Column

بیوقوف مت بنائیں

بیوقوف مت بنائیں
تحریر :علیشبا بگٹی

کہتے ہیں، ایک دور میں ایک بادشاہ تھا۔ جو نہایت طاقتور مگر حد درجہ نادان تھا۔ اسے لوگوں کا سوچنا، سوال کرنا، بات کرنا، پسند نہ تھا۔ وہ چاہتا تھا کہ رعایا بس سر ہلائے، اطاعت کرے اور خاموش رہے۔ ایک دن اس نے درباریوں سے کہا ’’ مجھے ایسی تعلیم چاہیے جو عوام کو پڑھا تو دے، مگر وہ میرے سامنے بیوقوف بن کر کھڑے ہوں‘‘۔ درباری ہنسے، خوشامد کی، اور بادشاہ کے حکم سے ’’ عوامی تعلیم کا ادارہ‘‘ قائم ہوا۔ نیا نصاب بنایا گیا۔ اس میں درج تھا۔ ’’ بادشاہ کبھی غلط نہیں ہوتا‘‘۔ ’’ سوال کرنا گستاخی ہے‘‘۔ ’’ جو کتاب میں لکھا ہے، وہی سچ ہے‘‘۔ ’’ جو یاد نہ کرے، وہ نالائق ہے‘‘۔ ’’ جو حکم ملے، وہ فوراً مان لو‘‘۔ بچے اسکول گئے۔ روزانہ وہی سبق رٹتے۔ ’’ بادشاہ سب سے عقلمند ہے۔ بادشاہ سب سے عقلمند ہے‘‘۔ اس طرح دن، ہفتے، مہینے، سال گزرے۔ اب ایک پوری نسل تیار ہو چکی تھی۔ وہ سب پڑھ لکھ گئے تھے ۔ لیکن کوئی کچھ سوچنے کے قابل نہ رہا۔ ایک دن بادشاہ بازار میں نکلا۔ ہر طرف خاموشی، اطاعت، چاپلوسی۔ دیکھی تو وہ بہت خوش ہوا۔ بولا ’’ کیا میں دنیا کا سب سے عظیم بادشاہ ہوں؟‘‘، سب بولے۔ ’’ جی ہاں حضور۔ آپ کا علم، آپ کی عقل، آپ کی عظمت سب دُنیا کے انسانوں سے اعلیٰ ہے‘‘۔۔
اچانک ایک چھوٹا سا بچہ آواز لگا بیٹھا۔ ’’ اگر بادشاہ اتنا عقلمند ہے، تو یہ تاج کیوں پہنا ہوا ہے؟ کیا عقل کو سونے کی ضرورت ہے؟‘‘، لوگ دنگ رہ گئے۔ سپاہی آگے بڑھے۔ مگر ایک بزرگ، جو تعلیم سے محروم تھا، مسکرایا اور کہا ’’ یہ بچہ جاہل ضرور ہے، لیکن بیوقوف نہیں۔ کیونکہ اس نے خود سوچا ہے‘‘۔ بادشاہ کے چہرے کا رنگ بدل گیا۔ اس دن، اسے پہلی بار اندازہ ہوا کہ ’’ ہم نے عوام کو پڑھایا ضرور، مگر سوچنا نہیں سکھایا۔ ہم نے جاہلیت ختم کی، مگر عقل کا گلا گھونٹا‘‘۔ بادشاہ نے فورا حکم دیا۔ ’’ نصاب بدلو‘‘۔ ’’ سوال پوچھنے کی اجازت دو‘‘ ۔ ’’ جواب سے زیادہ سوال کی قدر کرو‘‘۔
انسان جب پیدا ہوتا ہے، تو کچھ نہیں جانتا۔ وہ جاہل ہوتا ہے، مگر فطری عقل رکھتا ہے۔ اگر تعلیم اس کی فطری عقل کو دبائے، صرف اطاعت سکھائے، تو وہ بیوقوف بن جاتا ہے۔ سچّی تعلیم وہی ہے۔ جو سوچنے، سوال کرنے اور سچ تلاش کرنے کا حوصلہ دے۔
انسان جاہل پیدا ہوتے ہیں، بیوقوف نہیں، انہیں تعلیم کے ذریعے بیوقوف بنایا جاتا ہے۔ اس قول کا مطلب یہ ہے، کہ انسان جب پیدا ہوتا ہے تو وہ کچھ نہیں جانتا یعنی صرف جاہل ہوتا ہے۔ لیکن وہ فطری طور پر بیوقوف نہیں ہوتا۔ اس قول کے ذریعے یہ اشارہ کیا جا رہا ہے، کہ بعض اوقات تعلیم کا نظام یا طریقہ کار ایسا ہوتا ہے۔ جو لوگوں کو سمجھدار بنانے کی بجائے، انہیں غلط معلومات دے کر یا ان کی سوچ کو محدود کر کے بیوقوف بنا دیتا ہے۔ یہ تعلیم کے منفی پہلو پر ایک تنقید ہے، جہاں تعلیم کا مقصد علم دینا اور روشن خیالی لانا ہونا چاہیے، لیکن کبھی کبھار یہ اس کے برعکس اثرات مرتب کرتی ہے۔
