Column

امریکی کمپنی کا پاکستان کے ساتھ 50کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ

امریکی کمپنی کا پاکستان کے ساتھ
50کروڑ ڈالر سرمایہ کاری کا معاہدہ
موجودہ حکومت کے قیام کو ڈیڑھ سال کا عرصہ ہوا ہے اور اس کے دور میں ناصرف معیشت کی درست سمت کا تعین کیا گیا ہے، بلکہ بہت سے سنگین مسائل کے حل کی جانب پیش رفتوں کے حوصلہ افزا نتائج بھی برآمد ہوئے ہیں۔ اصلاحات پر مبنی اقدامات تمام شعبہ جات میں بہترین کی وجہ ثابت ہورہے ہیں۔ پاکستان پر دُنیا کا وقار و اعتبار بڑھ رہا ہے۔ حکومتی کوششوں سے ملک میں عظیم سرمایہ کاریوں کا سلسلہ جاری ہے۔ گزشتہ روز وزیراعظم شہباز شریف اور فیلڈ مارشل عاصم منیر سی امریکی کمپنیوں کے ایک اعلیٰ سطح کے وفد کی ملاقات کو پاکستانی معیشت کے تناظر میں ایک اہم موڑ کے طور پر دیکھا جارہا ہے۔ اس ملاقات میں امریکی وفد نے پاکستان میں کان کنی، انفرا اسٹرکچر، لاجسٹکس اور جدید پولی میٹلک ریفائنری کے قیام سمیت مختلف شعبہ جات میں ابتدائی طور پر 50کروڑ ڈالر کی سرمایہ کاری کے ارادے کا اظہار کیا۔ موجودہ حالات میں اس نوعیت کی غیر ملکی سرمایہ کاری کو محض سرمایہ کا بہائو نہیں بلکہ اعتماد کی بحالی کا مظہر سمجھا جارہا ہے۔ وزیراعظم ہائوس کے جاری کردہ اعلامیے کے مطابق اس سرمایہ کاری کے ذریعے پاکستان سے تانبہ، سونا اور دیگر قیمتی معدنیات کی برآمدات کو ممکن بنایا جائے گا۔ امریکی کمپنی ایک جدید پولی میٹلک ریفائنری کے قیام کا ارادہ رکھتی ہے جو ناصرف معدنیات کو مقامی سطح پر پراسیس کرے گی بلکہ پاکستان کو ویلیو ایڈیشن کی سمت بھی لے جائے گی۔ یہ امر صرف معیشت کے ایک حصے کی ترقی نہیں بلکہ روزگار، ٹیکنالوجی ٹرانسفر اور پائیدار ترقی کا بھی ضامن ہوگا۔ اس کے علاوہ ایف ڈبلیو او اور امریکی کمپنی کے درمیان کریٹیکل منرلز پر تاریخی معاہدہ طے پایا ہے جب کہ این ایل سی اور ایک اور امریکی کمپنی کے درمیان لاجسٹکس اور تعمیرات کے شعبوں میں تعاون کے لیے ایم او یو پر دستخط کیے گئے۔ اس ملاقات میں جہاں وزیراعظم، آرمی چیف اور امریکی وفد شریک تھا، وہیں نائب وزیراعظم اسحاق ڈار اور متعدد وفاقی وزراء کی موجودگی اس بات کا ثبوت تھی کہ ریاست کے تمام اہم ادارے اس سرمایہ کاری کے لیے یکساں طور پر متحرک اور سنجیدہ ہیں۔ خاص طور پر عسکری اداروں کا ایف ڈبلیو او اور این ایل سی کے ذریعے اس عمل میں عملی شراکت ظاہر کرتی ہے کہ اس سرمایہ کاری کو صرف معاشی ہی نہیں، بلکہ اسٹرٹیجک زاویے سے بھی اہمیت دی جارہی ہے۔ عالمی سطح پر ’’کریٹیکل منرلز’’ یعنی ایسی معدنیات جو صنعتی اور دفاعی پیداوار کے لیے ناگزیر ہیں، ان کی اہمیت میں غیر معمولی اضافہ ہوچکا ہے۔ پاکستان میں تانبے، سونے، لیتھیم اور دیگر قیمتی معدنیات کے ذخائر دنیا بھر کے سرمایہ کاروں کی توجہ کا مرکز ہیں۔ امریکی کمپنیوں کی اس شعبے میں دلچسپی کو دیگر علاقائی طاقتوں کے تناظر میں بھی دیکھا جا سکتا ہے، کیونکہ معدنیات کی عالمی جنگ میں پاکستان کا جغرافیائی اور ارضیاتی مقام اب مزید اہم ہوتا جارہا ہے۔ اگرچہ ابتدائی سرمایہ کاری 50کروڑ ڈالر تک محدود ہے، لیکن امریکی کمپنیوں نے طویل المدتی شراکت داری کی خواہش کا بھی اظہار کیا ہے۔ تاہم یہ دیکھنا باقی ہے کہ یہ سرمایہ کاری کس رفتار اور تسلسل سے آگے بڑھے گی اور کیا پاکستان کی بیوروکریسی، عدالتی نظام، ریگولیٹری فریم ورک اور بدعنوانی جیسے روایتی مسائل اس سرمایہ کاری کی راہ میں رکاوٹ بنیں گے یا نہیں۔ ہماری معیشت کو کئی دہائیوں سے ’’فلش ان دی پین’’ طرز کی سرمایہ کاری کا سامنا رہا ہے، یعنی مختصر وقتی سرمایہ کاری، جو چند منصوبوں تک محدود رہتی ہے اور پھر ختم ہو جاتی ہے۔ اس بار ضروری ہوگا کہ سرمایہ کاری کو طویل المدتی پالیسی، قانونی تحفظ اور شفافیت کے اصولوں پر استوار کیا جائے۔ معدنیات کے شعبے میں سرمایہ کاری سے جہاں اقتصادی فوائد حاصل ہوں گے، وہیں ماحولیات، مقامی آبادیوں کے حقوق اور زمین کے استعمال جیسے حساس معاملات بھی سامنے آئیں گے۔ امریکی کمپنیوں کو اگر پاکستان میں طویل المدتی بنیادوں پر کام کرنا ہے تو انہیں صرف معدنیات کی کان کنی نہیں بلکہ سماجی ذمے داری کے اصولوں کو بھی اپنانا ہوگا۔ مقامی برادریوں کو شامل کیے بغیر ترقی کے یہ منصوبے دیرپا نہیں ہوسکتے۔ موجودہ تناظر میں دیکھا جارہا ہے کہ پاکستانی افواج ملکی معیشت کے استحکام میں ایک اہم کردار ادا کررہی ہیں، خصوصاً سرمایہ کاری کے تحفظ، تیز تر فیصلے اور انتظامی رکاوٹوں کے خاتمے میں۔ آرمی چیف عاصم منیر کا امریکی وفد سے ملاقات میں شامل ہونا اس اعتماد کا مظہر ہے جو غیر ملکی سرمایہ کار اب براہ راست ریاستی اداروں پر کررہے ہیں۔ یہ سرمایہ کاری بلاشبہ پاکستان کے لیے ایک سنہری موقع ہے، لیکن اس کا مکمل فائدہ اٹھانے کے لیے محض خوش فہمی یا نعرہ بازی کافی نہیں۔ ریاست کو چاہیے کہ وہ شفاف پالیسی، مقامی اور غیر ملکی سرمایہ کاروں کے لیے یکساں مواقع اور عدالتی تحفظ فراہم کرے۔ بیوروکریسی کو جواب دہ بنانا ہوگا اور مقامی آبادی کو ترقیاتی منصوبوں میں حقیقی شراکت دار کے طور پر شامل کرنا ہوگا۔ یہ صرف سرمایہ کاری کا سوال نہیں، بلکہ یہ پاکستان کے مستقبل کی سمت کا تعین ہے۔ اگر ہم نے اس موقع کو درست انداز میں استعمال کیا تو نہ صرف غیر ملکی سرمایہ کاروں کا اعتماد بحال ہوگا، بلکہ پاکستان کو معاشی خودانحصاری اور استحکام کی منزل پر پہنچنے کا سفر مزید سہل ہوجائے گا۔ موجودہ حکومت کے دور میں ملک ترقی اور خوش حالی کی جانب بڑھ رہا ہے، یہ سرمایہ کاری اس سفر میں مزید ممد و معاون ثابت ہوگی۔
انسانی اسمگلنگ کی روک تھام ناگزیر
