وقت، بخت اور تخت تبدیل

وقت، بخت اور تخت تبدیل
تحریر : سیدہ عنبرین
پاکستان میں ذوالفقار علی بھٹو کے کرائے گئے انتخابات کو دھاندلی زدہ قرار دئیے جانے کے بعد شروع ہونیوالی اور پھر نظام مصطفیٰ میں بدل جانے والی تحریک، ایران کے اسلامی انقلاب، مصر کے التحریر چوک میں لگنے والی رونق، ترکیہ میں ٹینکوں کے آگے لیٹ جانیوالے اور پولیس کا تشدد برداشت کرنیوالے، بنگلہ دیش میں بھارت نواز حکومت کو جڑ سے اکھاڑ پھینکے والے، انڈونیشیا میں اپنے حقوق کیلئے سڑکوں پر نکلنے والے افراد کی سمت اور حوصلے کو ایک پلڑے میں رکھ دیا جائے اور دوسرے پلڑے میں نیپالی عوام کی کرپٹ حکومت کے خلاف جدوجہد کو رکھ دیا جائے تو نیپالی عوام کا پلڑا بھاری نظر آتا ہے۔ ہر ملک میں چلنے والی ہر تحریک میں بے گناہ افراد کا لہو بہا ہے، کہیں درجنوں تو کہیں سیکڑوں افراد موت کے گھاٹ اتر گئے ہیں۔ لیکن نیپال کے دارالحکومت کھٹمنڈو میں جو مناظر ہیں وہ کہیں اور نظر نہیں آئے۔ تین کروڑ آبادی والے ملک کے فقط تین فیصد عوام اپنے حق کے لیے باہر نکلے تو دیکھتے ہی دیکھتے پورا نظام ان کے قدموں میں ڈھیر ہو گیا۔
خطے کے تمام ملک اور ان کی حکومتیں یہ مناظر دیکھ کر لرز اٹھی ہیں اور سب کے سب اپنی اپنے عوام کو دھوکہ دینے اور انہیں گمراہ کرنے کیلئے ایک ہی کہانی سنا رہے ہیں کہ نیپال میں سوشل میڈیا پر پابندی لگائی گئی تو اس کا رد عمل آیا، یہ لغو جھوٹ ہے، ایسا ہر گز نہیں، بھوکے ننگے عوام کو اگر پیٹ بھر کر عزت سے کھانا مل جائے اور انہیں تن ڈھاپنے کیلئے لباس مل جائے تو وہ سوشل میڈیا بند ہونے سے ناراض ہو کر ملک پر قابض بدمعاشیہ کی اینٹ سے اینٹ بجانے کیلئے برستی گولیوں کا سامنا نہیں کرتے، لیکن جب انہیں زندہ درگور کر دیا جائے تو پھر وہ اپنی آخری جنگ لڑنے کیلئے میدان میں اتر جاتے ہیں، پھر وہ گولیوں سے نہیں ڈرتے، برستی لاٹھیاں ان کا کچھ نہیں بگاڑ سکتیں۔
نیپال میں لاقانونیت، کرپشن، بدانتظامی اور اقربا پروری کا راج تھا۔ تمام ادارے مال بنانے میں مصروف تھے، عدالتیں انصاف مہیا کرنے میں دلچسپی نہ رکھتی تھیں، قومی خزانے کو اشرافیہ کی مراعات اور سہولتوں میں اڑایا جا رہا تھا، مراعات یافتہ خاندانوں کیلئے سب در کھلے تھے، جبکہ عام آدمی کا کوئی پرسان حال نہ تھا، عوام غریب ترین اور حکمران امیر ترین بن چکے تھے۔ چنگاری شعلہ کیسے بنی، کسی نے اس کا تصور بھی نہ کیا تھا، اقتدار میں موجود کچھ خاندانوں کے نوجوان لڑکے اور لڑکیاں، کچھ وزیر، مشیر، کچھ آفیسر، کچھ قیمتوں کا فیصلہ کرنے والے مختلف ایام میں غیر ملکی دوروں پر گئے، وہاں انہوں نے اپنے سیر سپاٹوں اور عیاشیوں کے ساتھ ساتھ اپنی لاکھوں ڈالر کی شاپنگ کی ویڈیوز سوشل میڈیا پر ڈالیں، یہ لوگ کلبوں میں محو رقص نظر آئے، سوئمنگ پول میں خرمستیاں کرتے دیکھے گئے۔ بانہوں میں باہیں ڈالے شراب کے جام لنڈھانے میں مصروف نظر آئے، یہ لوگ اپنے ملک واپس آئے تو انہی سیر سپاٹوں کے حوالے سے اپنی کہانیاں میڈیا میں بیان کرنے لگے، یہ سب دیکھ کر محرومیوں کا شکار قوم غصے سے پاگل ہوگئی، نیپال میں پڑھے لکھے ہزاروں نوجوان لڑکے اور لڑکیاں ڈگریاں ہاتھ میں لیے در در کے دھکے کھا رہے تھے۔ کوئی پرسان حال نہ تھا، دو وقت کی روٹی کمانے کیلئے مزدوری کرنے، رکشہ ٹیکسی چلانے یا ہوٹلوں میں برتن دھونے پر مجبور تھے، وہ عرصہ دراز سے ملک کو لٹتے دیکھ رہے تھے، لیکن صبر سے کام لے رہے تھے، پھر ایک روز صبر کا پیمانہ لبریز ہو گیا، تعلیم یافتہ افراد کے ایک سیمینار میں ایک انیس سالہ نوجوان نے اعلان بغاوت کر دیا، سب اس کے ہمنوا بن گئے، اس کی تقریر سوشل میڈیا پر چلی تو عرصہ دراز سے خاموش آتش فشاں آگ اگلنے لگا، حکومت نے اپنے خلاف رائے عامہ کو بیدار ہوتے دیکھا تو سوشل میڈیا پر پابندی لگادی، بس پھر کیا تھا اگلے روز نوجوان طبقہ سڑکوں پر تھا، ان کے بزرگ ان کی پشت پر تھے، پرامن احتجاج کو طاقت سے کچلنے کیلئے پولیس طلب کر لی گئی، جس پر تصادم ہو گیا، پولیس نے مظاہرین پر گولی چلا دی، نوجوان گرتے رہے، انہیں اٹھانے والے اور ان کی جگہ لینے والوں کی کمی نہ تھی، ایک ہی دن میں انیس نوجوان پولیس کی گولیوں کا نشانہ بن گئے، جس نے آگ پر تیل چھڑک دیا، مظاہرین کے آگے پولیس زیادہ دیر نہ ٹھہر سکی۔ اسے پسپا ہونا پڑا، پولیس کی ناکامی کے بعد فوج طلب کر لی گئی، لیکن فوج بھی زیادہ دیر بپھرے ہوئے ہجوم کے سامنے نہ ٹھہر سکی ، فوج نے عوام پر گولی چلانے سے احتراز کیا، مظاہرین نے پارلیمنٹ کو نذر آتش کر دیا، وہ وزیروں، مشیروں اور امیروں کے گھروں میں گھس گئے۔ انہوں نے ہر قیمتی چیز کو نذر آتش کر دیا، بیشتر گھروں میں تین سے چار قیمتی گاڑیاں کھڑی تھیں جن کا کچومر بنا دیا گیا، حکومت نے سوشل میڈیا سے پابندی اٹھالی لیکن بہت دیر ہو چکی تھی۔
مظاہرین وزراء کے گھروں میں گھس گئے، انہیں گھسیٹ کر باہر نکالا گیا اور ان کی بے دردی سے ٹھکائی کی گئی۔ وزیر خزانہ کو برہنہ کر کے مارتے ہوئے گھر سے باہر نکال کر قریبی ندی میں پھینک دیا گیا، عوام کا غصہ پھر بھی کم نہ ہوا تو وزیر خزانہ کی مرمت کرنے کیلئے کچھ نوجوان ندی میں اتر گئے، ایک وزیر کی بیوی کو زندہ جلا دیا گیا جو اٹلی کے کلبوں میں رقص کرتی رہی تھی، نیپال کے سابق وزیر اعظم کی اہلیہ وزیر خارجہ تھیں، وہ عوام کے ہتھے چڑھ گئیں، ان پر بے پناہ تشدد ہوا، وہ ہاتھ جوڑ جوڑ کر معافیاں مانگتی رہی، لیکن کسی نے ان پر رحم نہ کیا، ایک اور حکومتی وزیر پر اس قدر تشدد ہوا کہ وہ بے ہوش ہو کر گر پڑا، ایک وزیر کی چوٹی سے بہتا ہوا خون اس کی ایڑی تک پہنچ گیا، لیکن کوئی اس کے ساتھ رعایت کرنے پر تیار نہ ہوا۔ بڑے برینڈز کے سٹور لوٹ لیے گئے، لوگ بینکوں میں گھس گئے، وہ نوٹوں کی گڈیوں سے تھیلے بھر بھر کر باہر آئے اور نوٹوں کے پیکٹ عوام میں بانٹتے نظر آئے۔
مظاہرین نے حکومتی وزراء اور اقتدار پر قابض خاندان کے افراد کے فرار ہونے کے تمام راستے بند کر دئیے، کھٹمنڈو ایئر پورٹ پر مظاہرین نے قبضہ کر کے اس پر ہر پرواز کو روک دیا، نیپال کے وزیر اعظم اور ان کے اہل خانہ کو بمشکل ہیلی کاپٹر کے ذریعے ان کی رہائش سے ریسکیو کیا گیا، وہ فرار ہونے میں کامیاب ہو گئے ہیں۔ جو مظاہرین کے ہتھے چڑھ گیا اسے نشان عبرت بنا دیا گیا، خطے میں محروم طبقات میں بیداری کی لہر یوں آگے بڑھ رہی ہے جیسے نئے موسم کا فیشن مقبول ہوتا ہے۔ اپنے حقوق حاصل کرنے کیلئے ہتھیلی پر سر رکھنے سے دریغ نہیں کیا جارہا۔ وقت، بخت اور تخت تبدیل ہونے کا وقت ہے۔







