نکھرنا اوربکھرنا

نکھرنا اوربکھرنا
تحریر : محمد ناصر اقبال خان
جو ریاست،طبقہ یا فرد ایک بار انتقام کی بندگلی میں داخل ہوجائے پھر اسے واپسی کاراستہ نہیں ملتا۔ منتقم ہمارے سچے اللہ ربّ العزت کے اِسماء الحسنیٰ میں سے ایک اوراس کے شایان شان ہے لیکن زمین پرمقیم کوئی متشدد اور منتقم ہرگز اچھا منتظم نہیںہوسکتا۔قہار اورقوی اللہ سبحانہ و تعالیٰ کے غضب پراس کی رحمت کاغلبہ ہے لیکن وہ ایک عادل کی طرح کمزوروں پرظلم وستم کرنیوالے زورآوروں سے حساب اورانتقام لیاکرتا ہے ۔عدم برداشت،توہمات اورتعصبات اب محض افراد تک محدود نہیں بلکہ کئی ملک بھی اس مہلک مرض میں مبتلا ہیں۔جوانسان عادل اورعامل نہیں وہ کسی منصب کااہل نہیں ہوسکتا۔ متعصب انسان توبسااوقات اپنا فرض اداکرتے وقت بھی خودغرض ہوجاتے ہیں۔کوئی انسان ہویاریاست ہوس کاقفس کسی کوراس نہیں آتا ، امریکہ نے اپنے قومی وسائل پرانحصار کرنے کی بجائے دوسرے ملکوں کے وسائل میں نقب لگاتے ہوئے وہاں املاک کواجاڑا جبکہ کئی ملین انسانوں کوموت کے گھاٹ اتارا ۔مقتدرملکوں کی ’’ ہوس‘‘ نے دنیا کو’’ حبس ‘‘کے سوا کچھ نہیں دیا۔ دنیا بھر میں پیش آنیوالے واقعات یہ بتاتے ہیں ،سیاسی قیادت کی انتقامی سیاست اس کی انتظامی صلاحیت کو دیمک کی طرح چاٹ جاتی ہے ۔ماضی میں بھی آمرانہ سوچ کی تلوار سے کئی” تاج” سے سجے سرقلم اورکئی” راج” رات بھر میں "تاراج” ہو تے رہے ہیں۔مورخین شاہد ہیں ہرعروج کو” زوال” او رجہاںغرور ہو وہاں "وبال” ہے۔ کوئی ریاست زیادہ دیرتک” زر”اور”زور” کے بل پرکمزورملکوں میں مداخلت اور ان کی قسمت کے فیصلے نہیں کرسکتی ۔قدرت کے غضب سے زورآورفرعون بھی غرقاب اوراس کے ڈر کادر بندہواتھا ۔ امریکہ نے کمزورملکوں کی” دوہائیوں” کے باوجود کئی” دہائیوں "سے ڈر کواپنا ہتھیار بنایاہوا ہے جبکہ وہ کمزور ملکوں کیخلاف "سازشوں”اور”شورشوں” کے زور پرنام نہاد سپرپاوربنا تھا۔ مخصوص ملک اس سے ڈرتے ضرورتھے لیکن ان میں سے کوئی امریکہ کی عزت نہیںکرتا ۔کوئی طاقتور ڈر کی بنیاد پرکسی کمزورکواپنادست ِراست یادوست نہیںبناسکتا ۔
امریکہ نے ماضی میں بیجا مداخلت اوربدترین جارحیت کاارتکاب کرتے ہوئے عراق سمیت ہراس آزاد ریاست کیخلاف راست اقدام کیا جومستقبل میں واشنگٹن کے مفادات کیلئے کسی قسم کا خطرہ بن سکتی تھی ۔ امریکہ میں صدارتی طرز حکومت ہے لیکن وہاں حالیہ چاردہائیوں کے دوران منتخب ہونیوالے مختلف صدور بھی روس کے بٹوارے سے کچھ سیکھنے کیلئے تیار نہیں ہیں۔امریکہ اپنے نام نہاد ورلڈآرڈر کے نام پر دنیا میں بدنام ہوتا اور دوست نہیں بلکہ دشمن بناتا رہا۔اسلامی ریاست لیبیاسمیت کئی آزاد اورخودمختار ملک یوا یس اے کی آمریت اورفسطائیت کے ہاتھوں فنا ہوئے اورآج وہاں آدم خور بھوک کابھوت نیم مردہ انسانوںکوہڑپ کررہا ہے۔امریکہ کے انجام میں وہاں کے حکمرانوں کی مجرمانہ "ادائوں” سمیت ستم زدوں کی”بددعائوں”کابھی بڑا دخل ہے۔میں پھر کہتاہوں”کوئی اِسلام دشمن ریاست اِسلام آبادکی دوست نہیں ہوسکتی "، اگرپاکستان کواپنے مستقبل بارے درست اوردوررس” فیصلے” کرنے ہیں تواسے امریکہ سے مناسب "فاصلے "پررہنا ہوگا۔