Column

گمراہ کن آوازیں اور پاکستان کی سلامتی

گمراہ کن آوازیں اور پاکستان کی سلامتی
طارق خان ترین
پاکستان ایک ایسا ملک ہے جس نے اپنے قیام سے لے کر آج تک بے شمار چیلنجز کا سامنا کیا ہے۔ دہشت گردی، انتہا پسندی، علیحدگی پسندی اور بیرونی سازشوں نے ریاست کو بارہا جھنجھوڑا ہے، مگر اس کے باوجود پاکستانی قوم اور ریاستی اداروں نے اپنی قربانیوں، استقامت اور عزم سے ان تمام خطرات کا مقابلہ کیا ہے۔ لیکن افسوس اس بات کا ہے کہ ان قربانیوں کے بیچ کچھ ایسی آوازیں بھی ابھرتی ہیں جو قوم کو متحد کرنے کے بجائے تقسیم کی راہ پر ڈال دیتی ہیں۔ ان میں وہ عناصر نمایاں ہیں جو خود کو عوامی نمائندہ یا مذہبی رہنما کے طور پر پیش کرتے ہیں مگر درپردہ دشمن کے بیانیے کو تقویت پہنچاتے ہیں۔
حال ہی میں مفتی کفایت اللہ کی جانب سے دیا گیا بیان اس کی ایک تازہ مثال ہے۔ انہوں نے جنوبی وزیرستان میں اپنے خطاب کے دوران شریعت کے نفاذ کا مطالبہ کیا نہ صرف بلکہ دہشت گردوں کو ’’ شہید‘‘ بھی قرار دیا جو پاکستانی افواج اور سیکیورٹی اداروں کے خلاف مسلح کارروائیوں میں مارے گئے تھے۔ یہ الفاظ نہ صرف شہدا کے خاندانوں کے زخموں پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہیں بلکہ دہشت گردی کے خلاف جنگ میں قوم کی مشترکہ قربانیوں کی توہین بھی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ ایک ایسا شخص جو مذہب کی آڑ لے کر عوام کو متاثر کرنے کی کوشش کرتا ہے، کس طرح ان عناصر کی وکالت کر سکتا ہے جو نہتے عوام، سیکیورٹی اہلکاروں اور ریاستی ڈھانچے پر حملے کرتے رہے ہیں؟
یہ بات بھی کسی سے ڈھکی چھپی نہیں کہ پی ٹی ایم اور پی این جے جیسے پلیٹ فارمز نے گزشتہ چند برسوں میں ریاست مخالف بیانیے کو عام کرنے میں اہم کردار ادا کیا ہے۔ ان کے جلسوں اور بیانات میں بارہا دیکھا گیا کہ دہشت گردوں کو ہمدردی کی نظر سے پیش کیا گیا، ان کی کارروائیوں کو کسی نہ کسی جواز کے ساتھ درست ثابت کرنے کی کوشش کی گئی اور ریاستی اداروں کو بدنام کیا گیا۔ یہ طرزِ عمل اس حقیقت کا آئینہ دار ہے کہ یہ گروہ براہِ راست یا بالواسطہ ان قوتوں کے ہاتھوں استعمال ہو رہے ہیں جو پاکستان کو غیر مستحکم دیکھنا چاہتے ہیں۔
پاکستانی عوام نے گزشتہ دو دہائیوں میں دہشت گردی کی جس تباہ کاری کا سامنا کیا ہے، وہ ایک المیہ ہے جسے کوئی ذی شعور فراموش نہیں کر سکتا۔ ہزاروں معصوم جانوں کا ضیاع، تعلیمی اداروں پر حملے، مساجد اور بازاروں میں خود کش دھماکے، اور سب سے بڑھ کر فوجی افسران اور جوانوں کی عظیم قربانیاں، یہ سب کچھ اس حقیقت کو واضح کرتی ہیں کہ دہشت گرد کسی صورت ’’ ہیرو‘‘ یا ’’ شہید‘‘ نہیں ہو سکتے۔ لیکن جب کچھ عناصر ان کو شہید قرار دیتے ہیں یا ان کے لیے نرم گوشہ پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہیں تو وہ نہ صرف آئین اور قانون کی خلاف ورزی کرتے ہیں بلکہ ان دشمنوں کے ہاتھ مضبوط کرتے ہیں جو پاکستان کی وجود کو ختم کرنے کے درپے ہیں۔
یہ بھی قابلِ غور ہے کہ ریاست نے ہمیشہ پرامن اختلافِ رائے کو برداشت کیا ہے۔ سیاسی جماعتوں اور سماجی تحریکوں کو اپنی رائے پیش کرنے کا حق دیا گیا ہے۔ لیکن جب اختلاف رائے ریاست دشمنی میں بدل جائے، جب زبان و بیان دہشت گردوں کے ترجمان بن جائیں، اور جب سوشل میڈیا کو پروپیگنڈے کا آلہ کار بنایا جائے، تو پھر یہ قومی سلامتی کا مسئلہ بن جاتا ہے۔ یہی وہ خطرناک حد ہے جسے پی ٹی ایم اور ان جیسے گروہوں نے بارہا عبور کیا ہے۔پاکستان کی سلامتی، بقا اور استحکام اس بات کے متقاضی ہیں کہ قوم دہشت گردوں اور ان کے سہولت کاروں کو واضح طور پر مسترد کرے۔ جو لوگ مذہب، قومیت یا انسانی حقوق کے نام پر دہشت گردی کو جواز فراہم کرتے ہیں، وہ دراصل عوام کے جذبات سے کھیل رہے ہیں۔ ان کا مقصد نہ عوام کی خدمت ہے نہ ان کے مسائل کا حل، بلکہ یہ صرف اور صرف دشمن کے بیانیی کو تقویت دینے کی ایک منظم کوشش ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے کہ ریاست ایسے عناصر پر کڑی نظر رکھے اور قانون کے مطابق ان کے خلاف کارروائی کرے۔ یہ بھی ناگزیر ہے کہ عوام کو مسلسل یہ آگاہی دی جائے کہ دہشت گردوں کو ’’ شہید‘‘ قرار دینا یا ان کی کارروائیوں کے لیے ہمدردی پیدا کرنا صرف ایک جرم نہیں بلکہ شہداء کے خون سے غداری ہے۔ پاکستانی معاشرہ اس قدر مضبوط ہو چکا ہے کہ اب وہ کسی کو بھی اپنے اتحاد کو کمزور کرنے یا اپنی قربانیوں کو مشکوک بنانے کی اجازت نہیں دے سکتا۔
آخر میں یہی کہنا بجا ہوگا کہ پاکستان کی اصل طاقت اس کی عوام اور اس کے شہدا کا خون ہے۔ جو بھی اس طاقت کو تقسیم کرنے یا اس پر سوال اٹھانے کی کوشش کرے گا، وہ تاریخ کے کٹہرے میں مجرم ٹھہرے گا۔ مفتی کفایت اللہ، پی ٹی ایم، پی این جے اور ان جیسے تمام کرداروں کو یہ حقیقت ذہن نشین کر لینی چاہیے کہ پاکستان کی بنیادیں ان قربانیوں پر استوار ہیں جنہیں کوئی پروپیگنڈہ کمزور نہیں کر سکتا۔ قوم ان قربانیوں کو کبھی فراموش نہیں کرے گی اور نہ ہی ان کو بدنام کرنے والوں کو معاف کرے گی۔

جواب دیں

Back to top button