Column

موبائل سِم ڈیٹا لیک۔ قومی سلامتی کا نیا بحران

موبائل سِم ڈیٹا لیک۔ قومی سلامتی کا نیا بحران
تحریر: رفیع صحرائی
پاکستان ایک ایسے سائبر بحران سے دوچار ہے جس نے عوام اور ریاستی اداروں دونوں کو ہلا کر رکھ دیا ہے۔ رپورٹس کے مطابق 18کروڑ سے زائد پاکستانی شہریوں کا موبائل سِم ڈیٹا لیک ہو کر آن لائن فروخت کیا جا رہا ہے۔ لیک ہونے والے ڈیٹا میں موبائل لوکیشن، کال لاگز، قومی شناختی کارڈ کی کاپیاں اور بین الاقوامی سفری تاریخیں شامل ہیں۔ حیران کن امر یہ ہے کہ موبائل لوکیشن محض 500روپے، کال لاگز 2000روپے اور غیر ملکی سفر کی تفصیلات صرف 5000روپے میں دستیاب ہیں۔ یہ صورتحال قومی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرہ ہے۔ یہ خبر نہ صرف عوامی حلقوں میں تشویش کی لہر دوڑا گئی ہے بلکہ ریاستی اداروں کے لیے بھی ایک بڑا سوالیہ نشان ہے کہ قومی سطح کی اتنی حساس معلومات آخر کس طرح بیرونی یا اندرونی ہاتھوں میں پہنچ گئیں؟ اس سے پہلے بھی جولائی 2025ء میں قریباً 327558پاکستانی شہریوں کا نجی ڈیٹا ہیکرز کے فورم پر فروخت کے لیے دستیاب ہوا تھا جس میں نام، شناختی کارڈ نمبر، موبائل فون نمبر اور پتا شامل تھا۔
وزیرِ داخلہ محسن نقوی نے فوری نوٹس لیتے ہوئے نیشنل سائبر کرائم انویسٹی گیشن ایجنسی (NCCIA)کو 14ارکان پر مشتمل ایک خصوصی ٹیم بنانے کا حکم دے دیا ہے جو دو ہفتوں میں پوری تحقیق کر کے رپورٹ پیش کرے گی۔ لیکن یہ سوال اپنی جگہ موجود ہے کہ کیا تحقیقاتی کمیٹیاں تشکیل دینا کافی ہے یا اب وقت آ گیا ہے کہ مستقل اور سخت فیصلے کیے جائیں؟۔ اہم حکومتی افسران اور شہریوں کا موبائل سِم ڈیٹا لیک ہونا محض ایک سائبر واقعہ نہیں ہے بلکہ یہ قومی سلامتی کے لیے براہِ راست خطرے کی گھنٹی ہے۔ ڈیجیٹل دور میں معلومات کسی بھی ریاست کا سب سے بڑا اثاثہ سمجھی جاتی ہیں۔ اگر یہ اثاثہ غیر محفوظ ہاتھوں میں چلا جائے تو اس کے اثرات نہ صرف ریاستی پالیسی پر پڑتے ہیں بلکہ معیشت، معاشرت اور عوامی اعتماد پر بھی گہرے زخم لگتے ہیں۔
یہ مسئلہ صرف پاکستان تک محدود نہیں ہے۔ اگر ہم عالمی سطح پر دیکھیں تو 2017ء میں امریکہ میں ایکوئیفیکس (Equifax) نامی کریڈٹ ایجنسی کا ڈیٹا لیک ہوا تھا۔ تب قریباً 15کروڑ امریکی شہریوں کی مالی معلومات چوری ہوئیں۔ 2018ء میں فیس بک اور کیمبرج اینالیٹیکا اسکینڈل سے پوری دنیا کو پتا چل گیا کہ ذاتی معلومات کس طرح سیاسی انجنیئرنگ کے لیے استعمال ہو سکتی ہیں۔ پڑوسی ملک بھارت میں بھی آدھار سسٹم کے تحت لاکھوں شہریوں کا ڈیٹا فروخت ہونے کی خبریں منظرِ عام پر آئیں۔ ان مثالوں سے ظاہر ہوتا ہے کہ ڈیٹا لیک ہونا ایک عالمی چیلنج ہے۔ ہاں یہ ضرور ہوا ہے کہ مضبوط ادارے اور سخت قوانین رکھنے والے ممالک نے اس سے سبق سیکھ کر اپنے نظام کو بہتر بنایا۔
