Columnمحمد مبشر انوار

حکومتی رٹ

حکومتی رٹ
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض )

قدرتی آفات سے متعلق کسی بھی ذی شعور کو انکار نہیں کہ کارخانہ قدرت میں کیا کچھ پنہاں ہے، اس کے متعلق انسان ہنوز کوسوں دور ہے تاہم انسانی ایجادات اور علم سے بھی انکار نہیں کہ ماضی کی نسبت آج بہرحال انسان کہیں آگے ہے۔ لیکن اپنے تمام تر علم کے باوجود بھی انسان قدرتی معاملات میں کامل دسترس کا دعوی نہیں کر سکتا اور نہ ہی قدرت پر انسان کی کبھی کامل دسترس ہو سکتی ہے البتہ قدرتی معاملات میں انسانی دخل اندازی اس توازن کو ضرور بگاڑ دیتی ہے کہ جس کے باعث یہ نظام متوازن انداز میں بروئے کار آ رہا ہے۔ اس کی زندہ اور جیتی جاگتی مثالیں ہمارے اردگرد موجود ہیں کہ جس قدر انسان ترقی کا اظہار کر رہا ہے، اسی تناسب سے قدرتی ماحول میں بے ترتیبی بھی سامنے آ رہی ہے، ضروریات روزمرہ ہوں یا ٹرانسپورٹ کی شکل میں استعمال شدہ ایندھن کا اخراج ہو، اس سے قدرتی ماحول کا نظام درہم برہم ہو رہا ہے ۔ موسمیاتی تبدیلیاں بھی اسی باعث رونما ہو رہی ہیں کہ کبھی بالکل خشک موسم کا سامنا کرنا پڑتا ہے تو کبھی فلک ایسے برستا ہے کہ ہر طرف جل تھل کر دیتا ہے، اور کبھی اس کا برسنا باعث رحمت کی بجائے انسان کے لئے دردناک زحمت بن جاتا ہے۔ آج کل بھی کرہ ارض پر ایسے مناظر دیکھنے کو مل رہے ہیں کہ ابر یوں برس رہا ہے کہ گرد و پیش ہر طرف طغیانی ہی طغیانی ہے اور انسان اپنے تئیں جو اس طغیانی کو روکنے کے لئے جو بند باندھے ہوئے تھا، وہ سب خس و خاشاک کی طرح پانی اپنے ساتھ بہائے لئے جارہا ہے ۔ انسان تو انسان، پانی اس قدر زوروں پر ہے کہ کیا مال مویشی اور کیا مال و اسباب، سب پانی کی نذر دکھائی دے رہے ہیں، کھیتوں کھلیانوں میں کھڑی فصلیں زیر آب ہیں تو جہاں کہیں پانی اترا ہے وہاں اپنے اثرات چھوڑے جارہا ہے اور زرخیز زمینیں، سونا اگلتی زمینوں کو ویران کئے جارہا ہے۔ شنید ہے کہ کئی ایک زرعی زمینوں پر، سیلاب کی تباہ کاریوں میں سے ایک، وہاں پر ریت کی دبیز تہہ، کہیں فٹ تو کہیں دو فٹ تو کہیں تین فٹ، چھوڑے جارہا ہے کہ پانی کی قدرتی گزرگاہ پر ’’ قبضے جمانے‘‘ والوں کو عبرت ہو کہ وحشت انگیز پانی کے راستے بند کروگے تو تباہی ہی تمہارا مقدر بنے گی۔ دریائوں کے راستے روکنے والے بااثر اپنے ’’ کاروباری نام‘‘ کو بچانے کی خاطر، اپنے منصوبوں کو بچانے کی خاطر کیا کچھ کرتے ہیں، اس کا اندازہ بھی سب کو ہو گیا ہوگا کہ یہ سیلاب زرخیز زمینوں کو نگل چکا ہے، یا ایسے بڑے بااثر زمیندار، جو اپنی زمینیں بچانے کے لئے، غریب کسانوں کی زمینوں کو سیلاب کی بھینٹ چڑھانے سے نہیں چوکتے۔
