ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان

ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کا اعلان
پاکستان اس وقت ایک کثیرالجہتی بحران کا شکار ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، زراعت کی تباہی، سیلابی صورت حال، معاشی مشکلات اور اندرونی و بیرونی سازشوں کا سامنا۔ ان تمام چیلنجز کا مقابلہ کرنے کے لیے فیصلہ کن قیادت اور مربوط پالیسیاں ناگزیر ہیں۔ ایسے نازک وقت میں وزیراعظم شہباز شریف کی جانب سے ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کے اعلان کو سنجیدہ قدم قرار دیا جاسکتا ہے۔ وزیراعظم نے وفاقی کابینہ کے حالیہ اجلاس میں جن حقائق کی نشان دہی کی، وہ چشم کُشا بھی ہیں اور دل دہلا دینے والے بھی۔ ملک بھر میں جاری شدید بارشوں اور سیلاب نے گلگت بلتستان، خیبرپختونخوا، آزاد کشمیر، پنجاب اور اب سندھ کو اپنی لپیٹ میں لے لیا ہے۔ لاکھوں لوگ بے گھر ہوچکے ہیں، درجنوں افراد جاں بحق ہوگئے اور لاکھوں ایکڑ زرعی اراضی زیرِ آب آچکی ہے۔ یہ صورت حال صرف ایک قدرتی آفت نہیں، بلکہ ایک اجتماعی قومی چیلنج ہے جو حکومتی مشینری، سیاسی قیادت، سوسائٹی اور ہر فرد سے مربوط ردعمل کا تقاضا کرتی ہے۔ وزیراعظم نے بجاطور پر کہا کہ ہم راتوں رات موسمیاتی تبدیلیوں سے نہیں نمٹ سکتے، لیکن سوال یہ ہے کہ کیا ہم نے پچھلی دو دہائیوں میں کوئی طویل مدتی حکمت عملی تیار کی؟ پاکستان ان چند ممالک میں شامل ہے جو موسمیاتی تبدیلی سے سب سے زیادہ متاثر ہیں، باوجود اس کے کہ ہمارے کاربن اخراج کا عالمی تناسب نہایت کم ہے، پھر بھی، ماضی کی حکومتوں نے اپنی پالیسیوں میں نہ ماحولیاتی تحفظ کو ترجیح دی اور نہ ہی شہری منصوبہ بندی، آبی ذخائر، جنگلات کے تحفظ اور قدرتی نظام کی بحالی کو سنجیدگی سے لیا۔ اب جب کہ وزیراعظم نے وزارت موسمیاتی تبدیلی کو ایک مکمل پروگرام تیار کرنے کی ہدایت کی ہے، یہ لازم ہوچکا ہے کہ یہ پروگرام صرف ایک کاغذی خاکہ نہ ہو بلکہ اس میں واضح روڈ میپ، ٹائم لائن، فنڈنگ میکانزم اور نگرانی کا مضبوط نظام شامل ہو۔ احسن اقبال کی سربراہی میں بننے والی کمیٹی کو غیر سیاسی ماہرین، ماحولیاتی سائنسدانوں، کسانوں اور مقامی حکومتوں کو شامل کرکے ایک جامع، مقامی و قومی اسٹرٹیجی مرتب کرنا ہوگی۔ کسان کو زندہ رکھنا قومی سلامتی ہے، زرعی ایمرجنسی کا اعلان اس وقت ناگزیر تھا۔ سیلاب کی تباہ کاریوں نے فصلوں کو تباہ کر دیا ہے۔ ملک کے کسانوں کی ساری محنت پانی میں بہہ چکی۔ جہاں کھیت اجڑ گئے، وہاں خوراک کی قلت کا خطرہ بھی منڈلارہا ہے۔ کھاد، بیج، زرعی قرضے اور پانی کی عدم دستیابی جیسے مسائل پہلے ہی کسان کو نڈھال کر چکے تھے، اب قدرتی آفات نے رہی سہی کسر پوری کردی۔ وزیراعظم نے کہا ہے کہ نقصانات کا تخمینہ لگایا جا رہا ہے، لیکن اب صرف تخمینے سے آگے بڑھنا ہوگا۔ کسانوں کو فوری مالی امداد، قرضوں میں نرمی اور نئے بیج و کھاد کے مفت پیکیجز کی ضرورت ہے تاکہ وہ آئندہ فصل کے لیے زمین کو دوبارہ قابلِ کاشت بنا سکیں۔ زرعی ایمرجنسی کا مطلب یہ ہونا چاہیے کہ کسان کی ہر ممکن مدد کی جائے، ورنہ فوڈ سیکیورٹی کی صورتحال بھی سنگین رخ اختیار کر سکتی ہے۔ کابینہ اجلاس میں وزیراعظم نے میجر عدنان اسلم شہید کی قربانی کا ذکر کرتے ہوئے کہا کہ ہمیں اپنے شہدا کا شکر گزار ہونا چاہیے۔ یہ بات محض جذباتی نہیں بلکہ حقیقت ہے۔ ہماری سیکیورٹی فورسز نے جس بہادری سے دہشت گردی کے خلاف قربانیاں دیں، وہ پاکستان کی بقا کی ضمانت بنیں۔ وزیراعظم نے بالکل درست نشاندہی کی کہ سوشل میڈیا پر اداروں اور قومی لیڈرشپ کے خلاف نفرت انگیز پروپیگنڈا جاری ہے، لیکن اس مسئلے کا حل محض ’’ شناخت’’ تک محدود نہ ہو، بلکہ ایک مضبوط ڈیجیٹل پالیسی، سائبر قانون سازی اور نوجوانوں میں میڈیا لٹریسی کے فروغ کے ذریعے کیا جانا چاہیے تاکہ فکری دہشت گردی کی جڑیں کاٹی جاسکیں۔ وزیراعظم نے چین کے حالیہ دورے کو کامیاب قرار دیا جبکہ امریکا کے ساتھ تعلقات میں بہتری اور منرل سیکٹر میں تعاون کا ذکر بھی کیا۔ یہ تمام پہلو پاکستان کی معاشی اور اسٹرٹیجک پوزیشن کے لیے نہایت اہم ہیں، لیکن، جیسا کہ انہوں نے خود کہا، اگر فالواپ نہیں ہوگا تو سب کچھ زیرو ہوجائے گا۔ ہمارے ماضی کی تاریخ یہی بتاتی ہے کہ معاہدے سائن ہونے کے بعد فائلوں کی نذر ہوجاتے ہیں۔ اب وقت ہے کہ ہر ایم او یو، ہر معاہدے اور ہر اشتراک کو عملی جامہ پہنایا جائے، خصوصاً بلوچستان، گلگت بلتستان اور چترال جیسے معدنی ذخائر سے بھرپور علاقوں میں۔ وزیراعظم کا قطر پر حملے اور فلسطین میں اسرائیلی بربریت پر شدید مذمت کرنا ایک قابلِ تحسین عمل ہے۔ دنیا کے ضمیر کو جھنجھوڑنے کے لیے پاکستان جیسے بڑے اسلامی ملک کی اخلاقی اور سفارتی آواز انتہائی ضروری ہے۔ فلسطین میں ظلم کے خلاف آواز بلند کرنا نہ صرف انسانی فریضہ ہے بلکہ ہماری خارجہ پالیسی کا اصولی ستون بھی ہونا چاہیے۔ کراچی اور سندھ کے دیگر علاقوں میں حالیہ سیلاب نے شہریوں کو شدید متاثر کیا ہے۔ وزیراعظم نے این ڈی ایم اے کو ہدایت دی کہ وہ ریسکیو اداروں، پاک فوج، رینجرز اور سندھ ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی کے ساتھ مل کر فوری امدادی اقدامات کرے۔ یہ قابلِ تعریف ہے۔ ضروری ہے کہ مقامی حکومتوں کو فعال بنایا جائے، ریسکیو وارننگ سسٹمز اپڈیٹ کیے جائیں اور ندی نالوں پر غیرقانونی تعمیرات کا سختی سے نوٹس لیا جائے۔ وزیراعظم کے حالیہ بیانات، اقدامات اور اعلانات اپنی جگہ اہم اور قابل توجہ ہیں، لیکن پاکستان اس وقت ایک نازک موڑ پر کھڑا ہے جہاں صرف بیانات کافی نہیں، بلکہ عملی، شفاف اور بروقت اقدامات کی ضرورت ہے۔ ماحولیاتی تبدیلی، زرعی تباہی، معیشت اور سیکیورٹی جیسے موضوعات پر قومی پالیسی کو سیاسی مخالفتوں سے بالاتر ہو کر طے کرنا ہوگا۔ وزیراعظم شہباز شریف کی قیادت میں حکومت نے ڈیڑھ سال میں بڑے معرکے سر کیے اور عظیم خدمات سرانجام دی ہیں۔ ماحولیاتی اور زرعی ایمرجنسی کے نفاذ پر تندہی سے عمل ہوگا اور اس کے مثبت اثرات ظاہر ہوں گے۔
