فلسطین کے دو ریاستی حل کی جانب بڑی پیشرفت

فلسطین کے دو ریاستی حل
کی جانب بڑی پیشرفت
اقوام متحدہ کی جنرل اسمبلی میں حال ہی میں پیش کی جانے والی قرارداد جس میں سعودی عرب اور فرانس کی جانب سے تجویز کردہ ’’نیویارک اعلامیہ’’ کی حمایت کی گئی، ایک تاریخی لمحہ ہے جو نہ صرف مشرق وسطیٰ بلکہ پوری دنیا کے سیاسی افق پر گہرے اثرات مرتب کرے گا۔ اس قرارداد کے حق میں 142ممالک کا ووٹ دینا اس بات کا ثبوت ہے کہ بین الاقوامی برادری بالآخر فلسطین کے دیرینہ مسئلے کو انصاف اور امن کے اصولوں کے تحت حل کرنے کے لیے سنجیدہ ہوچکی ہے۔ یہ قرارداد ایک ایسے وقت میں منظور کی گئی ہے جب فلسطین، خصوصاً غزہ، شدید انسانی بحران سے دوچار ہے۔ اسرائیلی افواج کی جانب سے جاری حملے، مغربی کنارے میں گرفتاریوں اور مسلسل کرفیو جیسے جابرانہ اقدامات نے خطے کو ایک کھلے قید خانے میں تبدیل کر دیا ہے۔ تازہ اسرائیلی کارروائیوں میں 72فلسطینی شہادت پا چکے ہیں جبکہ طولکرم میں 100سے زائد افراد کو حراست میں لیا گیا ہے۔ ان اقدامات کی روشنی میں یہ قرارداد ایک اخلاقی و سیاسی موقف کا اظہار ہے، جو عالمی ضمیر کی بیداری کا مظہر ہے۔ قرارداد میں واضح طور پر اسرائیل اور فلسطین کے درمیان دو ریاستی حل کی حمایت کی گئی ہے، جو اقوام متحدہ کی دیرینہ پالیسی رہی ہے۔ تاہم، اس قرارداد کی خاص بات یہ ہے کہ اس میں پہلی مرتبہ حماس کی جانب سے 7اکتوبر 2023ء کے حملوں کی براہِ راست مذمت کی گئی ہے۔ قرارداد میں کہا گیا ہے کہ حماس کو غزہ پر اپنی حکمرانی ختم کرنی ہوگی اور اپنے ہتھیار فلسطینی اتھارٹی کے حوالے کرنے ہوں گے تاکہ ایک آزاد فلسطینی ریاست کے قیام کی راہ ہموار ہوسکے۔ یہ ایک اہم اور پیچیدہ نقطہ ہے، کیونکہ حماس غزہ میں فلسطینیوں کی بڑی آبادی کی نمائندگی کرتی ہے، مگر بین الاقوامی برادری اس کے عسکری اقدامات پر شدید تحفظات رکھتی ہے۔ قرارداد میں جنگ بندی، قیدیوں کی رہائی، اور پائیدار امن کی کوششوں پر زور دیا گیا ہے، جو کسی بھی جامع امن عمل کے بنیادی اجزاء ہیں۔ اس قرارداد کے حق میں 142ممالک نے ووٹ دیا، جو ایک واضح اکثریت ہے، تاہم اسرائیل اور امریکا سمیت 10ممالک نے اس کی مخالفت کی اور 12ممالک نے ووٹنگ میں حصہ نہیں لیا۔ امریکا کی جانب سے مخالفت قابلِ فہم مگر افسوس ناک ہے، کیونکہ امن کا نعرہ لگانے والا ملک ایک ایسی قرارداد کی مخالفت کررہا ہے جو انسانی جانوں کے تحفظ اور علاقائی استحکام کی بات کرتی ہے۔ دوسری طرف متحدہ عرب امارات، قطر، پاکستان اور دیگر مسلم ممالک
