ColumnImtiaz Aasi

جیلوں میں سفارشی تبادلوں کا کلچر کب ختم ہو گا

جیلوں میں سفارشی تبادلوں کا کلچر کب ختم ہو گا
تحریر : امتیاز عاصی
پاکستان کی تاریخ اس بات کی گواہ ہے سیاست دانوں کے ان دعووں کے باوجود ہر کام میرٹ پر ہوتا ہے زیادہ تر کام میرٹ کے برعکس ہوتے ہیں۔ بدقسمتی سے سفارشی کلچر ختم ہونے میں نہیں آتا ہے۔ پیپلز پارٹی، مسلم لیگ نون اور پی ٹی آئی کے ادوار میں میرٹ کی دھجیاں اڑائی جاتی ہیں لیکن سیاست دانوں کے دعوے بدستور ہوتے ہیں وہ ہر کام میرٹ پر کرتے ہیں۔ دراصل وزراء اور ارکان اسمبلی کے اپنے اپنے مفادات ہوتے ہیں، اس مقصد کے لئے انہیں من پسند افسران کی ہمہ وقت ضرورت رہتی ہے۔ جیلوں کے افسران کے تبادلوں کی بات کریں تو موجودہ حکومت کے دور میں آئے روز جیل افسران کا من پسند جیلوں میں پوسٹنگ کرانا معمول بن گیا ہے۔ خصوصا ایسی جیلیں جہاں مال پانی زیادہ سے زیادہ ملتا ہو انہی جیلوں کے لئے افسران تگ و دو کرتے ہیں جن میں بعض افسر کامیاب ہو جاتے ہیں اور بعض انتظاری فہرست میں رہتے ہیں۔ پہلے ہم ایک ایسے جیل سپرنٹنڈنٹ کی بات کریں گے جو گریڈ سترہ میں ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ عہدہ میں رہتے ہوئے ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں بطور سپرنٹنڈنٹ تعینات رہا۔ گریڈ اٹھارہ میں ترقی پانے کے بعد کیمپ جیل لاہور اور جھنگ جیل میں سپرنٹنڈنٹ تعینات رہا۔ چند روز قبل اس کا تبادلہ ڈسٹرکٹ جیل راجن پور ہوا تو اس نے جانے سے انکار کر دیا۔ گزشتہ دنوں علی اکبر جو گریڈ اٹھارہ کا افسر ہے۔ اسے سینٹرل جیل میانوالی میں گریڈ انیس کی اسامی پر تعینات کر دیا گیا۔ گو کم گریڈ کے افسران کو اگلے گریڈ کے اسامی پر لگانے پر کوئی قدغن نہیں ہے۔ لیکن اس طرح کی پوسٹنگ اسی صورت میں ہوتی ہیں جب ہائر گریڈ کا کوئی افسر دستیاب نہ ہو، لیکن پنجاب کی جیلوں میں ہائر گریڈ کی پوسٹ پر نچلے گریڈ کے افسران کو لگانے کا رواج پڑگیا ہے۔ اس وقت پنجاب کی سینٹرل جیلوں ملتان، ڈیرہ غازی خان اور میانوالی میں گریڈ اٹھارہ کے سپرنٹنڈنٹ لگائے گئے ہیں، حالانکہ گریڈ انیس کے پانچ افسر آئی جی جیل خانہ جات کے آفس میں اپنی تعیناتی کے منتظر ہیں۔ گریڈ انیس کے ان افسران میں ڈاکٹر قدیر عالم، امتیاز احمد بھلی، ثاقب نذیر اور محمد عنصر شامل ہیں، جو عرصہ دراز سے اپنی نئی تعیناتی کے منتظر ہیں۔ جہاں تک ڈسٹرکٹ جیلوں کی بات ہے ڈسٹرکٹ جیل سیالکوٹ، خانیوال، چکوال اور اوکاڑہ میں گریڈ اٹھارہ کی اسامی پر گریڈ سترہ کے افسران کو سپرنٹنڈنٹ لگایا گیا ہے، حالانکہ یہ بات یقینی ہے گریڈ اٹھارہ کے افسر تعیناتی کے منتظر ہوں گے۔ چند روز قبل ڈسٹرکٹ جیل شیخوپورہ کے ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ افضال وڑائچ کو ہٹا کر ایک وفاقی وزیر کے سفارشی کو ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ لگایا گیا ہے، جبکہ تبدیل ہونے والے کی تعیناتی کا آفس آرڈر جاری نہیں کیا گیا ہے، لیکن چار روز بعد افضال وڑائچ کا تبادلہ منسوخ کرنا پڑا۔ ایک ذمہ دار ذرائع نے ہمیں بتایا جس سپرنٹنڈنٹ کو راجن پور جیل میں لگایا گیا ہے وہ بھی نئی تعیناتی پر جانے کو تیار نہیں تھا اور اب اسے سینٹرل جیل میانوالی کا سپرنٹنڈنٹ لگا دیا گیا ہے۔ چند ماہ پہلے کی بات ہے ڈسٹرکٹ جیل فیصل آباد میں مردہ مرغیوں کا گوشت جیل کے اندر لاتے پکڑا گیا، جس کے بعد جیل سپرنٹنڈنٹ اور ڈپٹی سپرنٹنڈنٹ کو صوبائی سیکرٹری داخلہ نے ملازمت سے معطل کیا تو چند گھنٹوں بعد سیکرٹری صاحب کو معطلی کے احکامات واپس لینے پڑ گئے۔ عجیب تماشہ ہے گریڈ بیس کے ڈی آئی جی نے مردہ مرغیوں کے گوشت جیل اندر لے جانے کی انکوائری کی، جس کے بعد مذکورہ افسران کو معطل کیا گیا تھا، لیکن ڈی آئی جی کی انکوائری رپورٹ دھری کی دھری رہ گئی۔ قارئین! جیسا کہ آپ جانتے ہیں یہ ناچیز اکثر جیلوں میں قیدیوں کے حالات بارے کالم تحریر کرتا رہتا ہے۔ ہم اگر جیلوں میں پائی جانے والے مبینہ کرپشن کی بات کریں تو ایسے ایسے طریقہ کار ہیں جنہیں پکڑنا ممکن نہیں ہے۔ عام طور پر جیلوں میں باہر سے کوئی ٹیم دورہ کرنے آئے تو جیلوں کے سپرنٹنڈنٹس کو کئی روز پہلے مطلع کر دیا جاتا ہے جس کے بعد وہ اپنے اپنے معاملات درست کر لیتے ہیں۔ جب تک انسپکشن ٹیمیں جیلوں میں پہنچتی ہیں، ہر طرح سے سب اچھا ہو چکا ہوتا ہے، جس کے بعد انسپکشن ٹیم جیل بارے بہت اچھے انتظامات کی رپورٹ تحریر کرتی ہے۔ جیلوں میں ہونے والی مبینہ کرپشن بارے کسی نے پوچھنا ہو تو رہا ہونے والے قیدیوں سے دریافت کیا جائے، تاکہ جیلوں کے اندرونی حالات سے آگاہی ہو سکے۔ جیلوں میں پائی جانے والی مبینہ کرپشن کا کوئی ریکارڈ نہیں ہوتا۔ کرپشن کے تمام امور زبانی طے پاتے ہیں۔ سب سے پہلے تو کرپشن کا آغاز جیل ملازمین کی اندرون اور بیرون جیل ڈیوٹی لگانے سے ہو جاتا ہے۔ گریڈ نو کا ایک ہیڈ وارڈر جسے ڈیوٹی بک کہا جاتا ہے، مبینہ طور پر ملازمین سے ہزاروں روپے رشوت لے کر ڈیوٹی لگاتا ہے۔ ظاہر ہے یہ کام ایک ادنیٰ ملازم اپنے طور پر نہیں کر سکتا، بلکہ اسے کسی نہ کسی کی آشیر باد تو ضرور حاصل ہوتی ہے۔ جیلوں میں قیدیوں کی بیرکس، سینٹرل ٹاور جسے جیل کی زبان میں چکر کہا جاتا ہے۔ لنگر خانہ، فیکٹری اور سیلوں میں نذرانہ طے کئے بغیر ڈیوٹی نہیں لگائی جاتی۔ درحقیقت جیلوں میں کوئی شعبہ ایسا نہیں ہوتا جہاں مبینہ طور پر رشوت کا عمل دخل نہ ہو۔ اگر ہم مبینہ کرپشن کی تفصیل میں جائیں انسان ورطہ حیرت میں رہ جاتا ہے۔ جیسا کہ میں پہلے عرض کر چکا ہوں مبینہ کرپشن کے ایسے ایسے طریقے ہیں جنہیں پکڑنا اتنا آسان نہیں۔ اگر ہم جیل ہسپتال کی بات کریں تو لاکھوں روپے مبینہ رشوت کے عوض دھوکہ دہی اور نیب کیسوں میں آنے والوں سے لے کر رکھا جاتا ہے۔ جب باہر سے کوئی دورہ آنے کی اطلاع ہو تو ایسے قیدیوں کو فوری طور پر بیرکس میں شفٹ کر دیا جاتا ہے اور ہسپتال میں قیدیوں کے داخلہ کا نیا رجسٹر بن جاتا ہے جس میں داخل ہونے والے قیدیوں کو اندراج کیا جاتا ہے۔ جیل افسران میں بعض ایسے ہوتے ہیں جو مبینہ رشوت میں حصہ داری نہیں کرتے، ایسے جیل سپرنٹنڈنٹس کا عرصہ تعیناتی بہت کم ہوتا ہے اور جو سپرنٹنڈنٹ اچھا خاصا سب اچھا کرتے ہیں، وہ کئی، کئی سال جیلوں میں تعینات رہتے ہیں۔ اگر کوئی میری ان باتوں کی تردید کرنے کا خواہاں ہو تو اخبار کا صفحہ حاضر ہے ۔

جواب دیں

Back to top button