قائدؒکے اصولوں کو اپنایا جائے
گزشتہ روز بابائے قوم قائداعظم محمد علی جناحؒ کا 77 واں یوم وفات نہایت عقیدت و احترام کے ساتھ منایا گیا۔ یہ دن نہ صرف ایک عظیم رہنما کو خراجِ عقیدت پیش کرنے کا موقع بلکہ ہمیں یہ سوچنے پر مجبور بھی کرتا ہے کہ کیا ہم بحیثیت قوم اُن کے افکار، اصولوں اور خوابوں کے مطابق اپنی راہ پر گامزن ہیں؟ قائداعظمؒ کا شمار بیسویں صدی کے اُن رہنماؤں میں ہوتا ہے جنہوں نے اپنی غیر متزلزل قیادت، اصول پسندی، سیاسی بصیرت اور پُرامن جدوجہد سے تاریخ کا دھارا موڑ دیا۔ اُنہوں نے نہ صرف مسلمانوں کو ایک الگ تشخص دیا بلکہ اُن کے لیے ایک علیحدہ ریاست کے خواب کو عملی جامہ پہنایا۔ پاکستان کا قیام محض ایک جغرافیائی تبدیلی نہ تھی بلکہ یہ ایک نظریے کی فتح تھی، وہ نظریہ جس کی بنیاد اسلام کے سنہری اصولوں پر رکھی گئی تھی۔ آج جب ہم قائدؒ کے یومِ وفات پر اُن کی خدمات کو یاد کرتے ہیں تو یہ سوال بھی اُٹھتا ہے کہ کیا ہم اُن کے بتائے ہوئے اصولوں پر عمل کر رہے ہیں؟۔ قائداعظمؒ نے جس پاکستان کا خواب دیکھا تھا، وہ ایک جمہوری، فلاحی اور رواداری پر مبنی ریاست تھی، جہاں قانون کی حکمرانی ہو، اقلیتوں کو مساوی حقوق حاصل ہوں اور کرپشن و اقربا پروری کا کوئی تصور نہ ہو مگر افسوس کہ آج کا پاکستان اُن کے خوابوں سے کوسوں دور دکھائی دیتا ہے۔ قائداعظمؒ کے اقوال، جیسے ’’ایمان، اتحاد، تنظیم’’ یا ’’کام، کام، اور بس کام’’، محض نصابی جملے بن کر رہ گئے ہیں۔ موجودہ سیاسی، معاشی اور سماجی صورت حال اُن کی فکر و فلسفے سے انحراف کی عکاسی کرتی ہے۔ ہمارے تعلیمی اداروں میں قائداعظمؒ کو صرف ایک ’’تصویر’’ یا ’’اقتباس’’ کے طور پر پڑھایا جاتا ہے، اُن کی سوچ اور بصیرت کو عملی زندگی میں اپنانے کی کوئی کوشش نظر نہیں آتی۔ قائداعظم کی شخصیت ہمیں یہ درس دیتی ہے کہ اصولوں پر سمجھوتہ کیے بغیر بھی عظیم مقاصد حاصل کیے جاسکتے ہیں۔ اُنہوں نے انگریز سامراج اور ہندو اکثریت کے دبائو کو قبول نہیں کیا، بلکہ پُرامن، قانونی اور سیاسی طریقے سے مسلمانوں کے حقوق کا تحفظ کیا۔ یہی وژن آج بھی ہمارے مسائل کا حل پیش کرتا ہے۔ اگر ہم واقعی اُن کی تعلیمات پر عمل کریں تو پاکستان کو اقوامِ عالم میں ایک باوقار، ترقی یافتہ اور مستحکم ریاست بنایا جاسکتا ہے۔ قائداعظمؒ کا یومِ وفات ہمیں یہ یاد دہانی کراتا ہے کہ ہم اُن کے دئیے ہوئے پاکستان کے وارث ہیں۔ ہمیں نہ صرف اُن کی قربانیوں کو یاد رکھنا بلکہ عملی طور پر اُن کی تعلیمات کو اپنانا بھی ہے۔ یہی اُن کے ساتھ حقیقی وفاداری ہوگی، یہی اُنہیں خراجِ تحسین پیش کرنے کا درست طریقہ ہے۔





