نیپال میں جنریشن زیڈ کا بغاوتی سفر

نیپال میں جنریشن زیڈ کا بغاوتی سفر
تحریر : خواجہ عابد حسین
نیپال، جو کبھی شانت اور پرامن ملک کے طور پر جانا جاتا تھا، آج کل اپنی نوجوان نسل کی آواز سے کانپ رہا ہے۔
19اموات، درجنوں زخمی، اور ایک حکومت جو اپنے ہی عوام کے غیض و غضب کا شکار ہو گئی۔
یہ صرف ایک احتجاج نہیں، یہ ایک پیغام ہے:
’’ اب اور نہیں‘‘۔
جنریشن زیڈ، جسے اکثر بے حس اور صرف سوشل میڈیا تک محدود سمجھا جاتا ہے، نے نیپال کی سڑکوں پر ثابت کر دیا کہ جب ظلم کی حد ٹوٹتی ہے تو نوجوان خاموش نہیں بیٹھتے۔ ان کے مطالبات صرف فیس بک، یو ٹیوب یا انسٹا گرام کی بحالی نہیں، ان کا اصل مطالبہ بدعنوانی کا خاتمہ ہے، ایک صاف اور جوابدہ حکومت ہے۔
نیپال کی حکومت نے دلیل دی کہ سوشل میڈیا کو ریگولیٹ کرنا ضروری ہے کیونکہ اس پر جعلی خبریں، نفرت انگیز تقاریر اور دھوکہ دہی پھیل رہی ہے۔ لیکن کیا کسی بھی ملک میں اتنی بڑی تعداد میں پلیٹ فارمز پر پابندی لگانا، اور پھر مظاہرین پر لاٹھی چارج، آنسو گیس اور ربر کی گولیاں چلانا کوئی حل ہے؟ کیا یہ خود اس ’’ آمرانہ رویے‘‘ کی علامت نہیں جس کے خلاف نوجوان سڑکوں پر اتر آئے۔
’’ سوشل میڈیا پر پابندی صرف ایک بہانہ تھا، اصل مسئلہ بدعنوانی ہے۔ ہمیں اپنا ملک واپس چاہیے‘‘۔ یہ جملے صرف نیپال کے عوام کی آواز نہیں، بلکہ پوری جنوبی ایشیا کی نوجوان نسل کی بے چینی اور بغاوت کی عکاسی کرتے ہیں۔گھنٹوں کے اندر اندر دارالحکومت میں کرفیو نافذ کر دیا گیا، فوج کو سڑکوں پر اتارا گیا، اور وزیر اعظم اور وزیر داخلہ نے استعفے دیدیئے لیکن کیا یہ کافی ہے؟ کیا صرف استعفیٰ 19جانوں کا بدلہ بن سکتا ہے؟۔
نیپال کی یہ تحریک صرف ایک سوشل میڈیا پابندی کے خلاف نہیں، بلکہ ایک نظام کے خلاف ہے جو نوجوانوں کو نظر انداز کرتا ہے، ان کی آواز کو دبانے کی کوشش کرتا ہے، اور ان کے مستقبل کو بدعنوانی کی نذر کر دیتا ہے۔
اگر حکومتیں سمجھنا شروع کر دیں کہ نوجوان صرف موبائل سکرینوں تک محدود نہیں، بلکہ وہ جب اٹھتے ہیں تو تاریخ کی سمت بدل دیتے ہیں تو شاید ایسی خونریزی سے بچا جا سکے۔
نیپال آج ہمیں یہ سکھا رہا ہے کہ جب آواز دبائی جاتی ہے تو وہ چیخ بن کر پھٹتی ہے۔ اور جب نوجوان چیختے ہیں تو دنیا سنتی ضرور ہے، چاہے وہ چیخ کسی بھی زبان میں ہو، کسی بھی ملک میں ہو، کسی بھی نسل کی ہو۔





