ان پر، وہ پھر بھی ثابت قدم رہے۔ اور سرخ رو ٹھہرے۔ یہ دیگر بات کہ بعد میں آنے والے موقع پرستوں نے انھیں پیچھے دھکیل کر خود کو نمایاں کر لیا اور نامور ٹھہرے ۔ آپ دنیا میں اٹھنے والی کسی بھی تحریک کو دیکھ لیجیے۔ دور کیوں جائیں، تحریک پاکستان ہی کو دیکھ لیجیے۔ قائد اعظمؒ کو کہنا پڑا میری جیب میں کھوٹے سکے ہیں۔
گویا
منزل انھیں ملی جو شریک سفر نہ دے
خالق کل نے محض ایک جملے میں انسانوں کی حقیقت کھول کر رکھ دی ہے ۔ یہ جملہ سورہ عصر کا حصہ ہے ۔ یہ سورہ مبارکہ نہایت مختصر ہونے کے ساتھ نہایت جامع انداز میں زندگی کی ناپائیداری ، انسان کے مقصد حیات اور اسلامی تعلیمات کے بارے میں ایک جامع ترین تعبیر پیش کرتی ہے ۔ خداوند متعال نے اس کی پہلی آیت میں زمانے کی قسم کھائی ہے اور اسے گواہ بنا کر یہ فرمایا ہے
’’ قسم ہے زمانے کی، انسان یقینا خسارے میں ہے‘‘
کہا جا سکتا ہے کہ انسان زمانے کے ہاتھوں خسارہ اٹھا رہا ہے۔ حقیر سے دنیاوی فائدے کے لیے عظیم کامیابی سے ہاتھ دھو رہا ہے۔
زمانہ انسان سے ہر لمحے اس کی زندگی کا ایک حصہ ختم کر رہا ہوتا ہے۔ انسان کی ہر سانس ایک قدم ہے جو اسے موت کی طرف بڑھائے لیے جا رہا ہے۔
ہر سانس میں انسان اپنی زندگی کا ایک حصہ اپنے ہاتھ سے دے رہا ہوتا ہے
زمانہ چونکہ عجائبات پر مشتمل ہی اور اس میں احوال کا تبدیل ہونا دیکھنے والے کے لئے عبرت کا سبب ہوتا ہے اور یہ چیزیں اللّٰہ تعالیٰ کی قدرت و حکمت اور اس کی وحدانیّت پر دلالت کرتی ہیں۔
کائنات میں ہر انسان کے لیے سب سے اہم چیز خود اس کی زندگی ہے اور اسی کا سب سے بڑھ کر نقصان ہوتا رہتا ہے۔
کہتے ہیں ایک شخص برف بیچ رہا تھا اور آواز لگائے جاتا تھا
’’ ترس کھائو اس شخص پر جس کا سرمایہ پگھلتا جا رہا ہے‘‘
یہ زندگی بھی اسی طرح ، ہر آن اس کے ہاتھ سے نکلتی جا رہی ہے، مٹھی میں دبی ریت کی طرح۔ جو اس دنیا میں اسے سب زیادہ عزیز ہے، اسے ہاتھ سے دے رہا ہے اور زندگی دے کر اس کی کوئی تلافی نہیں ہو رہی۔
حکیم اسلام فرماتے ہیں
’’ جو شخص اپنے نفس کا محاسبہ کرتا ہے وہ فائدہ اٹھاتا ہے اور جو غفلت کرتا ہے وہ نقصان میں رہتا ہے۔ جو ڈرتا ہے وہ ( عذاب سے) محفوظ ہو جاتا ہے اور جو عبرت حاصل کرتا ہے وہ بینا ہو جاتا ہے، اور جو بینا ہوتا ہے وہ با فہم ہو جاتا ہے، اور جو با فہم ہوتا ہے اسے علم حاصل ہو جاتا ہے ‘‘
قرآن صرف یہی نہیں بتاتا کہ
یہ انسان ہر آن خسارے میں ہے۔
بلکہ وہ ان خوش بخت انسانوں کا ذکر بھی کرتا ہے جو خسارے سے بچے ہوئے ہیں اور اس طریقے کی طرف رہنمائی بھی کرتا ہے کہ جو اسے عظیم خسارے سے بچا کر عظیم کامیابی سے ہم کنار کرتی ہے۔
’’ سوائے ان لوگوں کے جو ایمان لائے ‘‘
بات یہیں پر ختم نہیں ہوتی
’’ اور نیک اعمال بجا لائے‘‘
بات آگے بڑھتی ہے۔
’’ اور جو ایک دوسرے کو حق بات کی تاکید کرتے ہیں اور صبر کی تلقین کرتے ہیں‘‘
گویا اس خسارے سے وہ لوگ محفوظ ہیں۔ جن میں درج ذیل چار صفات موجود ہوں۔
