Column

کراچی کو ڈیولپمنٹ ایمرجنسی کی ضرورت

کراچی کو ڈیولپمنٹ ایمرجنسی کی ضرورت
تحریر : محمد ناصر شریف
کراچی میں وقفے وقفے سے جاری بارش اور اس کے نتیجے میں سیلابی صورتحال نے تباہی مچا دی، کئی ڈیم بھر گئے، لیاری اور ملیر ندی میں شدید طغیانی، دونوں ندیاں دریائوں میں تبدیل ہوگئیں، نشیبی علاقے ڈوب گئے، مکین گھروں میں محصور، سڑکوں پر گڑھے پڑ گئے، سیکڑوں افراد محفوظ مقامات پر منتقل، نئی حب کینال ٹوٹ گئی، 20میٹر حصہ بہہ گیا، کراچی کو پانی کی سپلائی بند، بارشوں کے بعد ندی نالوں میں طغیانی اور ڈیم اوور فلو ہونے سے شہر کے مختلف علاقے زیرآب آنے سے پانی آبادیوں میں داخل ہوگیا، مساجد سے اعلانات کئے گئے، جام گوٹھ ملیر کے مقام پر زیر تعمیر شاہراہ بھٹو سیلابی پانی میں بہہ گئی، زیرو پوائنٹ جام صادق برج سے 22کلو میٹر کے فاصلے پر شاہراہ میں کئی فٹ چوڑا شگاف پڑ گیا، میمن گوٹھ میں فصلوں کو بھی شدید نقصان، میئر کی درخواست پر چیف سیکریٹری سندھ نے فوج طب کرلی۔ شہر کے بعض علاقوں میں سیلابی صورتحال کے باعث ریسکیو 1122، پاک فوج اور رینجرز کی ٹیموں نے سیکڑوں شہریوں کو ریسکیو کیا۔گڈاپ ٹائون میں واقع کونکر ندی میں گزشتہ شب رکشے اور دو گاڑیاں بہہ جانے سے ڈوبنے والے میاں بیوی اور بیٹے سمیت 4افراد کی لاشیں نکال لی گئیں جبکہ 3افرادکی تلاش جاری ہے۔ بارشوں کے نتیجے میں مجموعی اموات کی تعداد 9ہوگئی۔
ادھر بارش کی وجہ سے نئی حب کینال ٹوٹ گئی، 12ارب 80کروڑ روپے کی لاگت سے تعمیر کی گئی اس نہر کا 13اگست کو چیئرمین پیپلزپارٹی بلاول بھٹو زرداری نے افتتاح کیا تھا، نہر ٹوٹنے سے ضلع وسطی، غربی اور کیماڑی کو پانی کی فراہمی معطل ہو گئی ہے ۔
دیکھا جائے تو کراچی پاکستان کا سب سے بڑا، کثیر القومی اور کثیر الثقافتی شہر ہے، اس شہر میں پاکستان کے ہر گوشے کا عکس نظر آتا ہے اور اسی خصوصیت کے پیشِ نظر یہ منی پاکستان بھی کہلاتا ہے، یہ شہر ماضی میں عروس البلاد بھی کہلاتا تھا لیکن اب نہیں۔
المیہ یہ ہے کہ کراچی سب کا بنا لیکن کراچی کا کوئی نہ بن سکا۔ کراچی ہمارا ہے کے دعویدار تو پیدا ہوتے رہے ہیں لیکن اپنے دعوئوں کا پاس رکھنے اور اس کیلئے عملی اقدامات کرنے والا کوئی نظر نہیں آتا۔
کراچی آج جیسا نظر آتا ہے ہمیشہ سے ایسا نہیں تھا۔ مچھیروں کی بستی سے دنیا کا اہم ساحلی اور تجارتی شہر بننے میں کراچی نے زمانے کے کئی سرد و گرم سہے، تھپیڑے برداشت کئے، انگریزوں نے اس شہر کی اہمیت کو سمجھتے ہوئے متعدد تاریخی ورثے سپرد کئے۔
