بِن مانگی نعمتیں

بِن مانگی نعمتیں!
تحریر : لینیٰ اعظمہ
تمام عمر انسان اپنی خواہشات کے حصول اور اُن کے حجم کو کم کرنے کے لیے انتھک محنت کرتے ہیں۔ دن رات کا اور رات دن کا تعاقب کرتی ہے اور انسان دن اور رات اپنی خواہشات کا۔۔۔ المیہ تو یہ ہے کہ اپنے لاحاصل کے لیے فکرمند رہنے والا انسان مفت میں حاصل نعمتوں کا تعین کرنے میں ہمیشہ ناکام رہتا ہے۔۔۔ تو پھر زندگی کے کس حصے میں انسان اپنے حاصل اور رب کی عطا کے درمیان فرق کو سمجھ پاتا؟ اور لاحاصل کے پیچھے بھی رب کی حکمت کو جاننے کے لیے ایمان کے کس درجے پر کھڑا ہونا ہوتا ہوگا؟ صرف جو دِکھ رہا وہ ہی بِک رہا؟ اور جو نہیں دِکھتا اُس کی قیمت ادا کرنا حقیقتاً انسان کے بس میں ہے ہی نہیں۔
کوئی ایسا انسان جو پیدائشی طور پر نارمل تھا اور اچانک سے اُسے بولنا، سننا یا دِکھنا بند ہونے پر دُنیا سے رابطہ کم ہونے پر کیسا لگے گا؟ یہ مفت میں ملی حِسیں کیا نعمت نہیں ہیں۔۔۔؟ آپ کو صحت مند اعضا کے ساتھ اور مکمل صحت مند انسان کے طور پر پیدا کیا گیا۔ جب یہ اعضا کام کرنا بند کر دیتے اور ان کی پیوند کاری کی جاتی تو کروڑوں روپے لگا کر بھی دل، جگر، گردے پھر بھی دوائیوں کے محتاج ہی رہتے۔ اور پھر میں نے اربوں کے انسان کو محض کچھ روپوں کے لیے روتا دیکھا، دوائی کے بغیر مرتے دیکھا۔۔۔
آپ گھر میں آنے والی کمائی ہوئی رقم سے اپنی مالی حیثیت کا تعین کرتے ہیں، لیکن آپ کے گھر میں آنے والی رقم یہ طے نہیں کر سکتی کہ آپ مالی طور پر کتنے مستحکم ہیں بلکہ یاد رکھیں جس مہینے آپ کے پیسے کسی چور کے ہاتھ نہیں لگتے، کوئی بیماری یا دوائیوں پر اخراجات نہیں ہوتے، صحت کے مسائل یا گھر کے کوئی برقی آلات خراب نہیں ہوتے یا آپ کے گھر کوئی غیرمعمولی حادثہ یا نقصان نہیں ہوتا، آپ غیرضروری خواہشات میں مبتلا ہو کر پیسے ضائع نہیں کرتے اور آپ کے خاندان کے افراد فضول خرچی اور محض شو بازی کے لیے ہزاروں روپے اُجاڑنے والے نہیں ہوتے تو بچنے والا پیسہ تعین کرتا ہے کہ آپ کو آپ کی ضرورت سے زیادہ عطا کیا گیا۔ آپ کے جان و مال کی حفاظت آخر کس نے کی؟
انسان کو اپنی حفاظت کے لیے چھت اور چاردیواری چاہیے ہوتی ہیں اور یہ ہمیں تحفظ کا احساس دلاتی ہیں لیکن اس چھت کے اوپر ایک اور چھت بھی ہے۔ ستاروں کے جھرمٹ اور سیاروں سے بھرا خوبصورت آسمان۔ پھر بھی ہمارے سروں اور اُن پر موجود چھتوں پر کوئی ٹوٹا ستارہ یا کوئی بھی شہابِ ثاقب گرے بغیر گزر جاتے۔ کیا آسمان پر تنی اس چادر کی حفاظت ایسے ہی ملی ہوئی آپ کو؟ زمین کی حفاظتی فضائی پرت سے ٹکرا کر پاش پاش اور ذرہ ذرہ ہو جانے والے ستارے اور سیارے آخر کس کے حکم کے تابع ہیں؟
