ColumnRoshan Lal

نیپال میں بدامنی، اب آگے کیا ہوگا؟

نیپال میں بدامنی، اب آگے کیا ہوگا؟
تحریر : روشن لعل

ہمارے خطے کے اہم ملک نیپال کے متعلق ان دنوں یہ سوال پوچھا جا رہاہے کہ وہاں پرتشدد مظاہروں کے نتیجے میں حکومت ختم ہونے کے بعد اب آگے کیا ہوگا۔ اس سوال کا سادہ جواب یہ ہے کہ عرب بہار کے دوران خطہ عرب کے مختلف ملکوں میں پرتشدد ہنگاموں کے بعد جو کچھ ہوا ، اس کے بعد ہمارے خطے میں پہلے سری لنکا اور پھر بنگلہ دیش میں عوامی احتجاج کے نتیجے میں حکومتیں گرا کر جو کچھ ہوا ، ویسا ہی کچھ اب نیپال میں بھی ہونے کا امکان ہے۔اس سادہ جواب کے ساتھ نیپال میں رونما ہونے والے واقعات کو کچھ خاص زاویوں سے دیکھنے اور تجزیہ کرنے کی بھی ضرورت ہے۔
خطہ عرب میں عرب بہار کے دوران جن ملکوں میں حکومتیں گرائی گئیں، ان میں سے اگر خاص طور پر مصر کی بات کی جائے تو وہاں التحریر سکوائر میں بائیں اور دائیں بازو کی مشترکہ مظاہروں کے نتیجے میں حسنی مبارک حکومت کا خاتمہ ہوا۔ اس کے بعد جب محمد مورسی مصر کے صدر منتخب ہوئے تو انہوں نے مذہب کے نام پر بنائی گئی اپنی پالیسیوں کے نفاذ کے دوران بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ان لوگوں کے جذبات اور احساسات اور مطالبات کو بری طرح نظر انداز کیا جن کی جدوجہد کے بغیر حسنی مبارک کی حکومت کا خاتمہ اور ملک میں تبدیلی کسی طور ممکن نہیں ہو سکتی تھی۔ مورسی کے اس رویے کے بعد صرف بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے ہی نہیں بلکہ مصر کے معتدل رجحانات رکھنے والے لوگ بھی ان سے اسی طرح بدظن ہوگئے جس طرح حسنی مبارک سے ہوئے تھے۔ بعد ازاں جب فوج نے مورسی کا تختہ الٹا تو اس کے حق میں ہونے والے مظاہروں میں بائیں بازو کے وہ لوگ شامل نہ ہوئے جن کے کردار اور شمولیت کی وجہ سے حسنی مبارک کا اقتدار ختم ہوا تھا ۔مصر کے عوام نے جس طرح کے حالات سے تنگ آکر حسنی مبارک کے خلاف مظاہرے کیے بعدازں انہیں پہلے مورسی اور پھر السیسی کے دور میں اسی طرح کے حالات میں زندگی گزارنے پر مجبور ہونا پڑا۔
سری لنکا میں دو پاپولسٹ لیڈر بھائیوں صدر گوٹابھائیا راجا پکشا اور وزیر اعظم مہندا راجاپکشا کی حکمرانی کے دوران ملک کے معاشی حالات بد سے بد تر ہونے پر بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے لوگوں نے حکومت مخالف مظاہروں کی قیادت کی ۔ ان مظاہروں کے نتیجے میں راجا پکشا برادران کو اقتدار چھوڑنا پڑا۔ بعد ازاں منعقدہ الیکشن میں بائیں بازو کے لیڈر انورا کمارا سری لنکا کے صدر منتخب ہوئے۔ بائیں بازو کے اس لیڈر کے دور حکومت میں ملک کی معیشت آئی ایم ایف سے لیے گئے قرضے کی بدولت کسی حد تک بیساکھیوں پر کھڑی ہونے کے قابل ہوئی۔ آئی ایم ایف کے قرضے کی بیساکھی اگر میسر نہ آتی تو صرف بائیں بازو کے نعروں سے سری لنکا کی قریب المرگ معیشت کو آکسیجن دینا ممکن نہیں ہو سکتا تھا۔
بنگلہ دیش کی حسینہ واجد کی عوامی لیگ کو خالص بائیں بازو کی جماعت تو نہیں لیکن سیکولرازم پر یقین رکھنے والی سینٹر لیفٹ پارٹی ضرور کہا جاتا ہے۔ حسینہ واجد کے دور حکومت میں بنگلہ دیش کی معیشت تو کسی حد تک مستحکم رہی لیکن بطور وزیراعظم ان کے آمرانہ طرز حکومت سے تنگ آکر پہلے ان کے مخالف متحد ہوئے اور پھر انہوں نے ایسے ہنگامے برپا کیے کہ حسینہ کو حکومت چھوڑنے کے بعد جان بچانے کے لیے بھارت میں پناہ لینا پڑی۔ بنگلہ دیش میں دائیں بازو کے جن مذہب پسند لوگوں نے متحد ہوکر حسینہ واجد کی حکومت کا خاتمہ کیا ، آئندہ الیکشن میں ان کے ہی جیتنے اور برسراقتدار آنے کا امکان ہے۔ کسی کو بھی یہ توقع نہیں ہے کہ حسینہ واجد کی جگہ دائیں بازو کے لوگوں کے ممکنہ اقتدار میں بنگلہ دیش کے سماجی و معاشی حالات میں کوئی مثبت تبدیل ہو پائے گی۔
