
جتھے کا ’’ انصاف‘‘ اور آزادی صحافت
تحریر : سی ایم رضوان
پاکستان میں صحافت اور آزادی اظہار دونوں ہی سخت مشکلات اور پابندیوں کی زد میں ہیں جبکہ اس سال گراف گزشتہ سال کے مقابلے میں مزید نیچے گِر گیا ہے۔ چند ہفتے قبل جاری ہونے والی ایک رپورٹ کے مطابق 180ممالک کی فہرست میں پاکستان کا نمبر آزادی صحافت میں 158ویں نمبر پر ہے جبکہ 2024ء میں پاکستان کا انڈیکس پر 152واں نمبر تھا۔ سوال تو یہ ہے کہ پہلے سے ہی سرخ دائرے یعنی خطرے کی حد میں موجود پاکستان کی آزادی صحافت میں اس سال ایسا مزید کیا ستم ہوا کہ وہ مزید چھ نمبر نیچے چلا گیا۔ المیہ تو یہ ہے کہ پاکستان میں سیاسی حکومت ہونے کے باوجود پارلیمان اتنی فعال نہیں۔ یہ بھی المیہ ہے کہ بہت محدود موضوعات ہیں جن پر پاکستان میں صحافت ہو رہی ہے۔ موجودہ سیاست یا حکومت پر ہم بات کر سکتے ہیں۔ سیاستدانوں پر بات کرنے کی کھلی اجازت ہے۔ آپ سیاستدانوں کی لڑائیاں کروا لیں، ایک دوسرے کی پگڑیاں اچھالیں، فرق نہیں پڑے گا۔ اس طرح کی صحافت کی اجازت ہے۔ البتہ پاکستان میں جن صوبوں کا کنٹرول خاص طاقتوں کے ہاتھ میں ہے وہاں کوئی ڈھنگ کی خبر یا اصل معلومات سامنے نہیں آ رہیں۔ اصل خبر یا معلومات تک وہاں رسائی بھی ممکن نہیں۔ وہاں صحافی اپنی جان کو خطرات کے باعث اصل بات نہیں کر پاتے۔ گڈ طالبان اور بیڈ طالبان کی تفریق میں بھی مسئلے ہوتے ہیں۔ حقیقت یہ ہے کہ آزادی صحافت بڑی کنٹرولڈ ہے۔ بہت سارے صحافی کہتے ہیں کہ ہم بہت کھل کر بات کر رہے ہیں لیکن عملاً ایسا نہیں۔ میڈیا ہائوسز اور ٹی وی چینلز کے بھی پر جلتے ہیں۔ ان حالات میں لوگوں کو بھی سمجھ آ گئی ہے کہ بات کریں گے تو جان سے جائیں گے۔ تو عموماً یہ ہوتا ہے کہ سیلف سنسر شپ کے تحت جتنی بات سے ہماری زندگی بچ سکتی ہے اتنی ہی رپورٹ کی جا رہی ہے۔
پاکستان کے صوبے بلوچستان میں امن و امان کا مسئلہ سنگین ہے اور اس تناظر میں وہاں سے تعلق رکھنے والے صحافیوں کا کہنا ہے کہ وہاں نہ صرف صحافت کرنا مشکل ہے بلکہ گزشتہ دو دہائیوں کے دوران صوبے میں سب سے زیادہ صحافیوں کو ٹارگٹ کلنگ کا نشانہ بنایا گیا۔ بلوچستان میں صحافیوں کی تنظیم بلوچستان یونین آف جرنلسٹس کے صدر خلیل احمد کا کہنا ہے کہ جب سے پیکا کا قانون آیا ہے تب سے پاکستان بالخصوص بلوچستان میں صحافت کرنا بہت مشکل ہو گیا ہے جبکہ پورے ملک میں ریاستی اداروں پر کھل کر بات کرنے والی انتشار پسند سیاسی جماعت اپنے قائدین کے خلاف کوئی بات برداشت کرنے کے لئے تیار نہیں۔ دوسرے عوامل بھی ہیں۔ صحافیوں کو عسکریت پسند تنظیموں، مذہبی شدت پسند تنظیموں اور بااثر غنڈہ عناصر کے دبائو کا بھی سامنا کرنا پڑتا ہے۔ یوں کہیے کہ صحافیوں کو چاروں طرف سے مشکلات نے گھیرا ہوا ہے جس کی وجہ سے اب صحافی صحافت چھوڑنے پر مجبور ہو رہے ہیں۔ کراچی یونین آف جرنلسٹس ( دستور) کے جوائنٹ سیکرٹری محمد سہیل رب خان کہتے ہیں کہ اس وقت صحافی اور صحافت دونوں ہی مختلف سیاسی تنظیموں اور اداروں کی طرف سے دبائو میں ہیں اور ملک میں اظہار رائے کی آزادی وقت گزرنے کے ساتھ ساتھ کم ہو رہی ہے۔ محمد سہیل رب خان کے مطابق اب اکثر سُننے میں آتا ہے کہ کسی صحافی کو اغوا کر لیا یا حراست میں لے لیا گیا یا انہیں دھمکی آمیز فون کال موصول ہوئی۔ ان تمام چیزوں کو دیکھا جائے تو یقیناً صحافی اور صحافت دونوں ہی پاکستان میں ایک مشکل وقت سے گزر رہے ہیں، دوسری جانب خود کو فوج پر تنقید کے لئے آزاد سمجھنے والی جماعت کی جانب سے کوشش کی جا رہی ہے کہ ان کے خلاف اظہار رائے کی آزادی کو کم کیا جائے۔
