وزیراعظم کا دورہ قطر اسرائیلی جارحیت روکی جائے

وزیراعظم کا دورہ قطر
اسرائیلی جارحیت روکی جائے
قطر پر 9ستمبر کو ہونے والا اسرائیلی حملہ نہ صرف بین الاقوامی قوانین کی صریح خلاف ورزی ہے بلکہ مشرق وسطیٰ میں پہلے سے موجود کشیدگی کو مزید بھڑکانے کی سنگین کوشش ہے۔ پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف نے قطر کا ہنگامی دورہ کرکے اس اشتعال انگیز اقدام کی شدید مذمت کی اور برادر ملک کے ساتھ یکجہتی کا اظہار کیا۔ ان کا موقف واضح اور دوٹوک تھا، قطر کی خودمختاری اور علاقائی سالمیت پر حملہ پوری امتِ مسلمہ کے لیے خطرے کی گھنٹی ہے۔ یہ حملہ نہ صرف قطر کی سرزمین بلکہ اُس سوچ پر حملہ ہے جو مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے ثالثی کررہی تھی۔ حماس کے رہنمائوں کو براہِ راست نشانہ بناکر اسرائیل نے یہ پیغام دیا ہے کہ وہ سفارت کاری یا بات چیت کے کسی بھی دروازے کو کھلا نہیں چھوڑنا چاہتا۔ قابل غور بات یہ ہے کہ قطر برسوں سے فلسطین اور اسرائیل کے درمیان ثالثی کے لیے مرکزی کردار ادا کرتا آیا ہے۔ ایسے میں اس حملے کو محض ایک عسکری کارروائی قرار دینا حقیقت سے نظریں چرانے کے مترادف ہوگا۔ اسرائیل کی یہ جارحیت اس وقت ہوئی جب خطے میں امن کی کوششیں تیز ہورہی تھیں۔ یہ حملہ، جس میں حماس کے اعلیٰ رہنما الخلیل الحیا کے بیٹے سمیت دیگر افراد شہید ہوئے، بین الاقوامی ضوابط کی صریح خلاف ورزی ہے۔ قطر کی وزارت خارجہ اور وزیراعظم نے بجاطور پر اسے ریاستی دہشت گردی قرار دیا۔ حملے میں قطر کے سیکیورٹی ادارے کے ایک اہلکار کی شہادت اور دوحہ کے مرکزی مقامات پر حملہ واضح کرتا ہے کہ اسرائیل نے جان بوجھ کر قطر کی خودمختاری کو چیلنج کیا ہے۔ پاکستان کا ردعمل قابلِ تحسین ہے۔ وزیر اعظم شہباز شریف نے جس جرأت مندی اور بروقت اقدام کے ساتھ قطر کا دورہ کیا، وہ نہ صرف پاکستان کی خارجہ پالیسی میں اصولی موقف کی عکاسی کرتا ہے بلکہ اسلامی اخوت اور یکجہتی کی عملی مثال بھی ہے۔ انہوں نے قطری قیادت کو یقین دلایا کہ پاکستان اس مشکل وقت میں ان کے شانہ بشانہ کھڑا ہے اور اسرائیلی حملے کو عالمی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیتے ہوئے، اس کے خلاف اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کا ہنگامی اجلاس بلانے کی بھی درخواست دی گئی۔عالمی برادری کا ردعمل مختلف النوع رہا۔ روس نے اس حملے کی شدید مذمت کرتے ہوئے اسے اقوام متحدہ کے چارٹر کی خلاف ورزی قرار دیا۔ روسی وزارت خارجہ نے یہ بھی کہا کہ ایسے اقدامات مشرق وسطیٰ میں امن کے لیے خطرہ ہیں۔ کینیڈا نے اسرائیلی کارروائی پر اپنے تعلقات پر نظرثانی کا عندیہ دیا جب کہ وزیر خارجہ انیتا آنند نے اسے ناقابلِ قبول قرار دیتے ہوئے کہا کہ کینیڈا فلسطینی ریاست کو تسلیم کرنے کے امکانات پر غور کررہا ہے۔ یہ ایک بڑی تبدیلی کی نشان دہی ہے کہ مغرب میں بھی اسرائیل کی پالیسیوں پر سوال اٹھنے لگی ہیں۔ امریکا کی جانب سے قطر کے ساتھ یکجہتی کا اظہار، بظاہر ایک مثبت اشارہ ہے، لیکن اصل آزمائش تب ہوگی جب واشنگٹن اسرائیل پر دبائو ڈالے کہ وہ عالمی قوانین کا احترام کرے اور علاقائی طاقتوں کی خودمختاری کو چیلنج کرنا بند کرے۔ امیرِ قطر نے بجاطور پر امریکی صدر سے کہا کہ ان کا ملک اپنی خودمختاری کے دفاع کے لیے ہر ممکن قدم اٹھائے گا۔ سعودی عرب نے بھی بھرپور طریقے سے قطر کی حمایت کرتے ہوئے اسرائیلی حملے کی مذمت کی اور واضح کیا کہ غزہ فلسطینیوں کی زمین ہے، جس پر کسی کو قبضے کا حق نہیں۔ عرب اسلامی سربراہی اجلاس جو 15ستمبر کو قطر کی میزبانی میں منعقد ہونے جا رہا ہے، اس حوالے سے کلیدی اہمیت کا حامل ہے۔ اس اجلاس سے واضح پیغام جانا چاہیے کہ امتِ مسلمہ اپنی خودمختاری اور بھائی چارے پر حملے کو کسی صورت برداشت نہیں کرے گی۔ ضروری ہے کہ او آئی سی اور اقوام متحدہ جیسے ادارے صرف بیانات تک محدود نہ رہیں بلکہ اسرائیل کے خلاف عملی اقدامات کیے جائیں۔ تجارتی، سفارتی اور عسکری سطح پر دبائو ڈالا جائے تاکہ اسے یہ احساس ہو کہ وہ بین الاقوامی قوانین سے بالاتر نہیں۔ اگر آج قطر پر حملہ برداشت کرلیا گیا تو کل کسی اور ملک کی باری بھی آسکتی ہے۔ اہم نکتہ یہ کہ اسرائیلی جارحیت کا اصل مقصد نہ صرف قطر کو سزا دینا تھا بلکہ امتِ مسلمہ میں اتحاد کی جو کوششیں ہورہی ہیں، ان کو سبوتاژ کرنا بھی تھا۔ یہ حملہ اسرائیلی منصوبہ بندی اور اس کی جارح مزاج خارجہ پالیسی کا حصہ ہے، جو خطے میں امن کے ہر امکان کو ناکام بنانے پر تلی ہوئی ہے۔ یہی وقت ہے کہ مسلم ممالک اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کریں اور صرف مذمتی بیانات پر اکتفا نہ کریں۔ دوحہ میں شہدا کی نماز جنازہ اور عوامی ردعمل اس بات کا غماز ہے کہ قطری عوام اس حملے کو صرف ایک عسکری واقعہ نہیں بلکہ قومی وقار پر حملہ سمجھتے ہیں۔ شہداء کی تدفین فلسطینی پرچم میں، اور عوامی مظاہرے، اس بات کی علامت ہیں کہ یہ حملہ قطری دلوں کو چیر گیا ہے۔ ہمیں اب یہ طے کرنا ہوگا کہ آیا ہم فلسطین کے نام پر صرف قراردادیں منظور کرتے رہیں گے یا عملی اقدامات بھی کریں گے؟ کیا اقوام متحدہ کے پلیٹ فارمز محض طاقتور ممالک کے مفادات کا تحفظ کرتے رہیں گے یا کسی مظلوم ریاست کی خودمختاری کی بھی گارنٹی دیں گے؟ وقت کا تقاضا ہے کہ پاکستان، قطر، ترکی، ملائیشیا، سعودی عرب اور دیگر اسلامی ممالک ایک عملی اتحاد کی طرف بڑھیں جو سفارتی، اقتصادی اور اطلاعاتی محاذ پر اسرائیلی جارحیت کا موثر جواب دے سکے۔ مشرق وسطیٰ کی صورت حال اس قدر نازک ہوچکی کہ ایک اور جنگ کے نتائج پوری دنیا کے لیے تباہ کن ہوسکتے ہیں۔ دوحہ پر اسرائیلی حملہ صرف قطر پر نہیں، بلکہ عالمی امن، مسلم امہ اور بین الاقوامی قوانین پر براہِ راست حملہ ہے۔ اس لمحے اگر امتِ مسلمہ متحد نہ ہوئی، تو شاید تاریخ ہمیں کبھی معاف نہ کرے۔
