توجہ طلب

توجہ طلب
تحریر : ثمرہ شمشاد
اسلامی جمہوریہ پاکستان اپنے محل وقوع کے لحاظ سے بلا شبہ دنیا کا ایک اہم ملک گردانا جاتا ہے۔ پاکستان کی جغرافیائی اہمیت بیان کرنے کے لیے یہ بات کافی ہے کہ اگر اسے تمام اطراف سے یوں گھیرا جائے کہ کوئی شے داخل نہ ہو سکے تب بھی بفضل خدا یہ ملک شاد و آباد رہ سکتا ہے۔ کیونکہ جنگلات، دریا، پہاڑ، وادیاں، معدنیات اور زرخیز زمین جیسی نعمتوں کے ہوتے ہوئے پاکستان مکمل طور پر خود کفیل ہے۔ تا ہم اس حقیقت کو نظر انداز نہیں کیا جا سکتا کہ بسا اوقات پاکستان کو دنیا کے نقشے پر اس بہترین جگہ موجودگی کی قیمت قدرتی آفات کی صورت چکانی پڑتی ہے۔ جنوبی ایشیا میں پائے جانے کا نقصان یہ ہے کہ زمین کا یہ خطہ اکثر ارضی و سماوی آفات کا شکار رہتا ہے اور اب تو سیلاب، زلزلے اور آندھیوں جیسی مصیبتوں کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی جیسا سنگین خطرہ بھی لاحق ہو چکا ہے۔ ان مشکلات کو لے کر بحیثیت قوم ہمارا لاپرواہ رویہ ملکی مسائل میں مزید اضافہ کرتا ہے۔ گرمیوں میں بڑھتا ہوا ہوا درجہ حرارت، برسات میں سیلاب اور سردیوں میں سموگ کی صورت ہمیں پے در پے مشکلات کا سامنا ہے۔مگر ہم اول روز سے بس سامنا ہی کر رہے ہیں۔ ان آفات سے کم سے کم نقصان اٹھانے اور نمٹنے کے لیے موثر اقدامات کرنے میں کوئی سنجیدہ نظر نہیں آتا۔ جب طبل جنگ بج رہا ہوتا ہے ہم غفلت کی نیند سو رہے ہوتے ہیں۔ جب مصیبت سر پر آن کھڑی ہوتی ہے تب عوام رو دھو کر اور حکمران ماضی کی غلطیوں سے سبق سیکھنے کا عزم اور منظم انتظامات کرنے کے وعدے دہرا کر مصیبت ٹل جانے پر سابقہ روش اپنا لیتے ہیں۔ گزشتہ سالوں میں بھارت ہم سے کئی محاذوں پر آگے نکلا ہے۔ وہاں ہم نے ان کے برابری کی ہو یا ناں کی ہو، قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے انتظامی نااہلی میں ضرور ان کی برابری کی ہے۔
حکمرانوں کی وسائل کی کمی کی صدا سمجھ آتی ہے کہ قرضوں میں ڈوبے ملک کے لیے عملی اقدامات کرنا آساں نہیں وگرنہ دنیا میں کئی ممالک کی مثالیں موجود ہیں جو سیلاب، زلزلے، طوفان اور سموگ جیسی مشکلات سے ٹیکنالوجی اور پیسے کے بل بوتے پر نمٹ چکے ہیں۔ لیکن مدعا یہ ہے کہ کچھ نہ کچھ تو کرنا پڑے گا۔ بصورت دیگر پاکستان کے عوام کا مستقبل کیا ہے؟ سیلاب میں لوگ اپنی جمع پونجیاں لٹا بیٹھے ہیں۔ ان کے قدموں تلے سے زمین سرک چکی ہے۔ ستم بلائے ستم کہ بے روزگاری اور مہنگائی جیسے عفریت ان سے سنبھل جانے کی امید بھی چھین رہے ہیں۔ وہ گھرانے بھی کم نہیں جنہوں نے اپنے پیاروں کو کھویا ہے۔ یہاں یہ سمجھنے کی اشد ضرورت ہے کہ امداد کے وعدے ان کی داد رسی کے لیے کافی نہیں ہیں۔ ان نقصانات پر وہ لوگ بقیہ ساری زندگی سوگ منانے والے ہیں ۔ اگر اب بھی ہم سب نے انفرادی اور اجتماعی سطح پر اپنی اپنی ذمہ داریوں کو نہ سمھجا اور مجرمانہ غفلت کا مظاہرہ کرتے رہے تو جو عوام بچ گئے ہیں کل وہ بھی متاثرین میں شامل ہوں گے خدانخواستہ۔
2025 ء کا سیلابی عفریت متعدد عوامل کا نتیجہ ہے جن میں اندرونی عناصر یعنی غیر موثر انتظامی ڈھانچہ اور مجموعی لاپرواہی کے ساتھ ساتھ موسمیاتی تبدیلی اور بھارت کی آبی جارحیت شامل ہیں ۔ مستقبل میں ایسی تباہی سے بچنے کے لیے ان تمام اندرونی و بیرونی عناصر پر توجہ دینے کی ضرورت ہے ۔ بھارت کو آبی دہشت گردی سے روکنے کی ہر ممکن کوشش کی جائے۔ کرہ ارض پر بڑھتے درجہ حرارت میں کم ترین حصے کے باوجود سب سے زیادہ متاثر ہونے والے ممالک کی فہرست میں شامل ہونے پر اس مسئلے کو بین الاقوامی سطح پر اجاگر کیا جائے اور تمام تر سیاسی و سفارتی صلاحیتوں کو بروئے کار لاتے ہوئے بہترین حل تلاشے جائیں۔ اگر سیلابی صورتحال کا باعث بننے والی ملکی خامیوں پر بات کی جائے تو ایک فہرست تیار ہو سکتی ہے جن پر ہمیں کام کرنے کی ضرورت ہے۔ انہیں عوامل میں سے ایک ٹمبر مافیا ہے جو بالخصوص شمالی پاکستان میں سرگرم ہے لیکن یہ مافیا اس قدر با اثر اور وسیع ہے کہ مری جیسے اہم اور مشہور ترین سیاحتی مقامات بھی اس کے شر سے محفوظ نہیں ۔
پاکستان تیزی سے جنگلات سے محروم ہو رہا ہے۔ 1992ء میں پاکستانی جنگلات کا احاطہ 3.78ملین ہیکٹر تھا جو 2025 ء تک اٹھارہ فیصد کم ہوتے ہوئے 3.09ملین ہیکٹر رہ گیا ہے ۔ اس سلسلے میں ماضی میں ماہرین کی جانب سے مسلسل خبردار کیا جاتا رہا ہے مگر خاطر خواہ اقدامات نہیں کیے گئے۔ 2012ء میں بین الاقوامی خبر رساں ادارے ’’ الجزیرہ‘‘ نے خبر نشر کی تھی کہ اقوام متحدہ کے مطابق پاکستان میں 2.5فیصد جنگلات ہیں جبکہ اقوام متحدہ کے ادارہ برائے خوراک و زراعت کے مطابق مثالی طور پر کسی ملک میں 25فیصد جنگلات ہونے چاہئیں۔ ایک دہائی قبل موصول ہونے والی اس انتباہ کو ہم نے مکمل طور پر فراموش کیا جس کی قیمت آج چکا رہے ہیں۔ درختوں کی کمی صرف قدرتی آفات کا باعث نہیں بنتی بلکہ انسانی صحت پر بھی مضر اثرات مرتب کرتی ہے ۔ جہاں عالمی معیار ہر شخص کے لیے 422درختوں کا ہے پاکستان میں ایک شخص کے لیے محض 5درخت ہیں ۔