’’ رپورٹرز دو آئوٹ بارڈرز‘‘ کی شائع اس رپورٹ میں پاکستان سمیت دنیا کے 80ممالک میں آزادی صحافت کی رینکنگ اور صحافیوں پر تشدد، حراست اور پیشہ ورانہ ذمہ داریوں کی ادائیگی کے دوران ہلاکتوں کے اعداد و شمار شائع کیے گئے ہیں۔ اس رپورٹ کے مطابق پاکستان میں 2024ء میں سات صحافی اور میڈیا ورکرز دوران صحافت ہلاک ہوئے جبکہ 2025 ء کے پاکستان کے حوالے سے اس میں اعداد و شمار تاحال شائع نہیں کیے گئے۔ دوسری جانب دنیا بھر سے2025ء کی ابتدا سے اب تک مختلف واقعات میں 15صحافی ہلاک ہوئے جبکہ 555صحافی اور میڈیا ورکرز کو حراست میں بھی لیا گیا۔ رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ 54صحافیوں کو 2025ء میں اب تک یرغمال بنایا گیا جبکہ 99لاپتہ ہیں۔ رپورٹ کے مطابق پاکستان صحافیوں کے لئے دنیا کے خطرناک ترین ممالک میں سے ایک ہے، جہاں ہر سال متعدد صحافی یا میڈیا ورکر قتل ہوتے ہیں۔ صحافت کے تحفظ کی آڑ میں پاکستانی قانون کو بھی صحافیوں کے خلاف ہی استعمال کیا جاتا ہے جبکہ پیکا قانون کو آن لائن جرائم کے کریک ڈائون کی بجائے آن لائن اظہار رائے کی آزادی کو محدود کرنے کے لئے زیادہ استعمال کیا جاتا ہے۔ رپورٹ میں غیر ریاستی عناصر کی کارروائیاں، بنیاد پرست گروپس اور علیحدگی پسند باغیوں کو آزادی صحافت کے لئے خطرہ قرار دیا گیا ہے۔ رپورٹ میں دی گئی معلومات کے مطابق پاکستان میں اس وقت 100 ٹی وی چینلز اور 200سے زیادہ ریڈیو سٹیشن ہیں جبکہ آن لائن میڈیا بھی خبروں کی ترسیل کے لئے سرگرم عمل ہے جبکہ میڈیا ریگولیٹرز پر حکومت کا براہ راست کنٹرول ہے۔ اس سب کے ہوتے ہوئے یہ کہنا بجا ہے کہ پاکستان میں ہر دور صحافیوں کے لئے مشکل رہا ہے۔
خاص طور پر پی ٹی آئی ٹرولز کی جانب سے ملک بھر کے صحافیوں کو ہر وقت ہتک اور حملوں کا خطرہ رہتا ہے۔ اسی نوعیت کا ایک تازہ حملہ گزشتہ روز اڈیالہ جیل کے باہر دو صحافیوں پر ہوا۔
شاید یہ حملہ ہجوم کی نفسیات کا شاخسانہ ہے یا پاکستان تحریک انصاف کی خالص اور منفرد سیاسی سوچ اور پالیسی کا کیا دھرا ہے کہ گزشتہ روز بانی پی ٹی آئی کی بہن محترمہ علیمہ خان سے امریکا میں جائیدادوں سے متعلق سوال پر پی ٹی آئی کارکنان نے پاکستان بھر کے میڈیا نمائندوں کے سامنے ایک سے زائد صحافیوں پر تشدد اور توہین کی انتہا کر دی، جواب میں صحافیوں نے ان کی میڈیا ٹاک کا بائیکاٹ کیا جو کہ امن کی حدود میں رہتے ہوئے یہی کر سکتے تھے، تاہم پی ٹی آئی کے کئی کارکنان گرفتار کر لئے گئے۔ واضح رہے کہ صحافی طیب بلوچ نے گزشتہ روز بھی اور اس سے قبل بھی ایک میڈیا ٹاک میں مبینہ طور پر شوکت خانم میموریل ہسپتال کے فنڈز سے علیمہ خان کے امریکا میں جائیدادیں بنائے جانے کا سوال کیا تھا جس پر علیمہ خان کی جانب سے تو کوئی وضاحتی بیان سامنے نہ آیا البتہ پی ٹی آئی ورکرز نے ان کو گالیوں اور تشدد کا نشانہ بنا ڈالا۔