لگ بھگ چار صدی قبل بلوچ مائی ’’کولانچ’’ نامی علاقے سے ہجرت کر کے یہاں آباد ہوئی تھی۔ اسی نسبت سے اس کو مائی کولاچی کہا جانے لگا اور یہی تعلق شہر کو کولاچی کا ابتدائی نام دے گیا جو وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اب دنیا کے نقشے پر کراچی کے نام سے موجود ہے۔
1772 ء میں کولاچی کو بحرین اور مسقط کے ساتھ تجارت کرنے کیلئے بندرگاہ کے طور پر منتخب کیا گیا۔ یہ شہر جب آہستہ آہستہ بڑھنے لگا تو یہاں بلوچوں کے علاوہ ہمسایہ علاقوں کی کمیونٹی بھی بڑی تعداد میں بس گئی۔ آبادی بڑھنے کے ساتھ شہر کی حفاظت کیلئے اس کے گرد فصیل تعمیر کی گئی جس پر نصب کرنے کیلئے دو توپیں مسقط سے درآمد کی گئیں۔ اس کے دو دروازے تھے، ایک سمندر کی طرف اور اس کے مخالف سمت اور یہ دونوں دروازے آج کے شہر کے مشہور علاقے کھارادر اور میٹھادر کے نام سے مشہور ہیں۔
18 ویں صدی کے اختتام تک شہر کی بندرگاہ کی کامیابی کی بعد اس کی آبادی میں بھی اضافہ ہونے لگا اور اس کی ترقی نے ہر ایک کی نظریں اس پر مرکوز کردیں اور لوگ یہاں کھنچے آنے لگے۔ جب سب کی نظریں یہاں تھیں تو ایسا کیسے ہوسکتا تھا کہ برصغیر پر قابض انگریز کی نظروں سے یہ محفوظ رہتا۔ انگریزوں نے اس پر بھی قبضہ جما لیا لیکن اس کی تعمیر و ترقی کیلئے کام بھی کیا۔ 1839ء میں اسے ایک ضلع کی حیثیت دے دی گئی۔
بانی پاکستان محمد علی جناحؒ نے بھی اس شہر میں آنکھ کھولی تاہم ان کی پیدائش تک یہ شہر اپنے دور کا ایک ترقی یافتہ شہر بن چکا تھا جس میں ریلوے اسٹیشن اور بندرگاہ تھی۔ اس دور کی اکثر عمارتوں کا فن تعمیر کلاسیکی برطانوی نوآبادیاتی تھا، جو برصغیر کے اکثر شہروں سے مختلف ہے۔ ان میں سے اکثر عمارتیں اب بھی موجود ہیں اور سیاحت کا مرکز بنتی ہیں۔ اسی دور میں کراچی ادبی، تعلیمی اور تہذیبی سرگرمیوں کا مرکز بھی بن رہا تھا۔
قیام پاکستان سے قبل کراچی تیز رفتاری سے ترقی کی منازل طے کر رہا تھا اور اس کی ترقی کا یہ عالم تھا کہ ڈینسو ہال، فریئر ہال، کراچی جم خانہ، این ای ڈی کالج، ڈاؤ میڈیکل کالج، ٹرام چلتی تھی۔ انڈر گراؤنڈ ریلوے کیلئے پلان اتنا منظم اور ترقی یافتہ تھا کہ مختلف ممالک کے سفیر اس بات پر شرط لگاتے تھے کہ کراچی، نیویارک اور لندن کون سا شہر زیادہ تیزی سے ترقی کرے گا اور سب کا خیال تھا کہ کراچی سب سے زیادہ ترقی کرے گا اور وہ اس کو ریٹائرمنٹ کے بعد اپنا مستقل مسکن بنانے کی منصوبہ بندی کرتے تھے۔ آج تو معمولی بارش سے کراچی کی سڑکیں دریا کا منظر پیش کرتی ہیں لیکن ان دنوں بارش کے آدھے پون گھنٹے میں پانی سڑکوں سے صاف ہوجاتا تھا۔
