پنجاب اسمبلی کا قابل فخر کارنامہ

پنجاب اسمبلی کا قابل فخر کارنامہ
میری بات
روہیل اکبر
دنیا میں جب بھی انسانیت بھٹکی ہے، ظلم و جبر نے سر اٹھایا ہے یا اخلاقی اقدار زوال پذیر ہوئے تو ایسے وقت میں اللہ تعالیٰ نے اپنے انبیائٌ کے ذریعے روشنی دکھائی۔ اس روشنی کا کامل اور ابدی نمونہ حضور اکرمؐ کی ذات ہے، جنہیں ربِ کائنات نے ’’ رحمت اللعالمینؐ‘‘ کے لقب سے نوازا۔ آج بھی دنیا کی نجات سیرت النبیؐ ہی میں پوشیدہ ہے، اسی اہمیت کو اجاگر کرنے کے لیے پنجاب اسمبلی میں 1500سالہ ولادت مصطفیٰؐ کے تاریخی موقع کا جس طرح خیر مقدم کیا ہے وہ انتہائی قابل ستائش ہے۔ کاش رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی کو بھی پورے طریقے سے فعال کر دیا جاتا، اگر ہم حضورؐ کی سیرت طیبہ سے واقف ہوتے تو ہم سے اچھا اور خوبصورت معاشرہ دنیا میں نہ ہوتا، لیکن بدقسمتی سے ایسا نہ ہوسکا۔ یہی وجہ ہے کہ ہم اخلاقیات سے عاری قوم بن گئے۔ سیالکوٹ واقعہ، مریم آباد میں آگ گردی اور قصور میں 30روپے کے چکر میں 2سگے بھائیوں کے قتل سمیت ہماری تاریخ ہماری جاہلیت سے بھری پڑی ہے۔ جب تک ہم اپنے نبیؐ کے نقش قدم پر نہیں چلیں گے تب تک ہم اچھے انسان بھی نہیں بن سکتے۔
رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی کے بارے میں کچھ لکھنے سے پہلے رانا ارشد جو پنجاب اسمبلی میں چیف وہپ ہیں، کی خوبصورت قرار داد کا ذکر ضروری ہے، جو انہوں نے پیش کی کہ صوبائی اسمبلی کا ایوان 1500سالہ ولادت مصطفیٰؐ کے تاریخی موقع کا خیر مقدم کرتا ہے، ایوان حضور اکرمؐ کی حیات طیبہ کو امن، محبت، عدل اور اخلاق کی کامل مثال تسلیم کرتا ہے، ایوان کا اعتراف، جشن 1500سالہ ولادت مصطفی ٰؐ کی عالمی تیاریوں پر دعوت اسلامی کو خراج تحسین پیش کرتا ہے، دعوت اسلامی کے تحت عالمی اجتماعات، سیرت کانفرنسز اور اصلاحی مہمات کو لائق تحسین قرار دیا گیا، ایوان کا مطالبہ ہے کہ پنجاب بھر میں سیرت النبیؐ کانفرنسز اور درود و سلام کی محافل سرکاری سرپرستی میں ہوں، طلبہ کے مابین تقریری مقابلے اور سیرت پر مبنی کتب نمائشیں صوبائی سطح پر منعقد کی جائیں۔ سکول، کالجز اور جامعات میں خصوصی سیرت سیمینارز اور تعلیمی پروگرامز منعقد کیے جائیں، جشن ولادت مصطفیٰؐ کے موقع پر ’’ رحمت ا للعالمینؐ ڈے‘‘ سرکاری سطح پر منایا جائے، ذرائع ابلاغ کے ذریعے سیرت نبویؐ کے پیغام کو موثر انداز میں عام کرنے کی ضرورت پر زور، ایوان کا عزم ہے کہ نئی نسل کو سیرت طیبہؐ سے جوڑنے اور تعلیمات محمدیؐ کو عام کرے، یہ ایوان معاشرے میں عشق رسولؐ کے تحت دین کی روشنی پھیلانے والی کوششوں کو سراہتا ہے۔ اس موقع پر صوبائی وزیر مجتبیٰ شجاع الرحمان نے کہا کہ وزیر اعلیٰ پنجاب مریم نواز نے عید میلاد النبیؐ کو شان و شوکت سے منانے کے لئے حکومت نے اقدامات کئے ہیں، اس مرتبہ عید میلادالنبیؐ منانے کے لئے ایک پورا عشرہ رکھا گیا، سکولوں میں محفل میلاد اور سیرت کانفرنس کا انعقاد ہو گا، ہر ڈسٹرکٹ لیول پر سیرت کانفرنس منعقد ہوں گی، سیرت کانفرنس میں ہم اپنے بچوں کو اپنے نبیؐ کی زندگی کے بارے میں بتائیں گے، پورے مہینے میں لنگر اور سبیلوں کا انتظام پروگراموں پر حکومت پنجاب کرے گی،12ربیع الاول والے دن بھی لنگر اور سبیلوں اور صفائی کا خاص انتظام کیا جائے گا، تمام سرکاری عمارتوں کو چراغاں کیا جائے گا، جس کے بعد ایوان نے قرارداد متفقہ طور پر منظور کر لی۔
میں سمجھتا ہوں کہ پنجاب اسمبلی کا یہ تاریخی کام تاریخ میں سنہری حروف سے لکھا جائیگا کاش یہ ایوان رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی کے بارے میں بھی ایک قرار داد منظور کر لے کہ اس اتھارٹی کا سبق بچے سے لیکر بزرگ تک سب کو ازبر کرایا جائے، تاکہ ہم اپنی عادتوں سے بھی مسلمان لگیں کولر کے ساتھ بندھے گلاس کو آزاد چھوڑ دیا جائے اور ہم بھی حقیقی آزاد کو دیکھ سکیں۔ اسی ضرورت کو محسوس کرتے ہوئے پاکستان میں رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی قائم کی گئی۔
رحمت اللعالمین اتھارٹی کے قیام کا بنیادی مقصد یہ تھا کہ نوجوان نسل کو سیرت النبیؐ کی روشنی میں زندگی گزارنے کا ڈھنگ سکھایا جائے۔ جدید دور کے فتنوں اور مغربی تہذیب کے منفی اثرات کا سامنا تبھی ممکن ہے جب ہم اپنے بچوں کو قرآن و سنت اور سیرتِ طیبہؐ کی بنیادوں پر استوار کریں۔ رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی نہ صرف تعلیمی اداروں کے نصاب میں اصلاحات کے ذریعے اخلاقی تربیت پر زور دیتی ہے بلکہ اسلامو فوبیا جیسی عالمی سازشوں کا علمی اور تحقیقی جواب دینے کا عزم رکھتی ہے۔ دنیا بھر میں امن، محبت، رواداری اور بھائی چارے کا پیغام عام کرنا بھی اسی کے اہم مقاصد میں شامل ہے، یہ اتھارٹی کتب و مقالات کی اشاعت، تحقیقی کام اور میڈیا کے ذریعے نوجوانوں کو مثبت فکر کی طرف راغب کرنے کی جدوجہد کر رہی ہے، تاکہ معاشرے میں برداشت، رواداری اور اخوت کو فروغ دیا جا سکے۔ اگر ہم اس ادارے کو محض ایک حکومتی منصوبہ سمجھنے کے بجائے ایک فکری اور روحانی تحریک بنا لیں تو یقیناً پاکستان میں اخلاقی انقلاب برپا ہوسکتا ہے۔
درحقیقت رحمت اللعالمینؐ اتھارٹی کا مقصد ہی یہ ہے کہ حضور اکرمؐ کی تعلیمات کو عملی زندگی کا حصہ بنایا جائے ویسے بھی اس وقت پاکستان کی 66%آبادی اس وقت 30سال سے کم عمر کی ہے اور تقریباً 5%آبادی 65سال سے زیادہ ہے ملک کی موجودہ سیاسی صورتحال کو دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ آنے والے دور میں ملک کا سیاسی مستقبل ہمارے نوجوانوں کے ہاتھ میں ہوگا، اس لیے ہمارے نوجوانوں کو سیرت نبیؐ کا سکھانا اشد ضروری ہے۔