تشدد کے شکار صحافی طیب بلوچ نے پی ٹی آئی رہنمائوں اور کارکنوں کے خلاف تھانہ صدر بیرونی میں درخواست دے دی، جس میں طیب بلوچ نے موقف اختیار کیا کہ دیگر میڈیا نمائندگان کے ہمراہ وہ اڈیالہ جیل گیٹ کے سامنے موجود تھا۔ میڈیا ٹاک کے دوران وکیل نعیم پنجوتھہ نے للکارا کہ اسے علیمہ خان سے سوال کرنے کا مزہ چکھائو۔ درخواست میں یہ بھی کہا گیا کہ ایم پی اے تنویر اسلم، اظفر اور ٹوما نے جکڑ کر گرا لیا اور انتصار ستی سمیت 40نامعلوم پی ٹی آئی کارکنان نے حملہ آور ہو کر تشدد کیا۔ درخواست میں مزید کہا گیا ہے کہ تشدد کے دوران موبائل فون چھین کر مائیک توڑ دیا گیا اور مجھے چھڑانے کی کوشش کرنے پر اعجاز احمد اور فیصل حکیم پر بھی تشدد کیا گیا۔ طیب بلوچ نے اپنی درخواست میں کہا کہ علیمہ خان اور ان کی پارٹی کے دیگر قائدین کو امریکا کی جائیدادوں سے متعلق سوال ناگوار گزرا تھا جس پر انہوں نے میرے خلاف سوشل میڈیا کمپین چلوائی، اور مجھ سمیت فیصل حکیم، غلام رسول قنبر کی تصاویر لگا کر سوشل میڈیا پر پروپیگنڈہ کیا گیا۔ طیب بلوچ نے مزید لکھا کہ آج طے شدہ پلان کے مطابق مجھ پر حملہ اور تشدد کیا گیا اور موبائل فون چھین کر مائیک توڑ دیا گیا۔ درخواست میں کہا گیا ہے کہ علیمہ خان، نعیم پنجوتھہ، انتصار ستی کے خلاف قانونی کارروائی کی جائے۔ مقدمے میں پی ٹی آئی وکیل نعیم پنجوتھہ، انتصار ستی اور 40کے قریب نامعلوم کارکنوں کو نامزد کیا گیا ہے جبکہ تشدد سے صحافی طیب بلوچ سمیت دو صحافی زخمی ہوئے، دونوں کے کپڑے پھٹ گئے دیگر صحافیوں نے زخمیوں کو بچایا۔ ایس پی صدر نبیل کھوکھر، اے ایس پی زینب ایوب ایس ایچ او اعزاز عظیم نفری کے ہمراہ موقع پر پہنچ گئے، اور تشدد کرنے والے افراد کی گرفتاری کیلئے نفری بلوائی گئی۔ پولیس نے اڈیالہ جیل کے گیٹ ون سے متعدد پی ٹی آئی کارکنان کو حراست میں لے لیا تاہم تشدد کرنے والے بیشتر کارکنان موقع سے فرار ہو گئے۔ خیال رہے کہ اڈیالہ جیل کے باہر پی ٹی آئی کارکنوں کے صحافیوں پر اس تشدد کے معاملے پر تھانہ صدر بیرونی نے مقدمہ درج کر لیا ہے۔ مقدمہ صحافی طیب بلوچ کی مدعیت میں درج کیا گیا ہے۔ مقدمہ میں علیمہ خان کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ ایف آئی آر کے متن میں پی ٹی آئی وکیل نعیم پنجوتھہ، انتصار ستی اور 40کے قریب نامعلوم کارکنوں کو بھی نامزد کیا گیا ہے۔ اس مقدمہ نمبر 1169/25میں تعزیرات پاکستان کی پانچ دفعات شامل ہیں، جن میں دفعہ 506، 147،149،382اور 427بھی شامل ہیں لیکن ساتھ ہی یہ بھی خیال رہے کہ اس مقدمے کی اس پارٹی کی قیادت کو کیا پرواہ ہے جس کے ایک اشارہ چشم پر سینکڑوں لوگ اس طرح کی کئی ایف آئی آرز اپنے خلاف درج کروانے کے لئے تیار رہتے ہیں اور اس ضمن میں وہ کسی بھی قسم کا کوئی لحاظ ملحوظ نہیں رکھتے۔ جیسا کہ اس واقعہ میں پٹنے والے صحافی طیب بلوچ کے میڈیا ہائوس کو بھی پیش نظر نہیں رکھا گیا جو ماضی قریب میں پی ٹی آئی کا سب سے زیادہ جانبدار رہا ہے۔ شاید پی ٹی آئی کے ان عاشقان کے نزدیک ایک ہی اصول قابل قبول ہے کہ جو صحافی بانی پی ٹی آئی یا ان کے خاندان کے کسی فرد سے ’’ رسیدیں‘‘ دکھانے کا سوال کرے گا یہ اس کی جان کے دشمن ہوں گے۔
سی ایم رضوان





