عام آدمی کا کیا قصور ؟

عام آدمی کا کیا قصور ؟
تحریر : امجد آفتاب
پاکستان کا عام آدمی پہلے ہی غربت، بے روزگاری، مہنگائی، قرضوں اور امراض کا شکار ہے ایسے میں حالیہ سیلابی صورتحال نے اسے مزید ننگا کر دیا ہے۔ کے پی کے سے لیکر گلگت بلتستان تک اور اب پورے پنجاب سے لیکر سندھ تک سڑک کنارے اور حفاظتی بندوں پر آپ کو عام آدمی کی بھرمار ملے گی۔ یہ عام آدمی بھی بڑا غضب کا مارا ہوتا ہے اسے اُن گناہوں کی سزا ملتی ہے جو اس نے کیے ہی نہیں ہوتے، یا پھر نادانستہ طور پر اس سے سر زد ہو جاتے ہیں۔ مثال کے طور پاکستان میں موسمیاتی تبدیلیوں کے پیچھے عام آدمی کا کتنا ہاتھ ہے یا اس کا کیا قصور ہے؟ کیا اُس نے کوئی فیکٹریاں قائم کر رکھی ہیں جو زہریلا پانی سمندر میں یا دھواں ہوا میں پھیلا رہی ہیں یا عام آدمی نے پانی ذخیرہ کرنے کیلئے ڈیم بنانے سے روک رکھا ہے۔ کیا عام آدمی نے دریائوں کی راستے میں پلازے اور ہوٹل قائم کر رکھے ہوئے ہیں یا اُس نے جنگلات کا صفایا کر دیا ہے۔ کیا پہاڑوں کو چیر کر چائنا کٹنگ عام آدمی نے بنا رکھا ہے ؟ بتایا جائے کہ اس موسمیاتی تبدیلی میں عام آدمی کیا کردار ہے یا اس کا کتنا ہاتھ ہے۔ بس عام آدمی کے ذہن میں تو ایک ہی بات ٹھوس کر بھر دی گئی ہے کہ اس ملک میں خوشحالی ہم سیاستدان اور اشرافیہ لاتے ہیں جبکہ مصیبتں تو قدرت کا آپ پر عذاب اور آپ کی گناہوں کی شامتیں ہیں اس میں حکمرانوں یا اشرافیہ کا کوئی قصور نہیں۔ آج ملک میں حالیہ سیلابی صورتحال میں دیکھ لیں کسی بھی سیاسی پارٹی کا لیڈر حتی کہ ورکر یہ کبھی تسلیم نہیں کرے گا ان آفتوں اور سیلابوں کو روکا جانا اگرچہ ممکن نہیں مگر نقصانات سے بچا جا سکتا تھا اگر پچھلے 78برس میں ان سیلابی صورتحال کے حوالے سے کوئی جامع منصوبہ بنایا جاتا۔ یہ کوئی تسلیم نہیں کرے گا پاکستان کا عام آدمی آج جو یہ سڑک کنارے پڑا آہ و بکا کر رہا ہے اس میں ہمارا بھی کوئی قصور ہے، ہم بھی اس کے ذمہ دار ہیں۔ ایسا کچھ نہیں ہوگا۔
گزشتہ دنوں راجن پور، روجھان میں دریائے سندھ کے کنارے سیلابی صورتحال کا جائزہ لینے جانا ہوا تو مجھ جیسے سیکڑوں عام آدمی دریائی بندوں پر پڑے ملے، پوچھنے پر معلوم ہوا اشرافیہ آتی ہے چاولوں کے ڈبے دئے جاتے ہیں، فوٹو سیشن ہوتا ہے پھر اللہ اللہ خیر سلا۔ یہ بیوروکریسی کی پرانی روایت رہی ہے اب جدید دور میں جب سے فوٹو سیشن کا دور دورا چلا ہے ان کا کام مزید آسان ہوا ہے۔ یہ لوگ اے سی والے کمروں اور دفاتر سے نکلتے ہیں، بڑی گاڑیوں میں بیٹھ کر دریا کنارے پہنچ جاتے ہیں، کھانا تقسیم کراتے وقت فوٹو سیشن ہوتا ہے ، اخبارات اور چینلز میں خبریں چلوائی جاتی ہیں، بلے بلے ہو جاتی ہے اور اس کے بعد راوی ہر طرف چین ہی چین لکھتا ہے۔ میری ناقص رائے کے مطابق پاکستان کا عام آدمی کمائی پوت بن گیا ہے، حکمرانوں اور اشرافیہ کے لیے کمائی کا ذریعہ، وہ کیسے؟ اس سوال کا جواب پھر سہی، مگر عقلمند کیلئے اشارہ کافی ہوتا ہے اور مجھے قوی یقین ہے پاکستان کے عوام عقلمند بھی ہیں اور ذہین تر بھی۔
اب آتے ہیں موجودہ سیلابی صورتحال پر، تو نیشنل ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی ( این ڈی ایم اے ) نے کہا ہے کہ مون سون سیزن میں اب تک 927افراد جاں بحق ہوئے ہیں۔ اس کے علاوہ معاشی صورتحال بھی ابتر ہے سیلاب نے مشرقی دریائوں کے کنارے 13لاکھ ایکڑ سے زائد زرعی اراضی کو ڈبو دیا ہے جس سے خریف کی فصلیں اور بالخصوص کپاس شدید متاثر ہوئی ہے، اس صورتحال نے اشیائے خور و نوش کی قیمتوں میں اضافے کے خدشات کو بڑھا دیا ہے۔ سیٹلائٹ امیجری کے مطابق پنجاب کے 24اضلاع میں 3ہزار 661مربع کلومیٹر ( یعنی تقریباً 4.7فیصد) رقبہ زیرِ آب ہے۔
کسان بورڈ پاکستان کے اختر فاروق میو نے دعویٰ کیا کہ کسانوں کو کپاس، چاول، تل، مکئی اور چارہ جات کی تباہی کی وجہ سے 536ارب روپے کے نقصان کا سامنا ہے۔ انہوں نے خبردار کیا کہ کئی شہروں میں سبزیوں اور دیگر جلد خراب ہونے والی اجناس کی قلت پیدا ہوگئی ہے جو آئندہ خوراک کے بحران میں بدل سکتی ہے۔
ابھی بھی وقت ہے کہ وفاقی اور صوبائی حکومتیں نیک نیتی سے آپس میں سر جوڑ کر بیٹھیں اور اس بات پر غور کریں کہ موسمیاتی تبدیلیوں کے منفی اثرات سے نمٹنے کے لیے کیا کیا جاسکتا ہے۔ پانی ذخیرہ کرنے کے لیے بڑے ڈیم بنانے اور جنگلات اگانے سے لے کر دریائوں کے قریبی زمینوں پر ہائوسنگ سوسائٹیوں کی تعمیر پر پابندی لگانے تک ہر وہ اقدام کرنے کے لیے فیصلے کیے جانے چاہئیں، جن کے ذریعے پاکستان کو مزید نقصان سے بچایا جاسکتا ہے۔ اس سلسلے میں سخت پالیسیاں بنانی چاہئیں اور کسی بھی قسم کی رعایت نہیں کرنی چاہیے۔ اگر اس موقع پر بھی ہم نے کچھ نہ کیا اور خالی بیانات کے ذریعے ملک کو سنبھالنے کی کوشش کی گئی تو آنے والے برسوں میں ہمیں ایسی مشکلات کا سامنا کرنا پڑے گا جو کسی بھی طرح ہمارے قابو میں نہیں آ سکیں گے۔







