سال 2025میں زمین کا کرب اور انسانی المیے

سال 2025میں زمین کا کرب اور انسانی المیے
تحریر : رفیع صحرائی
سال 2025کے ابھی سوا آٹھ ماہ ہی گزرے ہیں لیکن دنیا نے جس شدت کے ساتھ طوفان، زلزلے، کلائوڈ برسٹ، مہلک سیلاب اور سرخ چاند جیسے مناظر دیکھے ہیں وہ انسانیت کو ایک گہری سوچ کی دعوت دے رہے ہیں۔ ہم اگر غور کریں تو کائنات ہمیں چیخ چیخ کر یہ بتا رہی ہے کہ انسانی بقا کا رشتہ فطرت کے ساتھ توازن قائم کرنے سے مشروط ہے۔ اگر فطری توازن میں بگاڑ آ جائے تو بربادی اور تباہی مقدر ہو جاتی ہے۔
سالِ رواں میں ہی خلیج میکسیکو اور فلپائن کے ساحلی علاقوں میں آنے والے طوفانوں نی لاکھوں انسانوں کو بے گھر کیا۔ جاپان اور ترکی میں آنے والے زلزلوں نے سیکڑوں بستیاں ملیامیٹ کر ڈالیں اور ہمالیہ و گلگت بلتستان کے خطے میں کلائوڈ برسٹ نے گائوں کے گائوں صفحہ ہستی سے مٹا دئیے۔ ہمارے پاکستان اور بنگلہ دیش میں شدید بارشوں کے بعد سیلابی ریلوں نی کھڑی فصلیں بہا دی ہیں، پل اور سڑکیں توڑ ڈالی ہیں جس کے نتیجے میں ہزاروں خاندان بے سرو سامانی کے عالم میں کھلے آسمان تلے آ گئے ہیں۔ اسی دوران سرخ چاند کے مناظر نے دنیا بھر کے انسانوں کو خوف اور حیرت میں مبتلا کر دیا۔ گو سائنسدان اسے ایک فطری مظہر قرار دیتی ہیں لیکن انسانی ذہن اسے اللہ کی طرف سے تنبیہ قرار دے رہے ہیں۔ تاریخ گواہ ہے کہ آسمانی اور زمینی آفات انسانوں کو ان کی کوتاہیاں یاد دلایا کرتی ہیں۔
ہم تاریخ کے بدترین سیلاب کا سامنا کر رہے ہیں۔ جانے سیلاب کا یہ عذاب مزید کتنا عرصہ جاری رہے گا۔ سیلاب کے بعد بھوک اور قحط کا عفریت منہ کھولے کھڑا ہو گا۔ متاثرین کی بحالی کا دشوار ترین کام درپیش ہو گا جبکہ وبائی امراض انسانوں اور جانوروں پر ایک الگ قہر کی صورت میں نازل ہوں گے۔
ان قدرتی آفات کے ساتھ ساتھ انسانی جنگوں نے بھی 2025ء میں زمین کے زخم گہرے کیے ہیں۔ مشرقِ وسطیٰ سے لے کر یورپ اور افریقہ تک، کئی خطے اب بھی بارود اور خون کی لپیٹ میں ہیں۔ بھارت نے بھی پاکستان پر حملہ کر کے دنیا کا امن و سکون تباہ کرنے میں اپنا بھرپور حصہ ڈالنے کی کوشش کی۔ وہ تو شکر ہے پاکستان بھی اس کے لیے تیار تھا اور منہ کی کھانے کے بعد مودی کو عقل آ گئی۔ دکھ اس کا ہے کہ توازن میں بگاڑ کی وجہ سے جہاں ایک طرف فطرت اپنا انتقام لے رہی ہے، وہیں دوسری طرف انسان اپنی ہی بنائی ہوئی جنگوں سے زمین کو مزید اجاڑ رہا ہے۔
اگر یہی حالات جاری رہے تو آنے والے برسوں میں دنیا کو قحط، صاف پانی کی کمی اور خوراک کے بحران کا سامنا ہی نہیں کرنا پڑے گا بلکہ ہجرتوں کی نئی لہریں دنیا کو اپنی لپیٹ میں لے سکتی ہیں۔ سائنسی ادارے خبردار کر رہے ہیں کہ عالمی درجہ حرارت کی مزید بڑھوتری کے ساتھ برفانی تودے تیزی سے پگھل رہے ہیں جن کی وجہ سے سمندر کی سطح بلند ہو کر درجنوں ساحلی شہروں کو ڈبو سکتی ہے۔ ایسے میں صرف غریب ممالک ہی نہیں بلکہ ترقی یافتہ دنیا بھی شدید خطرے میں آ جائے گی۔ 1986ء میں انٹارکٹیکا کے ساحلی علاقے سے الگ ہونے والے دنیا کے سب سے بڑے برفانی تودے A-23Aجس کا رقبہ لگ بھگ 1500مربع میل سے بھی بڑا اور وزن ایک ہزار ارب ٹن تھا وہ سمندر کے گرم پانیوں میں پہنچ کر تحلیل ہونے کے قریب ہے۔
انسان کو اپنی بقا کے لیے اب اپنی بداعمالیوں کو چھوڑ کر دنیا کو بچانے کی فکر کرنا ہو گی۔ بڑے ممالک کو فوری طور پر کاربن کے اخراج کو کم کرنے کے لیے سخت اقدام کرنے ہوں گے۔ قابلِ تجدید توانائی میں سرمایہ کاری وقت کا تقاضا ہے۔ جنوبی ایشیا جیسے خطوں میں قدرتی آفات کا سامنا کرنے کے لیے مشترکہ انتباہی نظام اور ریلیف سسٹم تشکیل دینا ہو گا۔ غیر قانونی تعمیرات، دریاں کے کنارے بستیاں بسانا اور جنگلات کی کٹائی ان آفات کو بڑھا رہی ہیں۔ حکومت کو ان کی روک تھام کی لیے سخت فیصلے کرنے ہوں گے۔
2025 ء نے ہمیں ایک فیصلہ کن موڑ پر لا کھڑا کیا ہے۔ فیصلہ ہم نے کرنا ہے کہ زمین کے ساتھ ہم آہنگ ہو کر زندگی کے سفر کو آسان بنانا ہے یا پھر زمین کی بے رحم آفات کا شکار ہو کر فنا کے سفر پر روانہ ہونا ہے۔