حکومتی مشینری کی حالت اس وقت سب کے سامنے عیاں ہے کہ کس طرح فارم 47سے معرض وجود میں آنے والی حکومتوں کی ذاتی غلامی پر مامور ہے، مصیبت میں پھنسے عوام کی داد رسی تو کیا ہوگی، کہ وسائل داد رسی کے نام کے پر حکمرانوں کی پکنک کے لئے میسر ہیں جبکہ عوام سیلاب میں ڈوب رہی ہے۔ افسوس تو اس امر کا ہے کہ گزشتہ سیلاب سے بھی حکمرانوں نے کوئی سبق نہیں سیکھا اور سیلاب کے سدباب کے لئے نہ کوئی منصوبہ بندی کی اور نہ ہی اقدامات کئے گئے۔ بس رات گئی بات گئی کے مصداق یہ سمجھ لیا گیا کہ اب دوبارہ سیلاب نہیں آئے گا لہذا راوی چین ہی چین لکھتا ہے اور اگر سیلاب آ بھی گیا تو بھی عوام میں اتنی سکت ہی کہاں ہے کہ وہ حکمرانوں سے اس مجرمانہ غفلت کا حساب لے سکے؟ وگرنہ نیک نیتی ہوتی تو سیلاب سے بچائو کے موثر اقدامات کرنا کوئی اتنا بھی مشکل نہیں کہ کئی ایک ممالک اس آفت ناگہانی کا توڑ بخوبی کر چکے ہیں اور سیلابی پانی کو اپنے اختیار میں کر چکے ہیں، اس کی زحمت کو رحمت میں بدل چکے ہیں، اس کے کھلواڑ کو اپنے کھیل میں بدل چکے ہیں لیکن اس کے لئے نیت کا ہونا ضروری ہے۔ غالبا چین نے ماضی میں ایسے دہشت ناک سیلاب کے بعد، اپنے دریائوں کی گہرائی کو مزید گہرا کر لیا تھا اور دریا کے پاٹ سے نکلنے والی مٹی سے ہی دریا کا بند بلند کر دیا تھا یعنی بالفرض دریا کی گہرائی ایک فٹ زیادہ کی تو اسی مٹی کو بند اونچا کر کے، پانی کا بہائو پہلے سے دوگنا دریا میں سے گزرنے کے قابل بنا لیا، یوں سیلابی پانی کی تباہ کاریوں سے نہ صرف اپنے شہروں کو محفوظ کیا بلکہ اپنی زرخیز زمینوں کا تحفظ بھی یقینی بنالیا۔ دوسری طرف ہماری ترجیحات کیا رہی؟ اب کسی سے کوئی ڈھکی چھپی نہیں کہ کل تک ایک سیاسی رہنما کو مخالف کی اے ٹی ایم کہتے رہے لیکن جیسے ہی اس سے ہاتھ ملایا، اس کو نوازنے میں کوئی کسر نہ چھوڑی اور راوی کے پاٹ کی زمین پر ہاؤسنگ سوسائٹی بنانے کا اجازت نامہ تھما دیا، جس میں کس قدر تباہی آئی، اس کی روداد میڈیا کی زینت بن چکی ہے۔ بجائے دریائی راستے کو بہتر بنایا جاتا، اس کے راستے میں ایک پوری ہاؤسنگ سوسائٹی بنا کر، دریا کے غضب کو دعوت دی گئی کہ جیسے ہی بپھرے، اپنے راستے میں موجود رکاوٹوں کو خس و خاشاک کی طرح اپنے ساتھ بہا لے جائے، عوام کا کیا ہے ، چند دن رو دھو کر صبر کر لے گی کہ عوام کو علم ہے کہ حکمران کون سا ہمارے منتخب کردہ ہیں، مسلط کردہ ہیں، لہذا ان پر کیا فرق پڑے گا؟ یہی وہ طرز عمل ہے جس نے عوام میں بھی ’’ دیہاڑی‘‘ لگانے کی سوچ کو پروان چڑھا رکھا ہے کہ جو جتنا بڑا دیہاڑی باز ہو گا، معاشرے میں اس کے پنپنے اور آگے بڑھنے کے اتنے ہی مواقع موجود ہیں۔ سیلاب کی تباہ کاریاں جاری ہیں اور تادم تحریر سیلابی ریلا سندھ تک جا پہنچا ہو گا اور سندھ میں حالت یہ ہے کہ گزشتہ سیلاب کے موقع پر بھی بااثر زمینداروں کی زمینوں کے بند، اس وقت توڑے گئے تھے جب کوئی چارہ نہ رہا تھا جبکہ بیشتر کی زمینوں کے بند آخر وقت تک نہیں توڑے گئے تھے اور غریب کسانوں کی زمینیں ڈوب گئی تھی۔وجہ یہاں بھی وہی ہے کہ دریا کے قدرتی راستوں پر رکاوٹیں کھڑی کرکے، تباہی کو دعوت ہم خود دیتے ہیں، جس میں 90%سے زیادہ قصور حکمرانوں اور ریاستی مشینری کا ہے جو اس قدرتی قانون کے ساتھ ساتھ ملکی قانون کی دھجیاں بکھیرنے میں کسی تامل کا شکار نہیں ہوتے کہ انہیں علم ہے کہ انہیں روکنے والا کوئی نہیں کہ جسے روکنا چاہئے وہ اپنی تقرری، تعیناتی اور ٹرانسفر کے ہاتھوں مجبور ،ان کا کھلونا ہے۔
بہرکیف سیلاب گزرنے کے بعد کے مراحل بذات خود مسائل ہوں گے کہ حکومت کس طرح ان معاملات سے نبردآزما ہوتی ہے اور کس طرح بروئے کار آتی ہے تاہم ماضی کے مشاہدات و تجربات کو مد نظر رکھتے ہوئے یہ کہا جا سکتا ہے کہ ریاستی مشینری اس آفت ناگہانی سے اور اس کے بعد پیدا ہونے مسائل سے کماحقہ عہدہ برآء ہونے کے قابل نہیں ہے کہ اگر اتنی اہلیت ہوتی تو اس کے سدباب کے لئے اقدامات کئے جاتے ،جن کی عدم موجودگی کسی بھی صورت مستقبل کے لئے پرامید رہنے نہیں دیتی۔ گزشتہ سیلاب کے بعد کے افسوسناک مناظر آج بھی آنکھوں کے سامنے گھومتے ہیں کہ کس طرح عالمی امدادی اشیاء کو مستحقین تک پہنچانے کی بجائے اپنے گوداموں میں چھپا لیا گیا تھا اور پھر امدادی خیموں کو سیاسی جلسوں میں زمین پر بچھے دیکھا گیا تھا لیکن سیلاب زدگان کو بوقت ضرورت یہ خیمے نصیب نہیں ہوئے تھے۔ اس کے باوجود عوامی سطح پر کئی ایک تنظیموں اور انفرادی طور پر سیلاب زدگان کی مدد کی تھی، اس مرتبہ بھی قوی امید یہی ہے کہ پاکستانی غیور عوام اپنے مصیبت زدہ بہن بھائیوں کی بڑھ چڑھ کر مدد کریں گے لیکن بدقسمتی یہ ہے کہ آفات ناگہانیوں سے نپٹنے کا یہ طریقہ نہیں ہے بلکہ یہ حکمرانوں کی ذمہ داری ہے کہ وہ اس کا مستقل حل نکالیں۔ ابھی تو سیلاب کے بعد اصل مرحلہ وبائی امراض کا سامنا ہو گا، جس کے لئے تیاری ابھی سے کرنا ہوگی وگرنہ بہت سی قیمتی جانیں بعد از سیلاب بھی جا سکتی ہیں۔ حکومتی رٹ تو صرف سیاسی مخالفین کے لئے رہ گئی ہے کہ جہاں ریاستی مشینری بھی پوری طرح لیس ہو کر عوام پر چڑھ دوڑتی ہے جبکہ بلوچستان میں یا کچے کے ڈاکوئوں کے سامنے، حکومتی رٹ کہیں دکھائی نہیں دیتی اور بلوچستان کے دہشت گرد ہوں یا کچے کے ڈاکو، حکومتی رٹ کو جوتے کی نوک پر لکھتے ہیں، شنید ہے کہ اس سیلابی صورتحال میں بھی کچے کے ڈاکو کی طرف سے 11شہریوں کو اغوا کر لینا اور بدلے میں اپنے بھائی کی رہائی کی شرط، حکومتی رٹ کا پول کھول رہی ہے۔

جواب دیں

Back to top button