’’ انسان جاہل پیدا ہوتے ہیں، بیوقوف نہیں، انہیں تعلیم کے ذریعے بیوقوف بنایا جاتا ہے‘‘۔ یہ جملہ سطحی طور پر طنزیہ بھی محسوس ہوتا ہے، لیکن درحقیقت یہ ہمارے موجودہ تعلیمی نظام کے گہرے اور پیچیدہ نقائص کی عکاسی کرتا ہے۔ تعلیم کا بنیادی مقصد انسان کی ذہنی، فکری اور اخلاقی تربیت ہے، مگر جب تعلیم کا نظام خود ہی تعصب، محدود نظریات، یا مخصوص سیاسی، معاشی یا سماجی ایجنڈوں کا شکار ہو جائے، تو یہ علم کی بجائے اندھی تقلید کو فروغ دینے لگتا ہے۔
سوچیں، کس طرح تعلیم کا نظام بعض اوقات انسان کی فطری عقل، سوال کرنے کی صلاحیت، اور تخلیقی سوچ کو ختم کر کے ایک ایسی ذہنیت پیدا کرتا ہے جو بظاہر ’’ تعلیم یافتہ‘‘ تو ہوتی ہے، لیکن حقیقت میں وہ فکر و نظر کی اس بلندی سے محروم ہوتی ہے، جو تعلیم کا حقیقی مقصد ہے۔
انسان فطری طور پر تجسس رکھنے والا، سیکھنے والا اور تخلیقی مخلوق ہے۔ نومولود بچہ کچھ بھی نہیں جانتا، مگر سیکھنے کی فطری صلاحیت رکھتا ہے۔ ’’ جہالت‘‘ ایک فطری حالت ہے، مگر ’’ بیوقوفی‘‘ ایک سیکھا گیا رویہ ہو سکتا ہے۔ یعنی ایسا طرزِ فکر جو غیر منطقی، غیر نقادانہ اور غیر تخلیقی ہو۔ جب تعلیم کا نظام ان فطری صلاحیتوں کو دبانے لگے، تو وہ انسان کو علم تو دیتا ہے، لیکن عقل چھین لیتا ہے۔
ہمارا تعلیمی سسٹم رٹے پر مبنی نظام ہے۔ یہاں اکثر و بیشتر حفظ کردہ معلومات کو فوقیت دیا جاتا ہے، جس نے زیادہ رٹا لگایا ہوتا ہے، اُسی کو ذہین سمجھا جاتا ہے، بجائے اس کے کہ طلبہ کو سوچنے، سوال کرنے، اور تجزیہ کرنے کی تربیت دی جائے۔ اس رٹے بازی کے عمل میں طالب علم محض ایک میموری بینک بن جاتا ہے، نہ کہ ایک باشعور مفکر۔ پھر وہ بے ہنر بھی ہوتا ہے۔ اس کے پاس کسی عملی کام کی مہارت بھی نہیں ہوتی ہے۔ وہ صرف ڈگری کے کاغذ کے سہارے پر صرف نوکری کی تلاش میں سرگرداں ہوتا ہے۔
کئی ممالک میں تعلیمی نصاب قومی بیانیے یا مخصوص نظریاتی مقاصد کی بنیاد پر ترتیب دیا جاتا ہے، جس کے نتیجے میں طلبہ کو متبادل نظریات یا حقائق تک رسائی نہیں ہوتی۔ یوں تعلیم محدود نظریاتی فریم ورک میں مقید ہو جاتی ہے۔
بعض تعلیمی ادارے یا اساتذہ سوالات کو بدتمیزی یا نافرمانی سمجھتے ہیں۔ اس طرح طلبہ کی فطری تجسس پسندی اور تنقیدی سوچ دب جاتی ہے۔
