Column

ہاتھ دکھانے کا فن

ہاتھ دکھانے کا فن
تحریر : خالق اعوان

لڑکپن میں ہم پر بھی وہ زمانہ آیا، جسے Adolescence Fantasyکا دور کہا جاتا ہے۔ اس عمر میں نوجوان مافوق الفطرت علوم، جیسے جادو، دست شناسی، علمِ جعفر، ٹیلی پیتھی اور شمع بینی سیکھنے کی تمنا رکھتے ہیں۔ ہمارے ہاتھ بھی شمع بینی کی ایک کتاب لگی، مگر شمع نایاب ہی رہی، سو شوق ادھورا رہا۔ پھر ہمارے ایک دوست، جو ذرا خوشحال خاندان سے تعلق رکھتے تھے ( ماشاء اللہ اب وہ ایک معروف Eye Surgeonہیں اور خاصے متمول ہیں)، ایک مشہور پاکستانی دست شناس میر بشیر صاحب کی کتاب لے آئے۔ گھومتے پھرتے ہماری باری آئی تو یہ کتاب ہمیں بھی پڑھنے کو ملی۔
کتاب ایسی دقیق اور مشکل تھی کہ اس کے بیشتر مضامین ہمارے فہم و ادراک سے ماورا رہے۔ زہرہ اور مشتری سمیت سارے ابھار ہماری پہنچ سے دور رہے، درجن بھر جزیروں کا بھی ہم صرف طواف کر سکے۔ البتہ خطوط سے ہمارا پرانا شغف تھا، سو خطِ حیات، خطِ قلب، خطِ دماغ اور خطِ قسمت کے مختلف زاویوں اور ان کے اثرات کو ازبر کر لیا۔ میر بشیر صاحب نے ایک کرم یہ تفصیل لکھ کر کی کہ کس عمر کے لوگ کیا جاننے کے لیے دست شناس کے ہاں حاضری دیتے ہیں۔ اس اصولِ عامہ کو اپنا کر ہم نے مفت خوروں کے ہاتھ دیکھنے شروع کر دئیے، البتہ یہ احتیاط رکھی کہ کسی کو منحوس خبر نہ سنائیں۔ اس شوقِ ناتمام کے طفیل کئی حنائی ہتھیلیوں کی لکیروں اور ابھار کو پرکھنے کے مواقع بھی ملے۔
کچھ سال بعد جب ذرا فرصت میسر آئی تو شوق ہوا کہ اس فن کے کہنہ مشق اساتذہ سے کچھ سیکھا جائے۔ ایک دوست نے یہ معدہ سنایا کہ لاہور میں نہر کنارے ایک خوشحال بستی میں مقیم ایک محترمہ کی فنِ دست شناسی میں بہت دھوم ہے۔ ہم نے ہاتھوں کے نقش بنوائے اور بمعہ مبلغ پانچ سو روپے کے چیک کے ان کو بذریعہ ڈاک لاہور بھجوا دئیے۔ کچھ دن بعد جب فون پر ان سے بات ہوئی تو انہوں نے فرمایا کہ وہ نقش نہیں دیکھتیں، ذاتی حاضری ضروری ہے۔ اس پر ہم کچھ ٹھٹکے کہ تمام نامور دست شناس نقش سے بھی کام لیتے ہیں۔
قصہ مختصر، کچھ عرصہ بعد خادم ان کے دولت کدے پر حاضر ہوا اور ہاتھ پھیلا دئیے۔ محترمہ نے ہاتھوں پر اچٹکتی سی نظر ڈالی اور بولنا شروع ہوئیں، اور اس فقیر کا ماضی تقریباً آشکار کر دیا، یہاں تک کہ دل کے نہاں خانوں میں مدفون کسی کا نام تک بتا دیا۔ اب میں ٹھٹکا کہ محترمہ یہ دست شناسی تو نہیں۔ ذرا سی لیت و لعل اور بحث و تمہید کے بعد وہ مان گئیں کہ یہ کوئی اور روحانی علم ہے۔ بات مستقبل پر آئی تو گویا ہوئیں کہ میں اپنی نوکری بدل لوں گا۔ میں شرط لگانے پر مصر ہوا کہ ایسا نہیں ہوگا ( اور واقعی میں اگلی کئی دہائیوں تک اسی روزگار سے وابستہ رہا)۔ کچھ اور پیشین گوئیاں بھی کیں جو میں نے نہ مانیں اور نہ کبھی پوری ہوئیں۔ البتہ میرے دو دوست ان سے ملے، ان کی ترقی کے بارے میں جو پیشگوئیاں ہوئیں وہ بظاہر ناممکن لگتی تھیں مگر حیرت انگیز طور پر دونوں دوست ان اعلی عہدوں تک پہنچ گئے۔
