ColumnImtiaz Aasi

کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟

کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں؟
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
دوسری جنگ عظیم میں چرچل نے پوچھا تھا کیا عدالتیں انصاف کر رہی ہیں، اگر کر رہی ہیں تو ہم جنگ جیت جائیں گئے۔ دنیا کی تاریخ اس امر کی گواہ ہے جن اقوام میں انصاف ناپید ہو وہ قومیں صفحہ ہستی سے مٹ جایا کرتی ہیں۔ پریکٹس اینڈ پروسیجر رولز کی منظوری کے بعد عدلیہ ایک طرح سے حکومت کا حصہ بن گئی ہے۔ یہ الفاظ کسی عام شہری کے نہیں ہیں سپریم کورٹ کے ایک سنیئر ترین جج جناب منصور علی شاہ کے چیف جسٹس کے نام خط میں تحریر کئے گئے ہیں۔ جب عدالتیں انصاف نہ کر رہی ہوں تو عوام میں مایوسی پھیل جاتی ہے اور عدالتوں پر لوگوں کا اعتماد اٹھ جاتا ہے۔ اس وقت ملک کے عوام ڈپریس ہیں انہیں عدلیہ سے کسی قسم کے انصاف کی توقع نہیں رہی ہے۔ میں ٹک ٹاک پر پی ٹی آئی کے سنیئر رہنما عمر ایوب کی بات چیت سن رہا تھا ان کا کہنا تھا انہوں نے فیصل آباد کی عدالت کے جج صاحب پر عدم اعتماد ظاہر کیا تھا انہیں اس بات پر تعجب تھا ان کے خلاف سرکاری گواہان جو راولپنڈی کی عدالت میں تھے وہی فیصل آباد کی عدالت میں شہادت دینے آئے تھے جس کے بعد کسی کو عدلیہ سے انصاف کی کیا امید رہ جاتی ہے۔ ایک عدلیہ ہی ہوتی ہے جس سے عوام کو انصاف ملتا ہے اور ان کے گوناگوں مسائل کا تصفیہ کرتی ہے۔ عجیب تماشا ہے ہماری ستر سالہ زندگی میں کبھی ایسا موڑ نہیں آیا جس میں عوام اس حد تک مایوسی کا شکار ہو ں جس طرح آج کل لوگ پریشان حال دکھائی دیتے ہیں۔ دراصل سیاست دانوں نے عدلیہ کو ٹک شاپ سمجھ رکھا ہے جہاں انہیں انصاف خریدنے میں کسی قسم کی مشکل کا سامنا نہیں ہوگا۔ ہم اسلام آباد ہائی کورٹ کے ان پانچ ججوں کو سلام پیش کرتے ہیں جو انصاف کے برعکس کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کرکے عدلیہ کی تاریخ میں نام روشن کر گئے ہیں۔ کاش ذوالفقار علی بھٹو کو پھانسی کی سزا دینے والے مولوی مشتاق بھی کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیتے تو عدلیہ کی تاریخ میں ہمیشہ زندہ رہ سکتے تھے لیکن مولوی مشتاق صاحب نے چیف جسٹس کا منصب حاصل کرنے کے لئے ضمیر کا سودا کر لیا۔ ملک کی دو سیاسی جماعتوں نے ملک کو یرغمال بنا رکھا ہے وہ مبینہ ملی بھگت کرکے اقتدار حاصل کرنے میں کامیاب ہو جاتے ہیں لیکن عوام کی نظروں میں مقام حاصل نہیں کر سکتے ۔عدلیہ اگر آزاد ہوتی ایک سیاسی جماعت کے اتنی بڑی تعداد میں لوگ جیلوں میں نہ ہوتے اور نہ انہیں چشم دید گواہان کی عدم موجودگی میں سزائیں ہوتیں۔ آج اگر ملک میں عدلیہ آزاد نہیں ہے تو اس کا الزام کسی ادارے پر نہیں لگایا جا سکتا بلکہ اس کے ذمہ دار وہ سیاست دان ہیں جنہوں نے اقتدار کے حصول کے لئے اپنے ضمیر کا سودا کیا۔