تعلیم اب ایک ’ پروڈکٹ‘ بن چکی ہے، اور تعلیمی ادارے کاروباری ادارے بن چُکے ہیں۔ جو صرف فیسوں کے ذریعہ پیسہ کمانے کی فیکٹریاں بن چُکے ہیں۔ علم کے بجائے، ڈگری اہم ہوگئی ہے۔ اور ڈگری کا مطلب ہے روزگار، ملازمت، نوکری کا حصول، نہ کہ فہم و شعور اور تعلیم و علم کا حصول۔
ایسے تعلیمی نظام کا پیدا کردہ طالب علم بظاہر ڈگری یافتہ، مگر فکری طور پر غلام ہوتا ہے۔ وہ سچائی کو سوال کرنے سے ڈرتا ہے، نیا سوچنے سے قاصر ہوتا ہے، اور سماجی یا مذہبی تعصبات کو بغیر تحقیق کے قبول کر لیتا ہے۔ یہی وہ ’’ بیوقوفی‘‘ ہے جس کا ذکر قول میں کیا گیا ہے۔ ایک ایسی ذہنی حالت جو شعور کی بجائے، سسٹم کی پیروی کرتی ہے۔
درحقیقت، تعلیم شعور کی بیداری ہے۔ نہ کہ صرف معلومات کا انبار۔ تعلیم وہ طاقت ہے جو انسان کو خود سے سوال کرنے، سچائی کو تلاش کرنے، اور دنیا کو بہتر بنانے کی کوشش کرنے پر مجبور کرے۔ تعلیم انسان کو ’’ سوچنا‘‘ سکھائے، نہ کہ ’’ پیروی‘‘ کرنا۔ نصاب میں تنقیدی سوچ اور فلسفہ شامل کیا جانا چاہیے۔ طلبہ کو یہ سکھایا جائے کہ ہر علم کو سوال کیا جا سکتا ہے۔ اساتذہ کی تربیت میں وسعتِ نظری کو شامل کیا جائے۔ اساتذہ کو صرف معلومات دینے والا نہیں، بلکہ راہ دکھانے والا بنایا جائے۔ تعلیم کو انسان سازی کا ذریعہ بنایا جائے۔ نہ کہ رٹے بازی کا ربورٹ، تعلیم کا مقصد صرف روزگار نہیں، بلکہ ایک باشعور شہری پیدا کرنا ہونا چاہیے۔ جدید ٹیکنالوجی کا مثبت استعمال سکھانا چائیے۔ جدید وسائل کو استعمال کر کے طلبہ کی خود سیکھنے کی صلاحیت کو فروغ دیا جانا چاہیے۔ ان کو کوئی سکل سکھانا چاہیے جو کسی کام میں عملی مہارت آسکے۔
قول کی سچائی اس وقت پوری طرح سامنے آتی ہے، جب ہم اپنی تعلیمی پالیسیوں اور عمل پر نظر ڈالتے ہیں۔ تعلیم کا نظام اگر آزاد، فکری اور اخلاقی بنیادوں پر قائم نہ ہو، تو وہ انسان کو باشعور بنانے کی بجائے اسے ایک ایسی مشین میں تبدیل کر دیتا ہے، جو سوچنے سے قاصر ہوتی ہے۔ لہٰذا ضروری ہے کہ ہم تعلیم کو ایک مقدس فریضہ سمجھیں، نہ کہ صرف ایک پیشہ ورانہ ضرورت، تاکہ ہم جاہل تو پیدا ہوں، مگر تعلیم یافتہ بیوقوف نہ بنیں۔ اور حقیقت یہ ہے کہ جو ہمارے سکولوں کالجوں اور یونیورسٹیوں سے نکلتی ہیں، ان میں اکثریت انپڑھ ہوتی ہے۔ یہ تجارتی سوچ ہی تو ہے، کہ ہمارا تعلیمی نظام معاشرے کو معقول اور شائستہ تعلیم دینے سے قاصر رہا ہے۔ اور صرف نقل پاس لوگ ہی ملتے ہیں۔ جو کسی موضوع پر اردو اور انگریزی میں ایک صفحہ بھی نہیں لکھ سکتے۔ اب تو سب نیٹ، گوگل، چیٹ جی پی ٹی جیسے ایپ کے سہاروں پر چل رہے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button