بعد ازاں میں کئی سال تک جب بھی لاہور گیا ان سے ملا، مگر کوئی پیشگوئی پوری نہ ہوئی۔
1997ء میں لاہور ہی میں پاکستان کے سب سے نامور دست شناس، ایم اے ملک سے ملنے کا شرف حاصل ہوا۔ بنیادی طور پر ایک استاد تھے۔ آپ کی بہت سی پیشگوئیاں، خصوصاً بھٹو صاحب کی پھانسی سے متعلق، بہت مشہور ہوئیں۔ آپ نہایت شفیق انسان تھے۔ ملاقات کے ابتدائی کلمات میں فرمایا: بیٹا! I am not a fortune teller. آپ کوDestinyکوئی نہیں بتا سکتا۔ ہم اپنے علم اور تجربے کے طفیل دست شناسی سے آپ کے اخلاق و کردار اور رجحانات کے بارے میں بتا سکتے ہیں۔ مستقبل سے متعلق صرف اندازے لگائے جا سکتے ہیں‘‘۔
پھر انہوں نے میرے ہاتھوں کی لکیریں اور ابھار دیکھ کر درست حد تک میرے ماضی کو کھنگالا۔ میرے دائیں ہاتھ پر موجود ایک مثلث کو قلم زد کر کے گویا ہوئے کہ آپ کے پیشے کی تبدیلی کا اشارہ ہے۔ مزید فرمایا کہ مجھے لگتا ہے اب آپ کا رزق سمندر پار سے آئے گا۔ میں نے اختلاف کی جسارت کرتے ہوئے کہا کہ پیشہ بدلنے کا کوئی امکان نہیں اور یہ کہ چونکہ میں ایک سرکاری ملازم ہوں، میرا رزق تو ابھی بھی سمندر پار سے آئی ایم ایف کے قرضے سے آتا ہے۔ اور یہ رزق اگلی کئی دہائیوں تک ادھر ہی سے آتا رہا۔
پھر کچھ عرصہ بعد گڑھی شاہو لاہور میں مقیم ایک نوجوان دست شناس سے ملاقات ہوئی۔ جنہوں نے فخریہ بتایاکہ یہ علم انہوں نے بھارت کے رشیوں اور سری لنکا کے شاستریوں سے سیکھا ہے۔ ان کی تان بھی ہماری نوکری پر ٹوٹی۔ اور ہم اس سے تائب ٹھہرے۔
دنیا میں ابتدائے آفرینش سے مخفی علوم موجود ہیں، مگر سچ یہ ہے کہ تمام انسانی علوم ناقص ہیں۔ کامل علم صرف خدائے لم یزل کا ہے۔ اسلامی تعلیمات بھی یہی ہیں کہ ’ تمہیں علم میں سے بہت تھوڑا دیا گیا ہے‘۔
پاکستان میں قحط الرجال ہے۔ ایم اے ملک جیسے فن شناس اب دنیا میں نہیں رہے۔ گڑھی شاہو جن کے سروں پر آپ چاندی بولتی ہے اور ڈیزائنر ملبوسات میں لپٹی اپسرائیں، ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا پر چھائے ہیں، زیادہ تر نام نہاد دست شناس، ستارہ و قافیہ شناس اور عامل ہیں۔ طرفہ تماشہ یہ کہ بوٹا مسیح جیسے لوگ بھی اس ملکِ خداداد میں بذریعہ ایزی پیسہ نوٹ چھاپ رہے ہیں۔ اتائیوں اور نوسربازوں کے اس جمعہ بازار میں ضرورت اس امر کی ہے کہ اللہ پاک پر توکل کرکے ان سے اجتناب کرکے اپنا ایمان اور مال بچایا جائے۔

جواب دیں

Back to top button