زمین کی خاطر لڑ مر جانے والے انسان اور زمین کے چھوٹے سے ٹکڑے کے مالک بننے کے لیے دن رات محنت کرنے والے انسان کے پیروں کے نیچے روز کچھ ملی میٹر سرک جانے والی زمین، ہزاروں چھوٹے اور بڑے زلزلوں کو برداشت کرتی زمین کس کے حکم سے اپنی بنیاد پر مستحکم کھڑی ہے؟ اور یہی زمین جب اپنی بنیاد سے ہلکا سا بھی سرک جائے تو قیامت کا منظر قیامت سے پہلے ہی بنی نوع انسان دیکھ لیتے۔ ہزاروں آتش فشاں اپنی تمام حدت، گرمی اور لاوے کو زمین کے سینے میں دفن کیے بیٹھے ہیں، ان کی حدت اتنی تو ہے کہ انسان کو جلا کر راکھ کر دیں۔ پھر کس کے حکم سے یہ پھٹنے سے گریزاں رہتے ہیں؟ یہ زمین ستر فیصد پانی اور تیس فیصد خشکی پہ مرتب ہے۔ پھر بھی سمندر اپنی حدود سے واقفیت رکھتے ہیں۔ کون ہے جو اِن کی حدود روز انہیں یاد کرواتا ہے؟ ایک سمندری طوفان، ایک سونامی پانی کا آگے انسان کے زور، اس کی ناقص تدبیروں اور کمزور تعمیر کا خلاصہ کر دیتا ہے۔ تو پھر پانی کے اس زور کو اور اس حجم کو کس سے ڈر لگتا ہے؟ کون ہے جو اُسے انسان کی رہائش کی جگہوں میں داخل ہونے کی اجازت نہیں دیتا؟
یہ فضا آپ کے وجود کی بقا کے لیے کتنی موافق بنائی گئی۔ کبھی کسی سانس کو بحال رکھنے کے لیے آکسیجن کے لیے لڑتے ہوئے مرتے انسان کو دیکھا؟ اس فضا میں موجود اس آکسیجن کے لیے کبھی اُس کا شکر ادا کیا؟ کیا ایک لمحہ سانس گھٹ جانے پر کوئی جی سکتا ہے؟ ساٹھ ہزار سے زائد جراثیم کی اقسام کے ساتھ روز سامنا ہونے پر بھی آپ جلد کے، آنکھوں کے، سانس کے اور دیگر اقسام کے انفیکشن سے صاف بچ جاتے ہیں جبکہ لاکھوں لوگ دُنیا میں روز کسی نہ کسی انفیکشن کی زد میں آ کر مر جاتے ہیں۔ آپ کے جسم میں موجود دفاعی خلیات کی ایک فوج کا پورا میکانزم ہے جو روز انفکیشن اور کینسر کے بے شمار خلیات کو مار گراتا ہے اور آپ کو خبر تک نہیں ہوتی۔ کبھی کسی ایسے شخص سے ملیں جس نے لاکھوں اور کروڑوں روپے اپنے جسم میں موجود ناکام دفاعی نظام کی وجہ سے کینسر اور مہلک انفیکشن سے بچنے کے لیے بھرے ہوں۔
ایک اندازے کے مطابق سالانہ لاکھوں لوگ سوتے ہوئے ہی اس دُنیا سے رخصت ہو جاتے ہیں۔ اُن کا دماغ پھیپھڑوں کو سانس لیتے رہنے کا سگنل نہیں دے پاتا اور وہ ایسے ہی سوتے سوتے ہمیشہ کی نیند سو جاتے ہیں۔
وہ سب کام، وہ سب خواب، خواہشات اور ذہن کو اُلجھائے رکھنے والے خیالات سب ایک رات میں ہی ہمیشہ ہمیشہ کے لیے انسان سمیت منوں مٹی کے تلے دفن ہو جاتے ہیں۔ تو آج کے بعد ہر روز صبح کو ایک ایسے چانس کے طور پر قبول کریں جہاں رب کی مفت میں ملی ہر عطا کا شکر ادا کر سکیں۔
