اسرائیل کی دوحہ پر جارحیت

اسرائیل کی دوحہ پر جارحیت
دنیا ایک بار پھر اسرائیل کے سفاکانہ چہرے کی گواہ بنی ہے، جب ایک خودمختار مسلم ملک قطر کے دارالحکومت دوحہ پر اسرائیل نے فضائی حملہ کرکے نہ صرف بین الاقوامی قوانین اور سفارتی آداب کو پامال کیا، بلکہ پوری مسلم دنیا کو ایک کھلا پیغام دیا کہ اسرائیل اب کسی بھی حد تک جا اور گر سکتا ہے، چاہے وہ کسی ملک کی خودمختاری کو روندنا ہی کیوں نہ ہو۔ یہ حملہ، جس میں حماس کی قیادت کو نشانہ بنانے کی کوشش کی گئی، عالمی سطح پر ایک خطرناک نظیر قائم کرگیا ہے۔ کیا اب کوئی بھی ملک دوسرے ملک میں بیٹھی سیاسی رہنمائوں پر بم باری کرسکتا ہے؟ کیا خودمختاری، اقوامِ متحدہ کے چارٹر اور انسانی حقوق محض کمزور ممالک کے لیے رہ گئے ہیں؟ یہ سوالات آج عالمی ضمیر کو جھنجھوڑ رہے ہیں، لیکن اس سے بھی زیادہ افسوس ناک بات یہ ہے کہ کئی مغربی قوتیں یا تو خاموش تماشائی بنی ہوئی ہیں، یا اس ظلم میں شریک کار۔ دوحہ پر اسرائیلی حملہ کسی ایک شہر یا ایک عمارت پر حملہ نہیں تھا، بلکہ یہ امت مسلمہ کی وحدت، وقار اور خودمختاری پر حملہ تھا۔ یہ حملہ غزہ میں جاری نسل کشی کو روکنے کی کوششوں کو ناکام بنانے اور حماس کو سفارتی تنہائی میں دھکیلنی کی ایک سوچی سمجھی کوشش تھی، لیکن اسرائیل شاید یہ بھول گیا کہ آج کا مسلمان پہلے سے زیادہ باخبر، مربوط اور بیدار ہوچکا ہے۔ قطر کا شمار اُن چند ممالک میں ہوتا ہے جو فلسطین کے مظلوم عوام کی حمایت میں نہ صرف آواز بلند کرتے ہیں بلکہ عملی اقدامات بھی کرتے ہیں۔ قطر نے بارہا غزہ میں امدادی کارروائیوں، تعمیر نو اور امن کی بحالی میں کردار ادا کیا ہے۔ ایسے وقت میں جب قطر، حماس کی قیادت اور امریکا کے مابین ایک ممکنہ جنگ بندی معاہدے کے لیے مذاکرات کی میزبانی کررہا تھا، اسرائیل کا دوحہ پر حملہ دراصل امن کے ہر راستے کو تباہ کرنے کی کوشش ہے۔ اس حملے پر دنیا بھر سے شدید ردعمل آیا۔ پاکستان، سعودی عرب، ترکیہ، ایران، متحدہ عرب امارات، افغانستان اور کئی دیگر مسلم ممالک نے اس بزدلانہ کارروائی کی مذمت کی۔ اقوامِ متحدہ کے سیکریٹری جنرل انتونیو گوتریس نے بھی اسرائیلی اقدام کو بین الاقوامی قوانین کی خلاف ورزی قرار دیا، لیکن کیا محض مذمتیں کافی ہیں؟ کیا یہ وقت نہیں آگیا کہ مسلم ممالک محض بیانات سے آگے بڑھ کر عملی اقدامات کریں؟ اسلامی تعاون تنظیم (OIC)، عرب لیگ اور دیگر بین الاقوامی پلیٹ فارمز کو اب فوری اجلاس بلاکر اسرائیل کے خلاف متفقہ اور موثر حکمت عملی اپنانی چاہیے۔ یہ صرف فلسطین یا قطر کا مسئلہ نہیں، بلکہ پوری امت مسلمہ کا مشترکہ مسئلہ ہے۔ سننے میں آرہا ہے کہ اسرائیل کے اس حملے سے قبل امریکا کو اعتماد میں لیا گیا اور امریکا نے حملے میں عملی مدد بھی فراہم کی۔ اگر یہ درست ہے تو یہ ایک خطرناک حقیقت ہے کہ امریکا اب براہِ راست مسلم ممالک کی خودمختاری کو پامال کرنے والے اقدامات میں شریک ہورہا ہے۔ مغرب کو انسانی حقوق یا عالمی قوانین کی پروا صرف اسی وقت ہوتی ہے جب ان کے مفادات متاثر نہ ہوں۔ جب مسلم دنیا کے ممالک، شہر یا عوام نشانہ بنتے ہیں، تو عالمی ضمیر یکایک خاموش ہوجاتا ہے۔ حماس کا کردار اور قربانیاں روز روشن کی طرح عیاں ہیں۔ حماس ایک مزاحمتی تنظیم ہے، جو ایک قابض، ظالم اور نسل کُش ریاست کے خلاف جدوجہد کررہی ہے۔ اس کا سیاسی دفتر دوحہ میں کام کررہا تھا، تاکہ غزہ میں جنگ بندی کے لیے بین الاقوامی تجاویز پر غور کیا جاسکے، لیکن اسرائیل نے ان رہنمائوں پر حملہ کرکے ثابت کردیا کہ اسے کسی امن عمل سے کوئی دلچسپی نہیں۔ یہ بات بھی قابلِ ذکر ہے کہ حملے کے باوجود حماس کی قیادت محفوظ رہی، تاہم خلیل الحیہ کے بیٹے، دفتر کے انچارج اور کئی دیگر افراد شہید ہوگئے۔ یہ قربانیاں فلسطینی عوام کے عزم اور جذبے کی گواہ ہیں کہ وہ ظلم کے سامنے ہرگز نہیں جھکیں گے۔ مسلم دنیا صرف بیانات، مذمتوں اور ٹوئٹس پر اکتفا نہ کرے، بلکہ مشترکہ دفاعی، سفارتی اور اقتصادی حکمت عملی تشکیل دے۔ تمام مسلم ممالک اسرائیل کے ساتھ سفارتی تعلقات ختم یا محدود کریں، اسرائیلی مصنوعات کا مکمل بائیکاٹ کیا جائے، اسرائیل کے اتحادیوں سے دوٹوک موقف اختیار کیا جائے، اقوامِ متحدہ اور عالمی عدالت انصاف میں اسرائیل کو جواب دہ بنانے کے لیے اقدامات کیے جائیں، فلسطینی مزاحمتی تحریکوں کی اخلاقی، سفارتی اور انسانی سطح پر مکمل حمایت کی جائے۔ اسرائیل کا یہ حملہ نہ صرف قطر بلکہ پوری مسلم دنیا کی خودمختاری، غیرت اور وقار پر حملہ تھا۔ یہ ایک ایسا لمحہ ہے جب امت مسلمہ کو اپنی صفوں میں اتحاد پیدا کرکے نہ صرف فلسطین، بلکہ اپنے مستقبل کا تحفظ فراہم کرنا ہوگا۔ تاریخ کا فیصلہ ابھی باقی ہے، لیکن اگر آج ہم خاموش رہے، تو کل ہماری خودمختاری، آزادی اور شناخت سب کچھ دائو پر لگ سکتا ہے۔ یہ وقت ہے جاگنے کا، یکجہتی دکھانے کا اور دنیا کو یہ باور کرانے کا کہ امت مسلمہ ایک جسم کی مانند ہے۔ اگر جسم کے ایک حصّے پر حملہ ہو تو پورا جسم درد محسوس کرتا ہے۔
بارش میں ڈوبا کراچی
