Column

بحیثیت قوم ہمارے زوال کے اسباب

بحیثیت قوم ہمارے زوال کے اسباب
تحریر : خالد غور غشتی
ہم جہاں بھی جائیں، کچھ باتیں ایسی ہیں؛ جو ہماری قومی شناخت بن چکی ہیں۔ وقت گزرنے کے ساتھ ان میں کمی آنے کی بجائے تواتر سے اضافہ ہو رہا ہے۔ آئیں! آج اُن کا سرسری جائزہ لے کر تدارک کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔سستی اور کام چوری: یہ وبا نہ صرف چھوٹے طبقے بلکہ اعلیٰ سطح تک پھیلی ہوئی ہے۔ کام میں سستی اور چوری کرنا ہمارا قومی وتیرہ بن چکا ہے۔ اپنے پیٹ اور گھر کے سوا ہمیں کسی کی کوئی فکر ہی نہیں، اس لیے اکثر ہمارے گھروں کے سامنے گندے پانی کا کھڑا ہونا اور کوڑا کرکٹ کے ڈھیر لگ جانا معمول کی بات بن چکی ہے۔
جھوٹ اور وعدہ خلافی: اس سے ہمارے دین نے سختی سے منع کیا ہے لیکن آج کل جھوٹ بولنا اور وعدہ خلافی کرنا فیشن کا درجہ اختیار کر چکا ہے، اپنی ہر اُلٹی سیدھی بات منوانے اور ناک اُونچا رکھنے کے لیے آج ہم ہر گناہ کرنے کے لیے تیار ہو جاتے ہیں۔ آج کل تاجر کہتے ہیں، جھوٹ کے بغیر ہمارا کاروبار ہی نہیں چل سکتا۔ ان کے سامنے مُحسن انسانیت کا سیکھایا ہوا یہ سبق ہوتا کہ اللہ صبر کرنے والوں اور سچ بولنے والوں کے ساتھ ہے تو وہ ایسا ہرگز نہ کرتے۔
بے جا تنقید اور بہتان بازی: سوشل میڈیا کی آمد سے قبل بھی یہ وبا بہت عام تھی، آج کل تو جیسے اس کے بغیر لگتا ہے، قوم کا کوئی چارہ ہی نہیں رہا۔ فیس بک پر ہر دوسری پوسٹ پر بے جا تنقید اور بہتان بازی دیکھ کر لگتا ہے، ہم بنے ہی ایک دوسرے پر تنقید اور بہتان کے لیے ہوں۔
قرآن تعلیمات سے دوری: وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ اُمتِ مسلمہ مختلف خرافات میں پڑ کر اللہ کے دین سے دور ہوتی جا رہی ہے، اب تو رمضان کا مسلمان بننا بھی مشکل نظر آتا ہے، آج ضرورت اس امر کی ہے کہ قرآن کریم کی روزانہ ہم نہ صرف تلاوت کریں بلکہ اسے ترجمہ و تفسیر کے ساتھ بھی پڑھیں، تاکہ یہ یقین پختہ ہو۔ رب کائنات ہمیں کیا کہنا چاہتے ہیں۔ جب صدق دل اور خوش الحانی سے قرآن پاک پڑھا جاتا تو کائنات کا ذرہ ذرہ خوشیوں سے جُھوم اُٹھتا ہے، حتیٰ کہ کئی مخلوقات اس کے نشہ لذت عشق میں گرفتار ہو جاتی ہیں۔ یہ رب کریم کا کلام ہے اور اس نے قیامت تک بنی آدم کی ہدایت کا راستہ دِکھانا ہے۔ اللہ ہمیں قرآن کو پڑھنے اور سمجھنے کی توفیق عطا فرمائے۔
بے حیائی کا فروغ: اُمتِ مسلمہ جو پہلے ہی لاتعداد فتنوں کا شکار ہو کر زبوں حال تھی، انٹرنیٹ نے رہی سہی کسر بھی پوری کر دی۔ نوجوان حرمت کے رشتوں کا تقدس پامال کرتے نظر آتے ہیں۔ اب تو گھروں میں بھی ہمارے قریبی رشتے غیر محفوظ ہو چکے ہیں۔ اللہ ہمیں شرم و حیا نصیب فرمائے۔
وقت کا ضیاع: ہماری اکثریت کی زندگی کا روزمرہ کوئی جدول نہیں، جب چاہا؛ جیسے چاہا کر لیا، کبھی دل کیا جماعت سے نماز پڑھ لی، کبھی دل چاہا اکیلے پڑھ لی۔ کبھی دل کیا تو محنت مزدوری کر لی، کبھی دل کیا چھٹی کر لی، غرض کہ ہم ہر معاملے میں اپنی من پسند زندگی گزارنے کے عادی ہو چکے ہیں اور مقصد حیات کو بھول اپنے وقت کی قدر کُھو چکے ہیں۔

جواب دیں

Back to top button