ایف آئی اے کمپوزٹ سرکل گوادر کی حالیہ چھاپہ مار کارروائیوں کے دوران 14افراد کی گرفتاری نے ایک بار پھر اس حقیقت کو اجاگر کردیا کہ پاکستان انسانی اسمگلنگ جیسے خطرناک اور سنگین جرم سے مکمل پاک نہیں ہوسکا۔ گرفتار شدگان میں نہ صرف مختلف شہروں سے تعلق رکھنے والے پاکستانی شامل ہیں، بلکہ ایک ایرانی شہری کی گرفتاری اس غیر قانونی نیٹ ورک کی بین الاقوامی نوعیت کو بھی ظاہر کرتی ہے۔ گرفتار افراد میں 3کا تعلق گوجرانوالہ، 3کا منڈی بہاء الدین، 4کا سانگھڑ اور 3کا تعلق شیخوپورہ سے ہے۔ ان میں سے 9افراد نے غیر قانونی طور پر سمندر کے راستے ایران جانے کی کوشش کی تھی، جہاں سے ان کا ارادہ دیگر ممالک میں غیر قانونی طریقے سے داخل ہونے کا تھا۔ جیوانی کے مقام پر ایف آئی اے کی بروقت کارروائی سے یہ کوشش ناکام بنادی گئی۔ اس کارروائی کے دوران نہ صرف پاکستان سے غیر قانونی طور پر باہر جانے کی کوشش کرنے والے افراد کو گرفتار کیا گیا، بلکہ ایسے افراد کو بھی حراست میں لیا گیا جو پی بی 250گبد لینڈ روٹ کے ذریعے غیر قانونی طور پر پاکستان داخل ہونے کی کوشش کر رہے تھے۔ ان میں ایک ایرانی شہری بھی شامل ہے، جو اس بات کی علامت ہے کہ پاکستان صرف روانگی کے لیے ہی استعمال نہیں ہورہا بلکہ منزل کے طور پر بھی اسمگلنگ نیٹ ورکس کی نظر میں ہے۔اکثر اوقات ایسے ملزمان غربت اور بے روزگاری سے تنگ ہوکر بہتر مستقبل کی تلاش میں غیر قانونی راستے اختیار کرتے ہیں۔ تاہم، یہ بھی حقیقت ہے کہ اس پورے عمل میں ایک منظم جرائم پیشہ مافیا سرگرم عمل ہوتا ہے جو انسانی جانوں سے کھیل کر اربوں روپے کماتا ہے۔ ان گرفتار افراد کی تفتیش کے دوران اگر ان نیٹ ورکس تک رسائی حاصل کی جائے تو انسانی اسمگلنگ کے خلاف بڑی پیش رفت ممکن ہوسکتی ہے۔ ایف آئی اے کی یہ کارروائی قابلِ تحسین ہیں، لیکن یہ محض ایک آغاز ہے۔ اس جرم کی جڑیں اتنی گہری ہیں کہ محض چند افراد کی گرفتاری سے مسئلہ حل نہیں ہوگا۔ ضروری ہے کہ انسانی اسمگلنگ کے خلاف ایک مربوط قومی حکمت عملی ترتیب دی جائے، جس میں سخت قوانین اور سزائیں نافذ کی جائیں، بارڈر مینجمنٹ کو جدید ٹیکنالوجی سے لیس کیا جائے، مقامی سطح پر عوامی آگاہی مہمات چلائی جائیں، بین الاقوامی سطح پر تعاون کو فروغ دیا جائے۔ انسانی اسمگلنگ ایک ایسا جرم ہے جس میں صرف قانونی خلاف ورزی نہیں بلکہ انسانی وقار، آزادی اور زندگی کو خطرے میں ڈالا جاتا ہے۔ ان افراد کو ناصرف سمندر میں ڈوبنے، بلکہ غیر ملکی جیلوں، جسمانی تشدد اور غلامی جیسی صورتحال کا سامنا کرنا پڑتا ہے۔ ایف آئی اے کی یہ کارروائی مثبت قدم ضرور ہے، لیکن جب تک پورے نظام میں اصلاحات، شفافیت اور جواب دہی نہیں آتی، یہ مسئلہ جڑ سے ختم نہیں ہو سکے گا۔ یہ وقت ہے کہ ریاست، ادارے اور عوام مل کر انسانی اسمگلنگ کے خلاف متحد ہوں، تاکہ ہر شہری کو اپنے ہی ملک میں باعزت زندگی گزارنے کے مواقع میسر آسکیں۔

جواب دیں

Back to top button