کی جانب سے مثبت ردعمل سامنے آیا ہے۔ خاص طور پر قطر پر اسرائیلی حملے کے بعد یو اے ای کا شدید احتجاج اور اسرائیل کو دبئی ایئر شو سے روکنا ایک بڑا سفارتی قدم ہے جو عرب دنیا کے بدلتے رویوں کا مظہر ہے۔ اقوام متحدہ میں پاکستان کے مستقل مندوب عاصم افتخار نے نہایت مدلل اور دوٹوک انداز میں پاکستان کا موقف پیش کیا۔ انہوں نے دو ریاستی حل کی غیر مشروط حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی جارحیت، قطر میں حماس قیادت پر حملے کی مذمت کرتے ہوئے اسرائیل کو شدید تنقید کا نشانہ بنایا۔ ان کا یہ کہنا کہ اسرائیل اقوام متحدہ کے فورم کو اپنی غیر قانونی کارروائیوں کو چھپانے کے لیے استعمال کررہا ہے، ایک حقیقت پر مبنی بیان ہے جسے نظرانداز نہیں کیا جا سکتا۔ پاکستان نے نہ صرف فلسطین بلکہ سندھ طاس معاہدے کے تحت بھارت کی خلاف ورزیوں کا بھی ذکر کیا اور عالمی برادری کو باور کرایا کہ پانی جیسے وسائل کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرنا ایک خطرناک رجحان ہے۔ یہ بات قابل تحسین ہے کہ پاکستان بین الاقوامی مسائل پر جامع اور اصولی موقف اپنانے میں پیش پیش ہے۔ امریکی مندوب ڈوروتھی شیا کی طرف سے صدر ٹرمپ کے مبینہ بیان کا حوالہ کہ اسرائیلی حملے دوبارہ نہیں ہوں گے، محض ایک طفل تسلی سے زیادہ حیثیت نہیں رکھتا۔ جب تک امریکا اسرائیل کی ہر جارحیت کو غیر مشروط تحفظ فراہم کرتا رہے گا، ایسے بیانات محض زبانی جمع خرچ تصور کیے جائیں گے۔ امریکا کی جانب سے اس قرارداد کی مخالفت دراصل اس کے دہرے معیار کی عکاسی کرتی ہے، جو انسانی حقوق کی آڑ میں صرف اپنے مفادات کی حفاظت کرتا ہے۔ اس وقت سب سے بڑا سوال یہ ہے کہ آیا یہ قرارداد واقعی فلسطین کے لیے امن کی طرف ایک موقع ہے یا محض ایک سفارتی چال؟ ماضی میں بھی کئی بار دو ریاستی حل کی بات ہوئی، مگر زمینی حقائق نے ہمیشہ اس کے برعکس رخ اختیار کیا۔ اسرائیلی بستیوں کی توسیع، غزہ کی ناکہ بندی اور بین الاقوامی قوانین کی مسلسل خلاف ورزیوں نے دو ریاستی حل کو ایک خواب میں بدل دیا ہے۔ اگر واقعی عالمی برادری فلسطین میں امن چاہتی ہے تو اسے قراردادوں سے آگے بڑھ کر ان پر عمل کو یقینی بنانے میں اہم کردار کرنا ہوگا۔ اسرائیل پر دبائو، اقتصادی پابندیاں اور اقوام متحدہ کے تحت سخت نگرانی جیسے اقدامات ناگزیر ہیں۔ نیو یارک اعلامیے پر اقوام متحدہ کی قرارداد ایک امید کی کرن ہے مگر اس کے نتائج اس وقت تک سامنے نہیں آئیں گے جب تک عالمی طاقتیں، بالخصوص امریکا، اپنے مفادات سے بالاتر ہوکر انصاف اور قانون کی بنیاد پر فیصلے نہیں کرتے۔ حماس کو بھی اپنی حکمت عملی پر نظرثانی کرنی ہوگی، کیونکہ عسکری اقدامات سے امن ممکن نہیں۔ فلسطینی عوام کے حق خودارادیت کو تسلیم کرنا ہی خطے میں پائیدار امن کی واحد ضمانت ہے۔ اگر یہ قرارداد محض ایک سفارتی شو ثابت ہوئی تو تاریخ اسے ایک اور ناکام کوشش کے طور پر یاد رکھے گی، لیکن اگر اس کے تحت عملی اقدامات کیے گئے، تو یہ نہ صرف فلسطین بلکہ پوری دنیا کے لیے امن، انصاف اور انسانی حقوق کی بحالی کی طرف ایک مضبوط قدم ہوگا۔
سیلاب زدگان کے بجلی بل
معاف کرنے کی ہدایت
