Column

قائد اعظم محمد علی جناحؒ

قائد اعظم محمد علی جناحؒ
تحریر : محمد اعجاز الحق
صدر پاکستان مسلم لیگ ( ضیاء الحق شہید)

قائد اعظم محمد علی جناحؒ ایک ہمہ جہت اور عہد آفرین شخصیت کے مالک تھے۔ ان کا سب سے بڑا کارنامہ بر صغیر کے مسلمانوں کو متحد کرنا اور اس خطہ کے جغرافیہ کا رخ موڑ کر تاریخ کا دھارا بدلنا اور اس وقت کی دنیا کی سب سے بڑی مملکت اسلامی پاکستان کا قیام ہے۔ انہوں نے پاکستان کے قیام کے لیے سیاسی، قانونی اور آئینی اور جمہوری جنگ لڑی، پاکستان کے قیام کے حوالے سے ان کا منفرد اور عظیم کارنامہ دیکھ کر دنیا بھر کے مفکر، دانشور اور سیاستدان حیرت میں ڈوب جاتے ہیں۔ اور ان کی راست فکری، اصول پسندی، مستقل مزاجی کے قائل ہو کر عظیم راہنما تسلیم کرنے پر مجبور ہیں، دنیا بھر کے رہنما اس وقت حیران تھے کہ قائد اعظم محمد علی جناحؒ نے اتنی بڑی جنگ لڑی اور کامیاب بھی ہوئے، ایک جانب کانگریس، دوسری جانب انگریز تیسری جانب کچھ اپنوں میں ہی ایسے نادان دوست جو قائد اعظمؒ کی راہ کسی حد تک مزاحم تھے مگر قیام پاکستان کی جنگ جتنے میں وہ کامیاب ہوئے، پوری دنیا جانتے ہے کہ ’’ وہ زندگی میں کسی کا آلہ کار نہیں بنے، وہ اپنے ارادوں میں بہت پختہ تھے، قائد اعظمؒ ایک بہترین سیاست دان تھے ان میں سچ کا مادہ کوٹ کوٹ کر بھرا ہوا تھا، وہ وہ فرقہ واریت سے آزاد تھے ان کی جدوجہد کی وجہ سے مسلمانوں کو الگ ملک ملا وہ اپنی جرات و او العزمی کے بل بوتے پر دنیا کو مسخر کرنے نکل کھڑے ہوئے تھے انہیں اپنے اوپر پورا کنٹرول تھا۔ جذبات کا اظہار بہت کم کیا کرتے تھے۔ وہ کم آمیز اور باوقار تھے، پاکستان قائم ہوا تو قائداعظمؒ کی صحت جواب دے چکی تھی لیکن وہ آخر دم تک مصروف رہے۔ مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ انہیں آرام کا مشورہ دیتیں لیکن وہ اپنی ذمہ داریوں کا عذر پیش کر دیتے اور بہن کو اپنے عظیم بھائی کی قومی ذمہ داریوں کے سامنے ہتھیار ڈالنے پڑتے۔ بحالی صحت کی خاطر جب قائداعظمؒ کو مجبوراً کوئٹہ جانا پڑا تو محترمہ فاطمہ جناحؒ ان کے ساتھ تھیں وہاں ڈاکٹر ریاض اور کرنل الٰہی بخش نے قائداعظمؒ کا علاج شروع کیا۔ انہوں نے قائداعظمؒ کو ان کی بیماری سے آگاہ کیا تو اُنہوں نے پوچھا کہ فاطمہ کو تو اس سے آگاہ نہیں کیا گیا؟ جب ڈاکٹروں نے جواب دیا کہ وہ انہیں بھی سب کچھ بتا چکے ہیں تو قائداعظمؒ نے اظہار افسوس کرتے ہوئے کہا: ’’ انہیں نہیں بتانا چاہئے تھا۔ بہرحال وہ ایک خاتون ہیں اور خواتین میں ضبط اور برداشت کا مادہ کم ہوتا ہے، علاج جاری تھا ڈاکٹروں نے ایک نرس تیماری داری کیلئے رکھنے کا مشورہ دیا، لیکن قائداعظمؒ نے کہا کہ ان کی تیمار داری اس وقت بھی بہتر طور پر ہورہی ہے۔ حقیقت یہ ہے کہ قائداعظمؒ کی دیکھ بھال کی تمام ذمہ داری محترمہ فاطمہ جناحؒ نے اٹھا رکھی تھی وہ دن رات بھائی کی خدمت کرتے گزارتیں ان کی بے آرامی کو دیکھ کر قائداعظمؒ نے اپنا فیصلہ تبدیل کرلیا اور ڈاکٹروں کو نرس کی خدمات حاصل کرنے کی اجازت دیدی۔ چنانچہ ایک تجربہ کار نرس مسر نیتھینل کو قائداعظمؒ کی دیکھ بھال کا فرض سونپ دیا گیا لیکن محترمہ فاطمہ جناحؒ اپنی ذمہ داری سے سبکدوش نہ ہوئیں قائداعظمؒ کی علالت نے مادرِ ملت محترمہ فاطمہ جناحؒ کی مصروفیات اور تفکرات میں اضافہ کر دیا تھا۔ ڈاکٹر انہیں بیماری کی نوعیت سے آگاہ کر چکے تھے جس سے ان کی بے چینی اور بڑھ گئی تھی۔ وہ رات کو کئی کئی مرتبہ اٹھ کر قائداعظمؒ کے کمرے میں جھانکتیں اگر محسوس کرتیں کہ بھائی کی طبیعت پرسکون نہیں تو نرس کو جگانے کی بجائے خود بھائی کے کمرے میں آکر آکسیجن لگاتیں۔ کرنل الٰہی بخش کہتے ہیں کہ محترمہ فاطمہ جناحؒ خود بڑے دھان پان جسم کی مالک تھیں۔ رات دن کی محنت نے انہیں اور مضحمل کر دیا تھا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ قائداعظمؒ کی بہن ہی نہیں ان کی مشیر اور معاون بھی تھیں اس لئے ان کی مصروفیات میں اور بھی اضافہ ہوگیا تھا۔ روزمرہ کی ڈاک دیکھنا، فائلیں پڑھ کر سنانا اور پرائیویٹ سیکرٹری کو قائداعظمؒ کے خیالات سے آگاہ کرنا بھی ان کے فرائض میں شامل تھا۔ ایک طرف مملکت پاکستان کے بانی حضرت قائداعظمؒ موت و حیات کی کشمکش میں مبتلا تھے عظیم بھائی کی زندگی کے یہ نازک لمحے محترمہ فاطمہ جناحؒ کیلئے بے حد تکلیف دہ تھے وہ ڈاکٹروں سے اصرار کرتیں کہ اس نوزائیدہ مملکت کے بانی کی زندگی بچا لیں لیکن مشیت ایزدی میں کون دم مارنے کی جرات کر سکتا ہے۔ جب سانس کی ڈوری ٹوٹنے لگی تو قائداعظمؒ نے اشارے سے محترمہ فاطمہ جناحؒ کو قریب بلایا اور یہ فرماتے ہوئے اس دنیا سے رخصت ہوگئے،’’ فاطی خدا حافظ‘‘ پھر کلمہ طیبہ پڑھا اور ساری دنیا کو اپنے دلائل سے خاموش کرنے والا خود ہمیشہ کیلئے خاموش ہوگیا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ کا وہ بھائی رخصت ہوچکا تھا جس نے زندگی بھر کسی سے ہار نہ مانی جس نے ہندو اور انگریز کے گٹھ جوڑ کو پارہ پارہ کر ڈالا اور جس نے پاکستان کی شکل میں صدی کا سب سے بڑا سیاسی معجزہ کر دکھایا۔ محترمہ فاطمہ جناحؒ جانتی تھیں کہ ان کا غم بھائی کو واپس نہیں لاسکتا۔ خدا کی مرضی پوری ہوچکی ہے لیکن جس کے ساتھ زندگی کے پچپن برس گزارے ہوں جس بھائی نے ماں باپ بن کر بہن کی پرورش اور تربیت کی ہو وہ بہن ان خدمات کو کس طرح فراموش کر سکتی تھی۔ گزرے ہوئے اچھے برے دنوں کی یاد انہیں تڑپا رہی تھی۔ برطانیہ میں قیام، گول میز کانفرنسیں ہندوستان کی سیاسی سرگرمیاں، ہندو مسلم رہنمائوں کے قائداعظمؒ سے مشورے، قائداعظمؒ کی قیامِ گاہ پر سیاسی سرگرمیوں کی تصویریں ایک ایک کرکے نگاہوں کے سامنے گھوم جاتی تھیں،11ستمبر کی رات کو جب ریڈیو پاکستان سے عظیم قائد کی وفات کی خبر نشر ہوئی تو پاکستان اور آزاد کشمیر کے علاوہ پورے مقبوضہ کشمیر میں کہرام مچ گیا قائداعظمؒ کی وفات کی خبر سن کر سب سے پہلے کراچی کے کمشنر سید ہاشم رضا فلیگ سٹاف ہاس پہنچے تھے اور پھر قائداعظمؒ کے عزیز و اقارب گورنر جنرل ہائوس پہنچے۔ آج کا طالب علم اگر تحریکِ پاکستان سے قبل برصغیر میں مسلمانوں کی زبوں حالی اور پسماندگی پر ایک سرسری نظر بھی ڈالے تو اس کی روح کانپ اٹھے گی، بے شک قائداعظمؒ کا کوئی ثانی نہیں آج اپنے قائد کی 77ویں برسی مناتے ہوئے یہ غور و فکر ضرور کریں کہ ہماری آج کی ساری قیادتوں میں کوئی ایک بھی ایسا لیڈر موجود ہے جو بانیانِ پاکستان اقبالؒ و قائدؒ کے ویژن کے مطابق اس ملکِ خداداد کو آئی ایم ایف اور دوسرے عالمی ساہوکاروں کے شکنجے سے نکال کر اپنے وسائل کے بل بوتے پر ملکی معیشت کو ترقی یافتہ ممالک کی معیشتوں کے مقابل کھڑا کر سکے اور عوام کو روٹی روزگار کے آج پہلے سے بھی زیادہ گھمبیر ہوئے مسائل کے گرداب سے باہر نکال سکے جو برصغیر کے مسلمانوں کے لئے اپنے الگ وطن کے حصول کی بنیاد بنے تھے۔ وطنِ عزیز میں انتہائی درجے کو پہنچی سیاسی محاذ آرائی اور عوام کی حالتِ زار کو دیکھ کر پاکستان قائد اعظمؒ کی رحلت کا سوگ مناتے ہوئے ایک ہی سوال ذہن میں آتا ہے کہ کیا قائد اعظمؒ جیسی بے بدل قیادت ہمیں تحریکِ قیام پاکستان کے لیے دستیاب ہو سکتی تھی اور کیا اب بھی دستیاب ہو سکتی ہے۔ ہمیں اس بات پر فخر ہے کہ شہید جنرل محمد ضیاء الحق نے وطن عزیز میں احترام رمضان المبارک آرڈینیس، نظام زکوٰۃ سمیت اسلامی نظام کے نفاذ کی عملی کوشش کی۔ ملک میں ایمان دار سیسی قیادت لانے کے لیے آئین میں آرٹیکل62.63 شامل کیے، آج ملک میں ان کے دور کے بنائے ہوئے بیشتر قوانین کام کر رہے ہیں، بلاشبہ قائد اعظمؒ ایک بہت بڑے سیاسی ملی رہنما تھے، ملک کی خدمت اور اس کی ترقی و استحکام کے جذبے سے سرشار قائدؒ جیسا لیڈر کہیں ڈھونڈے سے بھی نہیں ملتا، آج کی سیاست نے جاہ و منصب کی خاطر قائدؒ کے پاکستان کو ترقی معکوس کے سفر پر ڈال دیا ہے۔
محمد اعجاز الحق

جواب دیں

Back to top button