ملک کا سب سے بڑا شہر کراچی ایک بار پھر بارش کے بعد شدید بدانتظامی کا شکار نظر آیا۔ منگل کو ہونے والی بارش نے شہر کے وہ تمام زخم پھر سے تازہ کردیے جو ہر برساتی موسم میں عوام کو اذیت میں مبتلا کرتے ہیں۔ سڑکوں پر پانی جمع ہونا، نالوں کا اوور فلو ہونا اور سڑکوں کی خستہ حالی۔ یہ سب ایک بار پھر شہریوں کی روزمرہ زندگی کو مفلوج کرگئے۔ شہر کے مختلف علاقوں میں جن سڑکوں پر برساتی پانی جمع ہوا، وہ وہی مقامات ہیں جہاں ہر سال یہ منظر دہرایا جاتا ہے۔ شارع فیصل، نیپا چورنگی، گرومندر، لیاقت آباد، اردو بازار، کارساز اور یونیورسٹی روڈ سمیت متعدد مقامات پر پانی جمع ہونے سے نہ صرف ٹریفک کی روانی متاثر ہوئی بلکہ شہری گھنٹوں تک سڑکوں پر پھنسے رہے۔ اندرون شہر کی گلیاں تالابوں میں بدل گئیں، سڑکوں کی ٹوٹ پھوٹ کے باعث موٹرسائیکل سواروں کے گرنے اور گاڑیوں کے خراب ہونے کی اطلاعات عام رہیں۔ المیہ یہ ہے کہ اس تمام صورت حال کے باوجود بلدیاتی اداروں کی طرف سے ہر سال ’’انتظامات مکمل’’ ہونے کے دعوے کیے جاتے ہیں، جو بارش کی پہلی بوند پڑتے ہی جھوٹ کا پلندہ ثابت ہوتے ہیں۔ اس بار بھی یہی ہوا۔ بارش کے بعد کیے گئے دعوے پانی میں بہہ گئے اور شہریوں کو ایک بار پھر اپنی قسمت اور ہمت پر چھوڑ دیا گیا۔ پورے شہر کا نظام درہم برہم ہو جانا اس بات کا ثبوت ہے کہ مسئلہ ناقص منصوبہ بندی اور بدانتظامی ہے۔ کے۔ الیکٹرک کے 600سے زائد فیڈرز متاثر ہوئے، جس کے نتیجے میں کورنگی، لانڈھی، لیاقت آباد، بلدیہ، گلشن اقبال، گلستان جوہر، اور ڈیفنس سمیت کئی علاقوں میں رات گئے تک بجلی بحال نہ ہوسکی۔ ٹریفک کی روانی بھی شدید متاثر رہی۔ کورنگی کاز وے، گلشن حدید لنک روڈ اور ملیر ندی کے قریب سڑکیں بند کی گئیں، اور متبادل راستے دیے گئے جو پہلے ہی ٹریفک کے بوجھ تلے دبے ہوئے تھے۔ اس دوران شہریوں کو شدید ذہنی اذیت اور وقت کا ضیاع برداشت کرنا پڑا۔ صورت حال اس قدر سنگین تھی کہ ملیر ندی میں دو افراد پانی میں بہہ گئے، جن میں سے ایک کو بچا لیا گیا جب کہ دوسرے کی تلاش ریسکیو ٹیموں کی جانب سے جاری ہے۔ یہ حادثہ اس حقیقت کو مزید اجاگر کرتا ہے کہ قدرتی آفات کے دوران رسپانس سسٹم بھی ناکافی ہے اور لوگوں کی جانیں محض اس لیے ضائع ہوجاتی ہیں کہ وقت پر امداد نہیں پہنچ پاتی۔ یہ تمام حالات اس بات کے متقاضی ہیں کہ حکومتِ سندھ، بلدیاتی ادارے کراچی کے لیے طویل المدتی حل تلاش کریں۔ صرف پریس کانفرنسیں عوام کو مطمئن نہیں کر سکتیں، جب تک زمینی حقائق پر مبنی عملی اقدامات نہ کیے جائیں۔ کراچی ایک ایسا شہر ہے جو پاکستان کی معیشت کا انجن ہے، مگر افسوس کی بات ہے کہ یہ شہر بنیادی سہولتوں سے بھی محروم ہے۔ جب تک نالوں کی صفائی، انفرا اسٹرکچر کی بہتری، نکاسی آب کے نظام کی اصلاح اور ایمرجنسی رسپانس کو موثر نہیں بنایا جاتا، کراچی کا ہر بارش کے بعد ڈوبنا معمول بنا رہے گا اور یہ معمول ایک قومی المیہ بن چکا ہے۔