اس ناچیز نے ایوب خان، یحییٰ خان، ضیاء الحق اور پرویز مشرف کے مارشل لاء کو قریب سے دیکھا مگر عدلیہ جو اس وقت دبائو کا شکار ہے ملکی تاریخ میں اس کی مثال نہیں ملتی۔ جنرل ضیاء الحق کے دور میں ہمیں لاہور ہائی کورٹ کے ایک جج ملک اختر حسن کی عدالت میں مقدمہ کی سماعت سننے کا اتفاق ہوا تو جج صاحب کہہ رہے تھے انہیں پرواز کرنے کے لئے تو کہا گیا ہے مگر پر کاٹ دیئے گئے ہیں تاہم اس کے باوجود جج صاحب نے فیصلہ میرٹ پر کرکے متاثرہ فریق کو انصاف فراہم کیا۔ موجودہ دور میں عدالتوں کے حکم پر پراسیکوشن مقدمہ کا ریکارڈ پیش کرنے میں لیت و لعل سے کام لیتے ہیں حالانکہ جب عدالت کسی مقدمہ کا ریکارڈ طلب کرے تو کیا مجال تفتیشی ریکارڈ پیش نہ کرے۔ لاہور کی عدالت میں عمران خان کی ہمشیرہ کے بیٹے کی ضمانت کا کیس لگا تو میں اخبار میں پڑھ رہا تھا تفتیشی صاحب ریکارڈ پیش کرنے میں تاخیر سے کام لے رہے تھے، لیکن جج صاحب نے حکم دیا وہ کیس کو اس وقت تک التواء میں رکھتے ہیں جب تک مقدمہ کا ریکارڈ پیش نہیں کیا جاتا۔ ہم کیسے ملک میں رہ رہے ہیں جہاں کی سیاسی جماعتیں اپنے خلاف مقدمات ختم کرنے کے لئے قوانین بدل دیتی ہیں لیکن انہیں پوچھنے والا کوئی نہیں۔ جو سیاسی جماعتیں ایک دوسرے کے خلاف مقدمات بناتی رہی آج وہی شیر و شکر ہو گئی ہیں۔ کیا ایسی سیاسی جماعتیں ملک کے عوام کے مسائل حل کرنے کا ملکہ رکھتی ہیں؟ ہمیں سوشل میڈیا سے بھی شکایت ہے بعض سیاسی جماعتوں کے لوگ جھوٹی خبریں پھیلانے میں سبقت لینے کی کوشش کرتے ہیں حالانکہ ایک مسلمان کے لئے جھوٹ بولنے کی سخت ممانعت ہے اس کے باوجود ہم جھوٹ بولنے سے گریز نہیں کرتے۔ میڈیا کی آزادی کا مطلب یہ نہیں انسان شتر بے مہار ہو جائے اور جو جی میں آئے کہتا پھرے۔ پاکستان کے عوام کو کسی ادارے سے کوئی گلہ نہیں انہیں شکوہ ہے تو ان سیاسی جماعتوں سے ہے جو بار بار اقتدار میں آتی ہیں اور لوٹ مار کرکے اگلی باری کا انتظار کرتی ہیں۔ اس موقع پر ہمیں جنرل ایوب خان کی یاد آتی ہے جب انہوں نے اپنے خلاف نعروں کی گونج سنی تو اقتدار سے علیحدگی اختیار کرکے گوشہ نشینی کی زندگی گزارنے لگے۔ اس کے برعکس سیاست دانوں کو دیکھیں تو نظریں شرم سے جھک جاتی ہیں۔ عوام کی طرف سے اپنے خلاف ردعمل دیکھنے کے باوجود اقتدار سے چمٹے رہتے ہیں۔ جو سیاسی جماعت عوام کو چینی سستے داموں فراہم کرنے میں ناکام ہو ایسی جماعت سے عوام کو کسی اچھے کی توقع کرنی چاہیے؟ بالکل نہیں ہماری سیاسی جماعتوں کا اقتدار میں آنے کا واحد مقصد ماسوائے لوٹ مار کے کوئی دوسرا کام نہیں ہوتا۔ سیاست دانوں نے عوام کو بیوقوف بنانے کے لئے وہ اپنے عہدوں کی تنخواہ نہیں لیتے۔ جن سیاست دانوں کے خلاف منی لانڈرنگ کے مقدمات ہوں کیا ایسے سیاست دان راست باز ہو سکتے ہیں کبھی نہیں؟ اپنے اقتدار کو طوالت دینے کے لئے قوانین میں من مانی ترامیم کرنا سیاست دانوں کو شیوہ ہے ورنہ وہ راست باز ہوتے انہیں نیب قوانین میں ترامیم کی چنداں ضرورت نہیں تھی۔ اندرون اور بیرون ملک بڑی بڑی جائیدادیں بنانے والے سیاست دان ہی ملک پر قابض ہیں، اس لئے کسی اور ادارے سے شکوہ نہیں ہونا چاہیے۔ آج اگر عدلیہ کو مفلوج کر دیا گیا ہے، اس کے ذمہ دار سیاست دان ہیں نہ کہ کوئی اور ہے۔

جواب دیں

Back to top button