جہاں تک نیپال کا معاملہ ہے تو نوآبادیاتی عہد کے دوران یہاں ہندوستان کے انگریز حکمرانوں کے تعاون سے بادشاہت چلتی رہی۔ انگریزوں کی ہندوستان سے رخصتی بعد قائم ہونے والی نہرو حکومت کے عمل دخل سے نیپال میں کانگریس کے نام سے سیاسی پارٹی بنائی گئی۔ اس جماعت نے ہندوستان کی حمایت سے نیپال میں بادشاہت کے خاتمے اور پارلیمانی جمہوری نظام قائم کرنے کے لیے جدوجہد شروع کی۔ نیپالی کانگریس کی جدوجہد کے نتیجے میں وہاں بادشاہ 1950 ء کی دہائی میں الیکشن کرانے اور پارلیمنٹ قائم کرنے پر مجبور ہوا۔ نیپالی بادشاہ نے ملک میں شروع کیے گئے پارلیمانی نظام کو خود ہی کچھ عرصہ بعد ختم کر دیا۔ بھارت کے تعاون سے اگر نیپال میں کانگریس کے نام سے جماعت بنی تو چین کی مدد سے وہاں کمیونسٹ پارٹی معرض وجود میں آئی۔ کمیونسٹوں کے مائوسٹ گروپ نے نیپال میں گوریلا جنگ کا آغاز کیا جبکہ مارکسسٹ لیننسٹ گروپ نے بادشاہت کے خاتمے اور جمہوری نظام کے قیام کے لیے جدوجہد کو ترجیح بنایا۔ نیپالی بادشاہ نے وہاں ایک سے زیادہ مرتبہ شاہی فرمانوں کے ذریعے پارلیمنٹ اور منتخب حکومت کو بحال اور ختم کیا۔ اس کشمکش کے دوران نیپال کے اندر بادشاہت کے خاتمی کے نتیجے میں پارلیمانی جمہوری نظام تو قائم ہو گیا مگر اس کے بعد بھی عوام کے معاشی مسائل جوں کے توں رہے۔ نیپال میں مختلف وقتوں میں منعقد ہونے والے انتخابات میں کبھی کانگریس، کبھی مختلف کمیونسٹ پارٹیوں کی اتحادی حکومت اور کبھی کانگریس اور کمیونسٹوں کی مخلوط حکومتیں بنتی اور ختم ہوتی رہیں۔ وہاں منعقد ہونے والے آخری انتخابات میں، کمیونسٹ پارٹی ( مائوسٹ) نے نیپالی کانگریس کے ساتھ اتحاد بنا کر حصہ لیا لیکن الیکشن کے بعد متحارب کمیونسٹ پارٹی ( مارکسسٹ لیننسٹ) کے ساتھ، وزارت عظمیٰ کی باریاں طے کرتے ہوئے حکومت قائم کر لی۔ یہ مخلوط حکومت ختم کرتے ہوئے کمیونسٹ مائوسٹ پارٹی نے پھر سے نیپالی کانگریس سے معاملات طے کر کے اتحادی حکومت بنا لی ، اس اتحادی حکومت کے جلد خاتمے کے بعد نیپالی کانگریس نے مارکسسٹ لیننسٹ کمیونسٹ پارٹی سے مل کر نئی مخلوط حکومت قائم کر لی۔ کمیونسٹوں اور کانگریس کی اس مخلوط حکومت پر جب اقربا پروری اور کرپشن کے الزامات کے تحت سوشل میڈیا پر سخت تنقید ہوئی تو حکومت نے سوشل میڈیا کی 26سائٹس پر پابندی عائد کر دی ۔ اس پابندی کے خلاف شروع ہونے والے احتجاجی مظاہرے جب ملک کے طول و عرض میں پھیل گئے تو پھر پرتشدد کارروائیوں کے نتیجے میں نہ صرف حکومت ختم ہوئی بلکہ پارلیمنٹ بھی قائم نہ رہ سکی۔
مذکورہ تفصیل سے یہ بات صاف ظاہر ہے کہ عوام کا احتجاج چاہے غیر منظم ہی کیوں نہ، اگر اس میں حصہ لینے والے لوگوں کی تعداد لاکھوں تک پہنچ جائے تو جابر اور ظالم ترین حکمرانوں کا اقتدار بھی محفوظ نہیں رہتا۔ اس حقیقت کے ساتھ جڑا ایک تلخ سچ یہ بھی ہے کہ ایسے احتجاجوں کے دوران ، مظاہرین نے چاہے کسی کمیونسٹ، مذہبی، دائیں، بائیں یا کسی بھی دوسرے گروپ کے ساتھ آئندہ کے لیے بہتری کی امیدیں کیوں نہ وابستہ کی ہوں ، اکثر ان کی امیدیں برآنا ممکن نہیں ہو پاتا۔
نیپال میں حکومت اور پارلیمنٹ کی رخصتی کے بعد ملک کی سابق خاتون چیف جسٹس سوشیلا کرکی کو نگران وزیر اعظم کا عہدہ سونپا جارہا ہے مگر سبکدوش حکمرانوں کی کرپشن کے خلاف احتجاج کرنے والی ذی جنریشن کے کئی نوجوان ، ’’ رابی لامی چانے‘‘ نام کے جس سابق براڈ کاسٹر کو ملک کا آئندہ منتخب حکمران دیکھنا چاہتے ہیں، اسے انہوں نے جیل توڑ کر رہا کرایا ہے، کیونکہ وہ کرپشن کے سنگین الزامات کے تحت جیل میں بند تھا۔

جواب دیں

Back to top button