اگر پاکستان کی بات کی جائے تو ہمارے ہاں ڈیٹا پروٹیکشن بل محض ایک کاغذی کارروائی تک محدود ہے۔ ایک بااختیار اور خودمختار ڈیٹا پروٹیکشن اتھارٹی ابھی تک حقیقت کا روپ نہیں دھار سکی۔ ہمارے ہاں ٹیلی کام کمپنیاں صارفین کا ڈیٹا محفوظ رکھنے کے لیے عالمی معیار کے مطابق ٹیکنالوجی استعمال نہیں کر رہیں۔ اس کا نتیجہ یہ ہے کہ نہ صرف اعلیٰ حکومتی شخصیات بلکہ عام شہری بھی ہیکرز کے رحم و کرم پر ہیں۔ پاکستان میں موبائل بینکنگ اور آن لائن شاپنگ کا رجحان تیزی سے بڑھ رہا ہے۔ ایسے میں اگر کسی کا فون نمبر اور شناختی معلومات لیک ہو جائیں تو وہ بہت آسانی کے ساتھ مالی فراڈ، بلیک میلنگ اور شناختی چوری (Identity theft)کا شکار ہو سکتا ہے۔ یہ سلسلہ آگے چل کر پورے معاشرے کو عدم تحفظ کا شکار کر سکتا ہے۔
بدقسمتی سے پاکستان میں سائبر سیکورٹی کو ہمیشہ ہی نظرانداز کیا گیا ہے۔ ہمارے زیادہ تر اداروں میں ڈیجیٹل تحفظ کا جدید نظام موجود نہیں جبکہ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک نے اسے دفاعی لائن کی پہلی دیوار سمجھ کر اربوں روپے اس پر خرچ کر دئیے ہیں۔ سوال یہ ہے کہ جب ہمارے ایٹمی اثاثے، دفاعی راز اور اعلیٰ حکومتی اہل کاروں کی گفتگو تک خطرے میں آ جائے تو کیا ہم اب بھی خاموش بیٹھے رہیں گے؟
سائبر سیکیورٹی کے حوالے سے ہماری غیرسنجیدگی کا یہ عالم ہے کہ ابھی تک Personal Data Protection Bill 2023 پارلیمنٹ سے منظور ہو کر قانون کا درجہ حاصل نہیں کر سکا ہے۔ اس بل میں تجویز کیا گیا ہے کہ ایک نیشنل کمیشن فار پرسنل ڈیٹا پروٹیکشن (NCPDP)قائم کیا جائے جو ڈیٹا کے تحفظ کی نگرانی کرے۔ اس وقت پاکستان میں پیکا ایکٹ 2016ء ڈیجیٹل جرائم کا قانونی ڈھانچہ ہے لیکن اس میں جامعیت نہیں ہے۔
حکومت کے لیے ضروری ہو گیا ہے کہ موبائل صارفین کے ڈیٹا کے تحفظ کے لیے ضروری اقدامات اور قانون سازی کرے۔ پروٹیکشن بل 2023کو فوراً منظور کر کے ایک مضبوط اور خودمختار ادارے کا قیام عمل میں لایا جائے۔ ٹیلی کام کمپنیوں کو عالمی معیار کی اینڈ ٹو اینڈ انکرپشن اور جدید فائر وال سسٹم کے استعمال پر مجبور کیا جائے نیز شہریوں کو ذاتی معلومات کے تحفظ کے طریقے سکھانے کا اہتمام بھی کیا جائے۔

جواب دیں

Back to top button