موجودہ کراچی میں سانس لینے والوں کو شاید یقین نہ آئے کہ یورپی خواہش رکھتے تھے کہ کراچی سے کنکٹنگ فلائٹ ہو اور جب کنکٹنگ فلائٹ کراچی میں لینڈ کرتی تو غیرملکی ایئرپورٹ سی کرائے پر سائیکلیں لیکر ایمپریس مارکیٹ صدر سے خریداری کا شوق پورا کرتے تھے۔ یہ اپنے دور کا اتنا معاشی ترقی یافتہ شہر تھا کہ قیام پاکستان کے بعد 1958ء میں جنوبی کوریا نے سیول کو کیپیٹل معاشی حب ہل بنانے کا فیصلہ کیا تو کراچی کو آئیڈیل بنایا اور اس کے بزنس پلان کو اسٹڈی کیا لیکن آج سیول کہاں ہے اور ہم کہاں کھڑے ہیں یہ دیکھ کر صرف سرد آہ ہی بھر سکتے ہیں۔
ماضی کے عالیشان کراچی کی تباہی اور بربادی کی ذمے داری حکمرانوں پر عائد ہوتی ہے۔ جنہوں نے ذاتی، گروہی مفادات اور تعصب پر مبنی فیصلے کر کے دنیا کے نقشے پر تیزی سی ترقی کرتے شہر کے طور پر ابھرتے ہوئے کراچی کو اپنی ناقص منصوبہ بندی اور ذاتی و سیاسی مفادات کی بھینٹ چڑھا دیا۔ اربوں روپے ایسے منصوبوں پر برباد کر دیئے گئے جو بارش میں بہہ گئے۔
یوں تو یہ پاکستان کا سب سے بڑا اور کمائو پوت شہر ہے لیکن جس طرح گھر میں کسی بڑی کو مان دیا جاتا ہے اور کماؤ پوت کی قدر کی جاتی ہے 78سالہ ملکی تاریخ میں یہ شہر اس سے محروم رہا ہے۔ ٹوٹی پھوٹی سڑکیں، صفائی کے ناقص انتظامات، صاف پانی کی عدم فراہمی، تفریحی سہولتوں سے محروم ہوتا یہ شہر ناقص فن تعمیر اور مسائل کا جنگل بنتا جارہا ہے، یہاں رہنے والے متعدد امراض کا شکار ہوتے جارہے ہیں۔
پیپلز پارٹی جو مسلسل 16برس سے اس صوبے میں حکومت کر رہی ہے، اس کے دور میں کراچی کے مسائل کم ہونے کے بجائے بڑھے ہی ہیں لیکن حیرت کی بات یہ ہے کہ حالیہ بلدیاتی انتخابات میں پیپلز پارٹی ہی سب سے بڑی جماعت بن کر سامنے آئی ہے اور اس نے اپنا میئر منتخب کرایا۔ لیکن کراچی کے حالات اس میئر کے بس سے بھی باہر ہیں کیونکہ یہاں ایک سسٹم کی اجارہ داری ہے جس کے آگے میئر بھی بے بس ہیں۔
وزیراعظم شہباز شریف نے ملک میں ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی لگانے کا اعلان کیا ہے یقیناً سیلاب نے ملک کو بہت نقصان پہنچایا لیکن ضرورت اس بات کی ہے بھی ہے کہ جو شہر آپ کو ریونیو کی مد میں ایک بڑا حصہ فراہم کرتا ہے اس کو بھی ایک ڈیولپمنٹ ایمرجنسی کی ضرورت ہے، ورنہ ایسا نہ ہو کہ یہ شہر اس قابل بھی نہ رہے کہ پاکستان کی معاشی ترقی میں اپنا حصہ ڈال سکے اور خدا نخواستہ وطن عزیز کی معیشت کو ایسا دھچکا لگے کہ پھر سنبھالنا مشکل ہو جائے۔

جواب دیں

Back to top button