ColumnImtiaz Aasi

بلوچستان کا مقدمہ

بلوچستان کا مقدمہ
تحریر : امتیاز عاصی

رقبے کے اعتبار سے ملک کا سب سے بڑا صوبہ بلوچستان ملک کے دیگر صوبوں کے مقابلے میں آج بھی پسماندہ ہے۔ قدرتی وسائل سے مالا مال بلوچستان کو آئین کے مطابق حقوق ملتے تو یہ صوبہ بھی ملک کے دوسرے صوبوں کی طرح خوشحال ہوتا۔1971ء قائم ہونے والے بلوچستان کے شمال میں افغانستان، کے پی کے، جنوب میں بحیرہ عرب، مشرق میں سندھ اور جنوب میں ایران واقع ہے۔ حال ہی میں وفاقی حکومت نے امریکی کمپنیوں سے بلوچستان سے سونا اور تانبا نکالنے کا معاہدہ کیا ہے جس میں یہ امر خوش آئند ہے امریکی کمپنیاں بلوچستان سے نکلنے والی معدنیات کو پراسسنگ کے انتظامات بلوچستان میں کریں گی ورنہ ریکوڈک اور سندھک کے معاملے میں بلوچستان سے نکلنے والے مواد کو بیرون ملک لے جا کر پراسسنگ کرنے کا معاہدہ کیا گیا جس پر بلوچستان حکومت کو خاصے تحفظات تھے۔ خبر کے مطابق امریکی کمپنیاں پچاس کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کریں گی البتہ خبر کے متن میں اس بات کا اشارہ نہیں دیا گیا ہے بلوچستان کے رہنے والوں کو ملازمتوں اور ان معاہدوں کے نتیجہ میں ہونے والی آمدن کا کتنا حصہ ملے گا۔ بلوچستان کے رہنے والے ایک سابق اعلیٰ بیوروکریٹ سے اس موضوع پر بات ہوئی تو ان کا کہنا تھا بلوچستان کے عوام اپنے حقوق مانگیں تو غدار کہلاتے ہیں، ان کا کہنا تھا وفاق آئین کی بات تو کرتا ہے جب آئین پر عمل کی بات ہوتی ہے تو آئین کو بھلا دیا جاتا ہے۔ آئین میں واضح طور پر لکھا ہے معدنی وسائل خواہ کسی صوبے کے ہوں وہ صوبائی ملکیت ہوں گے لیکن معاہدہ کرتے وقت آئین کو بھلا دیا جاتا ہے۔ گودار کے معاملے میں بھی وفاقی حکومت نے آئین پر عمل کرنے سے گریز کیا جس کے نتیجہ میں وہاں کے لوگوں نے کافی احتجاج کیا اور اسلام آباد تک مارچ کرنے کا اعلان کیا لیکن بعد ازاں اس مسئلے کا حل نکالنے کے لئے کمیٹی قائم کر دی گئی جسکا تاحال کوئی نتیجہ سامنے نہیں آیا ہے۔ بلوچستان جو کئی سو قبائل پر مشتمل صوبہ ہے قیام پاکستان سے کشیدگی کا شکار ہے۔ ملک کے معرض وجود میں آیا تو بلوچستان میں چار آزاد ریاستیں تھی جن کا براہ راست کنٹرول برطانوی حکومت کے پاس تھا لیکن بانی پاکستان قائد اعظم محمد علی جناح کی درخواست پر خان آف قلات میر احمد یار خان نے سب سے پہلے ریاست قلات کا الحاق پاکستان سے کرنے کا اعلان کیا جس میں یہ طے پایا تھا خارجہ امور، دفاع اور کرنسی وفاق کے کنٹرول میں ہوں گے جب کہ بقیہ تمام امور صوبے کے کنٹرول میں ہوں گے۔ بدقسمتی سے اس معاہدے پر آج تک عمل نہیں ہو سکا اور بلوچستان کے حالات میں کشیدگی برقرار رہی۔ یہ علیحدہ با ت ہے ہماری بہادر افواج صوبے کے حالات پر کنٹرول رکھے ہوئے ہیں ورنہ یہ صوبہ قیام پاکستان سے اب تک بدامنی کا شکار ہے لہذا وفاقی حکومت کو ان وجوہات کا ازالہ کرنے کی ضرورت ہے جن کی وجہ سے بلوچستان کے حالات ہمیشہ سے کشیدہ رہے ہیں۔ ملک کے وجود میں آنے کے بعد کئی فوجی آپریشن ہو چکے ہیں صوبے کے حالات میں اتار چڑھائو رہتا ہے۔ درحقیقت معدنی وسائل کی وجہ سے دنیا کی نظریں بلوچستان پر ہیں پھر گوادر کی تعمیر کے بعد خصوصا دشمن ملک کو یہ بات ہضم نہیں ہو رہی ہے لہذا وہ کسی نہ کسی طریقہ سے صوبے میں کشیدگی پیدا کرنے کی کوشش میں رہتا ہے۔ بدقسمتی سے عالمی قوتیں ایسے ملکوں کی مذمت کرنے کی بجائے ان کی حوصلہ افزائی کرتی ہیں، جس کی بڑی وجہ پاکستان کا قیام اسلام کے نام پر وجود میں آیا تھا، جس میں اللہ اور اس کے رسولؐ کی تعلیمات پر عمل ہو رہا ہے، جو اسلام دشمن طاقتوں کو گوارہ نہیں ہے۔ اگر ہم بلوچستان کی ترقی کی بات کریں تو کسی حد تک صوبے کو پسماندہ رکھنے میں وہاں کے بڑوں کا عمل دخل بھی ہے۔ ایک ذمہ دار ذرائع نے ہمیں بتایا اختر مینگل جو بلوچستان کے عوام کے حقوق کا بڑا علمبردار ہے، دبئی میں اس کے پاس ایسی عالیشان گاڑیاں ہیں جو وہاں کے شیخوں کے پاس نہیں ہیں۔ یہ بات درست ہے ملک میں مارشل لاء بھی رہا اور بلوچستان میں فوجی آپریشن ہوئے، لیکن پیپلز پارٹی اور مسلم لیگ نون کے علاوہ اتحادی حکومتیں اقتدار میں رہیں، ان کے دور میں بلوچستان میں ترقیاتی کام کیوں نہیں ہوئے۔ گوادر اور کوسٹل ہائی وے جنرل مشرف کے دور میں تعمیر ہوئی۔ یقین کریں اختر مینگل کے آبائی علاقے وڈھ میں صرف ایک سٹرک ہے اور پینے کا پانی لوگوں کو دستیاب نہیں ہے۔ اگر وہاں کے سیاست دان اقتدار میں رہتے ہوئے صوبے کی ترقی کے لئے جدوجہد نہیں کریں گے تو صوبہ کبھی ترقی نہیں کر سکے گا ۔ آج کل پیپلز پارٹی کی حکومت ہے، وزیراعلیٰ اسی جماعت کا ہے، بلوچستان میں سڑکیں اور پینے کے پانی کے انتظامات کیوں نہیں کئے جاتے؟۔ بدقسمتی سے رقبے کے لحاظ سے صوبہ جتنا بڑا ہے اتنے زیادہ مسائل صوبے کے ہیں، جنہیں حل کرنا صوبائی اور وفاقی حکومت کی ذمہ داری ہے۔1998 ء جب میں پہلی بار بلوچستان گیا تو وہاں آ ٹھ سو انجینئر بے روزگار تھے جس سے اس بات کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے آبادی کم ہونے کے باوجود بلوچستان میں بے روزگاری کتنی ہیں۔ آج اگر وہاں کے لوگ اپنے حقوق کی بات کرتے ہیں تو اس میں کیا غلط ہے، ہاں البتہ حقوق کے حصول کے لئے لوگوں کو پرامن جدوجہد اور قانون کے دائرے میں رہتے ہوئے کرنی چاہیے۔ دو سال قبل ژوب جانے کا اتفاق ہوا جہاں مجھے تعلیم فائونڈیشن کی تقریب میں شرکت کرنا تھی، کئی پڑھے لکھے نوجوانوں سے ملاقات ہوئی، جو روزگا ر کے متلاشی تھے، لیکن اب تعلیم فائونڈیشن کے چیئرمین ڈاکٹر ظفر اقبال قادر نے صوبائی حکومت کے اشتراک سے بلوچستان کے نوجوانوں کو فنی تعلیم دے کر بیرون ملک بھیجنے کا سلسلہ شروع کیا ہے، جس میں وہ کافی حد تک کامیاب ہوئے ہیں۔ صوبائی حکومت کو بے روزگاری کے خاتمے کے لئے انقلابی اقدامات کرنے ہوں گے، تاکہ نوجوان نسل بے راہ روی کا شکار نہ ہو سکے۔ وفاقی حکومت کو بھی پسماندہ صوبے کے مالی حالات کی بہتری کے لئے فوری اقدامات کرنے ہوں گے تاکہ پنجاب کی طرح وہاں بھی ترقیاتی کام ہوتے دکھائی دیں۔

جواب دیں

Back to top button