امریکہ کاپاکستان کی طرف حالیہ جھکائو نظریہ ضرورت کے تحت ہے،وہ اس عارضی تبدیلی سے پاکستانیوں کو راضی اورچائنہ سے باغی نہیں کرسکتا۔واشنگٹن کی طرف سے ضرورت یانظریہ ضرورت کے تحت کئی بار دوستی کے عہدوپیمان کے باوجودبار بار اسلام آباد کے ساتھ بدعہدی کی گئی ہے۔ایران اور فلسطین کے بارے میں بھی امریکہ کاتعصب جبکہ اسرائیل کیلئے اس کا بہت زیادہ جھکائو ہر کوئی جانتا ہے ۔امریکہ کے حکمران اپنی فوجی صلاحیت اور دفاعی طاقت کے بل پر دوسرے ملکوں اور انسانیت کیخلاف فسطائیت اور شیطانیت کا مظاہرہ کرتے رہے ہیں ،ان کی یہ منافقانہ اورآمرانہ سوچ سحر قیامت تک تبدیل نہیں ہوگی۔امریکہ بظاہر جمہوریت کاحامی ہے لیکن اس کے زیادہ تر فیصلے آمرانہ ہوتے ہیں۔ امریکہ نے جس طرح سوویت یونین کاشیرازہ بکھیرا تھاوہ روس کے صدر اور مردآہن پیوٹن پرقرض ہے ،انہوں نے دیرینہ دشمن سے پراناحساب چکانے کیلئے اپنے چینی ہم منصب شی جن پنگ کادست ِدوستی تھام لیا ہے جبکہ شمالی کوریا کے پرجوش سربراہ کم جونگ اَن بھی اِن کے ہم خیال اور امریکہ کیخلاف بہت فعال ہیں۔ پریڈ میں میزبان چائنہ کاانداز” فاتحانہ” جبکہ ان کے معتمداتحادی شمالی کوریا کا انداز” جارحانہ” تھا۔ ایٹمی پاکستان کے وزیراعظم وہاں کسی اجنبی کی طرح اِدھراُدھر پھر رہے تھے ،شہبازشریف میں وہ خوداعتمادی نہیں جو بحیثیت وزیراعظم عمران خان میں تھی۔ شہبازشریف کوریاست پاکستان کی وکالت کیلئے اپنا اندازگفتگو اور اپنے الفاظ کاچنائوبہترکرناہوگا۔ چائنہ میں ہونیوالی تاریخی پریڈ میں بھارت سے نریندرمودی کو مدعو نہیںکیا گیا تھا۔چائنہ کے نزدیک مودی کی حیثیت نوباڈی سے زیادہ کچھ نہیں ۔
چینی قیادت کے طرزسیاست میںرواداری اوربردباری نمایاں ہے جبکہ امریکہ کے حکمرانوں نے دنیا کوتعصب اورتشدد کے سوا کچھ نہیں دیا ۔ چائنہ کی فوجی پریڈ کی بینظیر کامیابی کے بعد ” تخت عالم” آن کی آن میںواشنگٹن سے بیجنگ میں منتقل جبکہ اس پرنیاسلطان بھی براجمان ہوگیا، چینی قیادت رواداری،امن ،انسانیت اور مساوات کی حامی ہے۔چینی قیادت اورقوم” تقریر”سے زیادہ اجتماعی”تدبیر” پرپختہ ایقان رکھتی ہے ۔چائنہ کے بردبار،زیرک اورانتھک صدر شی جن پنگ کی بردباری ان کے ملک کو اس بلندترین مقام پرلے آئی ہے جودنیا کی کوئی ریاست اورطاقت اس سے نہیں چھین سکتی۔امریکہ،اسرائیل اوربھارت کی طرح چائنہ توسیع پسندانہ اورجارحانہ عزائم نہیں رکھتا لہٰذاء وہ واحد سپرپاورکی پوزیشن کیلئے معقول اورقابل قبول ہے۔چائنہ کے پاس مخلص قیادت ،جغرافیائی طاقت اورقدرتی وسائل کی بیش قیمت دولت کے ساتھ ساتھ قدرت کادیا ہوا سب کچھ ہے۔یقیناوہ "ہتھیاروں” سے مزید” ہتھیانا ” نہیں چاہتا ۔چائنہ نے امریکہ سے دنیا کے خودساختہ تھانیدار کواپنے اختیارات کاناجائز”استعمال "اورکمزورملکوں کا”استحصال” کرنے کی پاداش میں معزول کردیا ہے،یقینا "سفیدقصر” اپنا مستقبل تاریک ہوتا دیکھتے ہوئے خاموش نہیں بیٹھے گا لیکن چائنہ ڈینگیں نہیں مارتااس کاکام بولتا ہے۔بردبارچائنہ جذباتی فیصلے نہیں کرتا ،وہ تولتا اورپھر بولتا ہے۔