سیکیورٹی فورسز کی کامیاب
کارروائیاں، 23دہشت گرد ہلاک
9 اور 10ستمبر کو خیبر پختونخوا اور بلوچستان میں دہشت گردوں کے خلاف کامیاب آپریشنز نے ایک بار پھر ثابت کر دیا کہ پاکستان کی سیکیورٹی فورسز ملکی سلامتی کے تحفظ کے لیے پوری طرح مستعد اور پُرعزم ہیں۔ پاک فوج اور حساس اداروں کی بروقت اور موثر کارروائیوں میں بھارتی سرپرستی یافتہ دہشت گرد تنظیم فتنہ الخوارج کے کم از کم 23 دہشت گرد ہلاک کیے گئے، جو دہشت گردی کے خلاف جنگ میں ایک بڑی کامیابی ہے۔آئی ایس پی آر کے مطابق خیبر پختونخوا کے اضلاع مہمند، شمالی وزیرستان اور بنوں میں انٹیلی جنس بنیاد پر تین الگ الگ کارروائیوں کے دوران 19دہشت گرد مارے گئے۔ مہمند کے علاقے گلونو میں سب سے بڑی کارروائی ہوئی، جہاں 14دہشت گرد مارے گئے۔ دتہ خیل اور بنوں میں مزید 5دہشت گردوں کو انجام تک پہنچایا گیا۔ ان تمام کارروائیوں میں کامیابی فورسز کی آپریشنل مہارت اور انٹیلی جنس نیٹ ورک کی مضبوطی کی علامت ہے۔ اسی طرح بلوچستان کے ضلع پشین میں سی ٹی ڈی اور حساس اداروں نے مشترکہ کارروائی کرتے ہوئے 4 انتہائی مطلوب دہشت گردوں کو جہنم واصل کیا، جو کئی سنگین وارداتوں میں ملوث تھے، جن میں ایف سی پر حملہ، لیویز افسر کا قتل اور پولیس پر حملے شامل ہیں۔ ان کے قبضے سے بھاری اسلحہ، گولا بارود، دستی بم اور دیگر تخریبی مواد بھی برآمد کیا گیا، جو آئندہ ممکنہ دہشت گرد حملوں کی تیاری کا حصہ تھے۔ یہ تمام دہشت گرد بھارت کی سرپرستی میں کام کرنے والی تنظیم فتنہ الخوارج سی وابستہ تھے، جن کا مقصد پاکستان میں بدامنی، خوف و ہراس اور عدم استحکام پیدا کرنا تھا۔ ان کارروائیوں سے نہ صرف ان کے منظم نیٹ ورک کو شدید نقصان پہنچا، بلکہ دہشت گردوں کے حوصلے بھی پست ہوئے ہیں۔ یہ کامیابیاں بتاتی ہیں کہ پاکستانی ریاست اور عوام دہشت گردی کے خلاف ایک صف میں کھڑے ہیں اور کسی بھی داخلی یا خارجی سازش کو کامیاب نہیں ہونے دیا جائے گا۔ ریاستی عمل داری قائم رکھنے، شہریوں کے جان و مال کے تحفظ اور ملک کے آئینی ڈھانچے کی سلامتی کے لیے ایسے آپریشن ناگزیر ہیں۔ دہشت گردی کے خلاف جنگ صرف میدانِ جنگ تک محدود نہیں، بلکہ یہ ایک فکری اور نظریاتی جنگ بھی ہے۔ دشمن کی پراکسی وار کا مقابلہ صرف ہتھیاروں سے نہیں، بلکہ قومی اتحاد، داخلی استحکام، موثر قانون سازی اور انصاف کی فوری فراہمی سے ہی ممکن ہے۔ ہمیں یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ ہر دہشت گرد کے پیچھے صرف ایک بندوق بردار نہیں، بلکہ ایک پورا بیانیہ ہوتا ہے جسے توڑنے کے لیے سیاسی، مذہبی اور تعلیمی محاذوں پر بھی یکساں قوت سے کام کرنا ہوگا۔ پاک فوج اور قانون نافذ کرنے والے ادارے پاکستان کے امن و استحکام کے لیے جو قربانیاں دے رہے ہیں، ان کا تقاضا ہے کہ پوری قوم ان کے ساتھ کھڑی ہو اور کسی بھی سطح پر دہشت گردوں یا ان کے سہولت کاروں کے لیے کوئی گنجائش نہ چھوڑی جائے۔