پہلی صفت ایمان ہے ۔ مومن اپنی زندگی بغیر کسی تلافی کے ہاتھ سے جانے نہیں دیتا۔ اس تلافی کا پہلا قدم ایمان ہے۔
دوسری صفت ایمان کے بعد عمل صالح ہے چوں کہ ایمان ایک جامد فکر و عقیدے کا نام نہیں ہی۔ ایمان کے اثرات ہوتے ہیں اور وہ اعمال صالحہ ہیں۔ اس نام نہاد ایمان کی کوئی قیمت نہیں جس کا کردار پر کوئی اثر نہ ہو۔
مومن ایمان و عمل صالح کے ذریعے اپنی زندگی کی، جو اس کے ہاتھ جا رہی ہے، تلافی کرتا ہے۔ مومن کس چیز سے اس کی تلافی کرتا ہے جو زندگی کی قیمت کے برابر ہو ۔ جواب یہ ہے کہ مومن دنیا کی زندگی دے کر آخرت کی زندگی لیتا ہے۔ زندگی سے کم کسی اور چیز سے اس خسارے کی تلافی ممکن ہی نہیں ہے ۔ یعنی زندگی کی قیمت میں اخروی زندگی حاصل کی جائے تو خسارہ نہیں ہوتا ۔
ارشاد قدرت ہے
’’ جو نیک عمل کرے خواہ مرد ہو یا عورت بشرطیکہ وہ مومن ہو تو ہم اسے پاکیزہ زندگی ضرور عطا کریں گے ‘‘
لہٰذا مومن نہ صرف خسارے میں نہیں ہے بلکہ وہ سراسر فائدے میں ہے۔ اس دنیا کی پرآشوب زندگی کو دے کر آخرت کی پاکیزہ زندگی حاصل کرتا ہے۔
تیسری بات یہ ہے کہ ایک دوسرے کو حق کی تلقین کرنا عمل صالح میں شامل ہے۔ اس کے باوجود حق کی تلقین کی اہمیت کے پیش نظر اس کا خصوصی ذکر فرمایا۔ حق باطل کے مقابلے میں آتا ہے۔ حق وجود اور ثبوت کو کہتے ہیں اور باطل عدم اور نابودی کو کہتے ہیں۔ حق کی دعوت ایک ایسی عمومیت کی حامل ہے جس میں تمام حقائق شامل ہو جاتے ہیں۔ خواہ ان کا تعلق عقائد سے ہو یا احکام سے یا اخلاقیات سے۔
اور چوتھی بات ایک دوسرے کو صبر کی تلقین کرنا ۔ یہ اعمال صالحہ میں شامل ہے پھر بھی اس کی اہمیت کے پیش نظر اس کا خصوصی طور پر ذکر فرمایا ہے۔ چونکہ حق کا حصول اور حق کی تلقین ایسی چیز نہیں ہے جو آسانی سے ہاتھ آ جائے۔ یہ نہایت صبر آزما ہوتا ہے۔
حضرت علیؓ سے روایت ہے:
’’ حق مقام بیان میں سب سے زیادہ وسیع تر ہے مگر مقام عمل میں سب سے زیادہ تنگ تر ہے ‘‘
حضرت امام جعفر صادقؒ سے روایت ہے
’’ اللہ کی اطاعت کی بنیاد صبر ہے‘‘
دوسری حدیث ہے:
’’ جب صبر چلا جاتا ہے تو ایمان چلا جاتا ہے‘‘
مولا علیؓ فرماتے ہیں
’’ اللہ کی اطاعت پر صبر کرنا اللہ کے عذاب پر صبر کرنے سے زیادہ آسان ہے‘‘
نیز
’’ خواہشات پر صبر کرنا پاک دامنی ہے۔ غصے کے موقع پر صبر کرنا بہادری ہے۔ گناہ ترک کرنے پر صبر کرنا پرہیز گاری ہے‘‘
وقت انسان کا سب سے قیمتی اثاثہ ہے اور اس سرمائے سے وہ اُسی صورت میں نفع اٹھا سکتا ہے جب وہ اِسے اللّٰہ تعالیٰ کی اطاعت و فرمانبرداری میں خرچ کرے۔ اور اگر وہ یہ سرمایہ اللّٰہ تعالیٰ کے ساتھ کفر کرنے، اس کی نافرمانی کرنے اور گناہوں میں خرچ کرتا رہا تو اسے کوئی نفع نہ ہو گا بلکہ بہت بڑا نقصان اٹھائے گا۔
انسان کی زندگی کا جو حصہ اللّٰہ تعالیٰ کی عبادت میں گزرے وہ سب سے بہتر ہے۔
دنیا سے اِعراض کرنا اور آخرت کی طلب میں اور اس سے محبت کرنے میں مشغول ہونا انسان کے لئے سعادت کا باعث ہے ۔
اللّٰہ تعالیٰ ارشاد فرماتا ہے:
’’ اور جو آخرت چاہتا ہے اور اس کے لیے ایسی کوشش کرتا ہے جیسی کرنی چاہیے اور وہ ایمان والا بھی ہوتو یہی وہ لوگ ہیں جن کی کوشش کی قدر کی جائے گی‘‘۔
انسان کو چاہیے کہ پہلے خود نیک بنے، پھر دوسروں کو ہدایت کرے جیسا کہ آیت میں ترتیب سے بیان کیا گیا ہے ۔ دوسرے یہ کہ ہمیشہ تبلیغ کرے، صبر کی حق بات کی ۔
گویا امر بالمعروف اور نہی عم المنکر کو اوڑھنا بچھونا بنائے رکھے۔
سورہ عصر پیغمبر اکرمؐ کے اصحابؓ کے درمیان اتنی اہمیت کے حامل تھی کہ جب وہ ایک دوسرے سے ملتے تھے تو سورہ عصر سنائے بغیر ایک دوسرے سے جدا نہیں ہوتے تھے۔
منقول ہے کہ جو بھی مستحب نمازوں میں سورہ عصر کی تلاوت کرے تو قیامت کے دن اس کا چہرہ نورانی ہوگا، مسکراتا اور چمکتی آنکھوں کے ساتھ بہشت میں اسے داخل کیا جائے گا۔
امام شافعیؒ اس سورت کی جامعیت و اہمیت بیان کرتے ہوئے فرماتے ہیں کہ اگر اس سورت کے علاوہ قرآن شریف میں سے کوئی اور سورت نازل نہ ہوتی تو یہی سورت پوری امت کی ہدایت کے لئے کافی ہوتی۔
حقیقت یہ ہے کہ جو شخص اپنے وقت کی قدر کرے، تو وہ اپنی زندگی میں بے پناہ منافع و فوائد حاصل کر سکتا ہے اور اپنے سرمایہ سے خوب نفع اٹھا سکتا ہے۔ اس کے برخلاف جو شخص اپنا وقت ضائع کرے، تو وہ اپنا سرمایہ کھو دے گا اور بہت خسارہ اٹھائے گا۔
مال و دولت میں سے انسان کے پاس مختلف سرمائے ہوتے ہیں لیکن وقت اور دوسرے سرمایوں کے درمیان بڑا فرق یہ ہے کہ دیگر سرمائے اگر ضائع ہو جائیں، تو ان کو واپس حاصل کرنا ممکن ہے لیکن اگر وقت ضائع ہو جائے تو اس کو دوبارہ حاصل کرنا ممکن نہیں ہے ۔ انسان جو کچھ بھی حاصل کرنا چاہے خواہ موجودہ حال میں ہو یا مستقبل میں ہو، اس کے لئے ضروری ہے کہ وہ اس کو وقت ہی کے اندر حاصل کرے اور وقت کی خاصیت یہ ہے کہ وہ کسی کا انتظار نہیں کرتا ہے؛ بلکہ وہ ہمیشہ چلتا رہتا ہے، لہذا انسان کو چاہئے کہ وہ اپنے وقت کی قدر دانی کرے۔
اب یہ ہر انسان پر موقوف ہے کہ وہ سوچے اور فیصلہ کرے کہ وہ اپنے لئے کیا چاہتا ہے، کیا وہ اپنے لئے دنیا اور آخرت میں بھلائی چاہتا ہے یا وہ اپنے لیے دنیا اور آخرت میں ہلاکت و بربادی چاہتا ہے ۔ اگر تو وہ اخروی بھلائی کا طالب ہے تو اسے چاہیے کہ وہ چار کام کرے یعنی
ایمان لانا
نیک اعمال کرنا
اور گناہوں سے بچنا
ایک دوسرے کو اچھائی اور نیکی کی ترغیب دینا
ایک دوسرے کو برائی سے باز رہنے کی نصیحت کرنا
نبی کریم ؐ نے پیش گوئی فرمائی کہ ایک زمانہ ایسا آئے گا کہ انسان ایک دن یا ایک رات میں اپنا ایمان کھو دے گا۔ چنانچہ حدیث شریف میں آیا کہ رسولؐ اللہ نے ارشاد فرمایا کہ انسان صبح گزارے گا مومن ہونے کی حالت میں اور شام کو کافر ہو جائے گا۔ اسی طرح شام کو گزارے گا مومن ہونے کی حالت میں اور صبح کو کافر ہو جائیگا اور وہ دنیا کی معمولی سی چیز کے بدلے اپنا دین و ایمان بیچے گا۔
بہت سے اعمال ایسے ہیں جو انسان کو اپنے ایمان سے محروم کر سکتے ہیں
آخر میں ایک حسب حال شعر
غافل تجھے گھڑیال یہ دیتا ہے منادی
گردوں نے گھڑی عمر کی اک اور گھٹا دی
صفدر علی حیدری