سفیدقصر میںڈونلڈ ٹرمپ کے دوسری بارآنے سے امریکہ اپنے” ویژن” اور”وزن” دونوں سے محروم ہوگیا ہے۔اسرائیلی وزیراعظم کی طرح ڈونلڈ ٹرمپ بھی غزہ کیلئے غمزدہ نہیں ،جوسفید چمڑی والے صدور” سفیدقصر”میں جاتے ہیں ان کاخون بھی سفید ہوجاتا ہے ۔ہمارا ہمسایہ ملک چائنہ مفاہمت کااستعارہ اورعلمبردار ہے لیکن جہاںمزاحمت ناگزیر ہووہاں وہ پیچھے نہیں رہتا ۔” چینی "پریڈکے بعد امریکہ میں "بے چینی”اوربے یقینی کابھونچال آنا فطری ہے۔وہ سفید قصرجہاں زیادہ تر دن کی روشنی میں بھی کالے کرتوت صاف دیکھے جاسکتے ہیں ، وہاں صف ماتم بچھ گئی ہے ۔چائنہ کاجاپان کی شکست اورفاشزم کیخلاف اپنی کامیابی کے80ویں یوم تاسیس کے سلسلہ میں تاریخی پریڈ کے دوران اپنے دوست اوردشمن ملکوںکے درمیان سرخ لکیر کھینچنا پائیدارعالمی امن کی سمت درست پیشرفت ہے،سپرپاور کی مسند پرچین کے براجمان ہونے سے دنیا میں پائیدار امن اورچین کاراستہ ہموار ہوگا۔چائنہ نے بھارت کواہمیت نہ دیتے ہوئے اس کی تنہائی پر بھی مہرثبت کردی ہے ،اب اس بڑی "منڈی” میں "مندی” کاسونامی آئے گا اوربھارتی معیشت کی عمارت زمین بوس ہوجائے گی۔یہ چائنہ کی دفاعی قوت اورقوت ارادی کاشاندار مظاہرہ جبکہ اس "پریڈ”میں”ٹریڈ” کارنگ بھی نمایاں تھا،حالیہ کامیاب پریڈ کے بعد چائنہ میں ٹریڈ کانیا دور شروع ہوگا۔ ہنرمند اورجراتمندچینی عوام کے” فنون” اور”جنون "نے ان کی ریاست ،معیشت اورعالمی سیاست کی کایا پلٹ دی ہے۔چائنہ کی ایک کاری ضرب سے امریکہ کاغرورچکناچور ہوگیاہے ۔چائنہ کے پاس صرف امن کی” فاختہ” نہیں بلکہ دشمن کیخلاف بدترین مزاحمت کا”راستہ” بھی ہے اوریہ راستہ یقینی کامیابی سے آراستہ ہے۔ چائنہ ایک طرف اپنے دشمن ملک سمیت دنیا کوامن کاپیغام دیتے ہوئے ہزاروں کی تعداد میں "فاختہ” اڑاتا ہے تودوسری طرف اس کی فوجی پریڈمیں منظرعام پرآنیوالے مہلک ترین ہتھیار واشنگٹن کو حواس” باختہ” کرنے کیلئے کافی ہیں۔
مجھے پھر بابا جی صوفی محمدبرکت علیؒ شدت سے یادآ ئے،انہوں نے فرمایا تھا ” ایک دن دنیا کاہر اہم فیصلہ پاکستان کی ہاں اورناں سے ہوگا” ۔پاکستان کو تنہاکرنے کی سازش میں شریک بھارت خودبدترین رسوائی اور تنہائی کی گہری کھائی میں جا گرا ہے ۔انتہاپسنداورمتعصب مودی ہندووتوا کی آڑ میں پاکستان اورچائنہ سمیت ہمسایہ ملکوں اوراپنے ہم وطن سکھوں کے ساتھ تعلقات بگاڑتاگیا ۔میں پھر کہتاہوں ،بھارت کی نابودی کیلئے ایک مودی کافی ہے۔مودی نے دنیا بھر میں بھارت کوایک مذاق اورانتہاپسندوں کیلئے ماسی کا ویہڑہ بنادیا ۔ بھارت میں مودی کے مٹھی بھر بھگت بھی ہندوتوامائنڈ سیٹ کی نحوست بھگت رہے ہیں ۔آپریشن سیسہ پلائی دیوارکی کامیابی کے نتیجہ میں پاکستان کا ابھرنا اورمزید”نکھرنا” جبکہ ہزیمت سے بھارت کاشیرازہ”بکھرنا” انسانیت اورعالمی امن کیلئے خوش آئند ہے۔ خوددار اورخودمختار پاکستان دنیا بھرمیں پائیدارامن کیلئے اپناتعمیری اورکلیدی کردار ادا جبکہ بھارت کے سپانسرڈ فتنہ الہند کا ناطقہ بندکرے گا۔سی پیک بنے گااوردنیا کے متعدد ملک اس کے ثمرات سے سیراب ہوں گے۔
ناصر اقبال خان