پنجاب اس وقت شدید سیلاب کی زد میں ہے۔ لاکھوں لوگ انتہائی مشکل دور سے گزر رہے ہیں، صوبائی حکومت سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی کی کوششوں میں تندہی سے مصروفِ عمل ہے۔ وفاق بھی صوبوں کی سیلابی صورت حال میں بھرپور مدد و معاونت فراہم کررہا ہے۔ وزیراعظم شہباز شریف نے جب سے منصب سنبھالا ہے، ملک و قوم کی بہتری کے لیے کوشاں ہیں اور اُن کے اقدامات کو بھرپور طور پر سراہا جاتا ہے۔ معیشت کی درست سمت کا تعین کرنا اُن کا عظیم کارنامہ ہے۔ ملک و قوم کی مشکلات اور مصائب میں کمی لانے کے لیے کوشاں رہتے ہیں۔ اُن کی جانب سے گزشتہ روز سیلاب سے متاثرہ علاقوں کے عوام کے لیے ایک ماہ کے بجلی کے بل معاف کرنے کا اعلان ایک خوش آئند اور انسان دوست فیصلہ ہے، جو نہ صرف متاثرہ خاندانوں کے لیے ریلیف کا باعث بنے گا بلکہ حکومت کی عوام دوستی کی پالیسی کو بھی اجاگر کرتا ہے۔ اس فیصلے کی خاص بات یہ ہے کہ وزیراعظم نے وزارتِ خزانہ کو واضح ہدایت دی ہے کہ اس ریلیف پیکیج پر عمل درآمد کے لیے آئی ایم ایف سے مشاورت کی جائے۔ یہ ایک محتاط حکمت عملی ہے، جو موجودہ معاشی صورتحال کے پیش نظر ناگزیر تھی۔ اگرچہ اس اقدام کا حتمی اطلاق آئی ایم ایف سے مشاورت کے بعد ہی ممکن ہوگا، لیکن حکومت کی نیت اور عوام کے ساتھ کھڑا ہونے کا عزم واضح ہے۔ وزیراعظم کی جانب سے وزیراعلیٰ پنجاب مریم نواز کی سیلابی صورت حال میں امدادی سرگرمیوں کو سراہنا اور دیگر اکائیوں خصوصاً خیبرپختونخوا، سندھ، گلگت بلتستان و آزاد کشمیر کی قیادت کی کوششوں کی تعریف کرنا بین الصوبائی ہم آہنگی کی جانب ایک مثبت اشارہ ہے۔ اس میں شبہ نہیں کہ قدرتی آفات جیسے چیلنجز میں قومی اتحاد اور یکجہتی کی ضرورت ہوتی ہے اور موجودہ حکومت اس پہلو پر بھی سنجیدگی سے کام کررہی ہے۔ پاک افواج سمیت فلاحی ادارے اور تنظیمیں سیلاب زدگان کی امداد اور بحالی میں پیش پیش ہیں۔ بڑی تعداد میں شہریوں کو ریسکیو کرکے محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے۔ سرکاری سطح کے ساتھ فلاحی اداروں کی جانب سے اُن کا ہر طرح سے خیال رکھا جارہا ہے۔ دوسری جانب وزیراعظم کا ترقیاتی منصوبوں میں تیزی اور معیار کے حوالے سے بیان بھی قابل توجہ ہے۔ ٹی چوک فلائی اوور اور اسلام آباد- راولپنڈی کے لیے مجوزہ ریل کار منصوبہ شہری سہولتوں کی بہتری کی جانب ایک اہم قدم ہے۔ وزیراعظم کا یہ عزم کہ ’’ترقیاتی منصوبوں میں معیار پر کوئی سمجھوتہ نہیں ہو گا’’ اس بات کا مظہر ہے کہ حکومت محض افتتاحی تقریبات پر اکتفا نہیں کرنا چاہتی بلکہ عملی نتائج دینا چاہتی ہے۔ اسی دوران وزیراعظم کا شہید میجر راجہ عزیز بھٹی نشان حیدر کو خراج عقیدت پیش کرنا ہمارے قومی ہیروز کی قربانیوں کو یاد رکھنے کا احسن اقدام ہے۔ 1965ء کی جنگ میں میجر عزیز بھٹی نے جو جرأت مندی دکھائی، وہ ہماری عسکری تاریخ کا روشن باب ہے۔ وزیراعظم نے بالکل درست کہا کہ افواجِ پاکستان نے ہمیشہ ملک کا دفاع ناقابل تسخیر عزم کے ساتھ کیا ہے اور پوری قوم اپنے ان سپاہیوں کے ساتھ شانہ بشانہ کھڑی ہے۔