جس زمین کے خطے پر آپ رہ رہے ہیں وہاں جنگیں نہیں ہیں۔ غیریقینی حالات اور ظالموں کے ہاتھوں سے محفوظ ایک ایسی جگہ جہاں آپ اور آپ کے خاندان کو کسی اچانک سے پھٹ جانے والے بم یا طیاروں کی طرف سے بمباری کا کوئی خوف نہیں ہے۔ آپ نے کبھی محسوس کیا کہ جہاں زندگی کی ضمانت نہ ہو وہاں زندگی گزارنا اور اپنے پیاروں کو غیرمحفوظ دیکھنے کا احساس کیسا ہوتا؟ اِسی طرح اپنی زندگی میں موجود خوبصورت، ایمان داری سے نبھائے جانے والے ستھرے اور سچے رشتوں کو سنبھال کر رکھیں۔ اگر آپ کو رب نے بہترین ماں باپ سے نوازا ہے اور اُن کی تربیت سے رب کی مرضی کی جھلک صاف نظر آتی ہے تو مبارک ہو آپ ایک مضبوط، منظم اور ایمان دار گھرانے سے نوازے گئے ہیں۔ آپ بہت سے ٹوٹے گھرانوں میں موجود ماں باپ کی محبت سے محروم بچوں کی شخصیت میں پائی جانے والی اُس خاص محبت کی بھوک اور خلا کو سمجھ نہیں پائیں گے۔ کیا مکمل خاندان آپ کی نعمتوں میں شامل نہیں کیا گیا؟ آپ غذائی قلت اور قحط سے ناواقف ہیں اور بھوک سے خوراک کی کمی سے مرتے بچے اور لوگ نہیں دیکھے اور جب آپ کو یہ معلوم ہوتا کہ صبح اُٹھیں گے تو کیا کھانا ہے تو آپ زمین پر بسنے والے کروڑوں انسانوں سے بہتر ہیں۔
کیا پرندوں اور جانوروں کو صبح اُٹھ کر حمد و ثنا کرتے کبھی سُنا؟ وہ جو نہ تو جانتے ہیں کہ کیا کھائیں گے، کیا پئیں گے لیکن اپنے تخلیق کار کو خوب جانتے ہیں اور شکرگزاری کرنا اور اُس سے مانگنا کبھی نہیں چھوڑتے۔ تو کیا انسان غیریقینی حالات میں شکرگزار رہ سکتا ہے؟ ہم میں سے بے شمار، بے انتہا نعمتوں کے باوجود شکایت لگانے سے باز نہیں آئیں گے۔ مانو کہ آپ کا بچہ آپ سے آپ کی ہی شکایت لگا رہا ہو جبکہ آپ کے گھر میں آپ ہی کے پیسوں اور آپ کی ہی دی ہوئی چیزوں سے اُس کی بقا جڑی ہوئی ہے۔ کیسا لگے گا اُس کا ناشکرا ہونا؟ جب مفت میں ملی چیزیں چھن جانے پر ہی دینے والی ذات کی عطا کا خیال آئے تو اشرف المخلوقات ہونے کا فرض کب ادا کریں گے۔۔۔؟
کبھی رب کی نظر سے دیکھا ہو تو نظر آئے گا کہ کھربوں کا انسان کچھ لاکھوں اور کچھ روپوں اور غیرفانی چیزوں کے لیے روتا کیسا لگتا ہوگا؟ جسے فرشتوں کی حفاظت، رب کی بیش قیمت عطائیں اور آسمان کے دریچے کھول کر بھرپور نعمتیں کسی بھی محنت کسی بھی ڈگری کسی بھی جاب اور کسی بھی روحانی معیار پر اترے بغیر ملی ہوں، اُس کا ناشکرا ہونا اور رب کی نعمتوں سے غافل رہنا کیسا لگتا؟ تو کیا اب ہمیں شکر ادا کرنے کے لیے کسی نعمت کے چھن جانے کا انتظار کرنے کی ضرورت ہے؟