ملک میں کم ہوتے جنگلات کی وجوہات میں درختوں کی کٹائی کا تین چوتھائی حصہ ہے ۔ اس کٹائی میں لکڑی کی بطور اندھن کھپت کے ساتھ ساتھ ٹمبر مافیا کا بہت بڑا ہاتھ ہے۔ ٹمبر مافیا کے اس قدر منظم اور وسیع جال میں بدعنوان افسران اور سیاست دانوں کی اعانت شامل ہے کیونکہ یہ سب مضبوط پشت پناہی کے بغیر ممکن نہیں۔ دیگر مافیاز کی طرح عشروں سے سرگرم ٹمبر مافیا پر بھی حکومت کی کمزور گرفت نے ان عناصر کے لیے مزید آسانیاں پیدا کیں۔ ماضی میں وقتاً فوقتاً پرنٹ میڈیا اور الیکٹرانک میڈیا پر اس مسئلے پر بات کی جاتی رہی، مگر صد افسوس کہ سد باب کے لیے کوششوں سے زیادہ محض باتیں کی گئیں ۔ تاہم 2017ء میں کے پی کے حکومت نے ٹمبر مافیا کے خاتمے اور جنگلات کی بحالی کے لیے ایک قابل قدر کوشش کی تھی۔ اس سلسلے میں بہترین اقدامات ٹمبر مافیا کی بیخ کنی کے لیے ’’ ونڈ فال‘‘ پالیسی ( جس کے تحت ہوا کے زور سے گرے درختوں کی آڑ میں جنگلات کے ممنوعہ علاقوں میں درختوں کی کٹائی کی جاتی تھی) میں ترمیم اور کرپٹ افسران کی برطرفی کے ساتھ ساتھ مجرموں کی گرفتاری شامل تھی۔ مگر گزرتے وقت کے ساتھ ٹمبر مافیا نے پھر اس علاقے میں زور پکڑا اور آج صورتحال ہمارے سامنے ہے کہ یہ نیٹ ورک پورے ملک میں پھیلا ہوا ہے اور حکومتی ادارے اس برائی کے خاتمے میں ناکام نظر آتے ہیں۔ ضرورت اس امر کی ہے کہ معاملات کو سنجیدگی اور مخلصی سے دیکھا جائے۔ اگر خوش قسمتی سے ہمارے پاس شاہد زمان جیسے بیوروکریٹ موجود ہوں تو انہیں تبادلوں وغیرہ کی نذر کرنے کے بجائے ان کے مقاصد کی تکمیل کے لیے راہیں ہموار کی جائیں تاکہ وہ تمام لوگ جو اس ملک کی بہتری کے لیے کام کرنا چاہتے ہیں مگر غیر شفاف سسٹم کے سامنے گھٹنے ٹیکنے پر مجبور ہو جاتے ہیں، وہ بھی ہمت ہارنے کے بجائے نئے عزم کے ساتھ برائیوں کے خاتمے کے لیے کام کر سکیں۔
اگر 2022ء کے سیلاب کے دوران حکومتی ارکان اور ماحولیاتی ماہرین کی ماس میڈیا پر گفتگو کا جائزہ لیا جائے تو یہ اندازہ ہوتا ہے کہ 2025ء میں پیش کی جانے والی تجاویز تین سال قبل بھی پیش کی گئی تھیں۔
المختصر، یہ مباحثے یہ منصوبہ بندیاں ہم پہلے سے کر چکے ہیں ، اگر برسر اقتدار طبقہ واقعتاً عوام سے مخلص ہے اور اداروں میں افسران و اہلکار فرض شناس ہیں تو یہ وقت ٹھوس اقدامات کرنے کا ہے۔ اس سلسلے میں شفافیت بے حد ضروری ہے کیونکہ اگر گرانٹس اور امداد میں گھپلے ہوتے رہے، بالادست طبقے کی جیبیں گرم ہوتی رہی ، ادارے غیر محرک رہے، ٹمبر اور لینڈ مافیا اسی طرح پلتے رہے تو مستقبل میں سیلاب اور سموگ جیسی آفات سے بچنے کی امید محض دیوانے کا خواب ہے ۔
ثمرہ شمشاد





