ColumnQadir Khan

پنجاب میں سیلاب کے معاشی اثرات

پنجاب میں سیلاب کے معاشی اثرات
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
پنجاب میں سیلاب محض بارشوں کا نتیجہ نہیں بلکہ انسانی ناکامیوں، ماحولیاتی تبدیلیوں اور سرحدی تنازعات کا مجموعہ ہے، جو پاکستان کی زرعی ریڑھ کی ہڈی کو بری طرح مجروح کر رہا ہے۔ پنجاب، جو پاکستان کا دل کہلاتا ہے، ایک ایسے سیلابی طوفان کی زد میں ہے جو گزشتہ چار دہائیوں میں دیکھا ہی نہیں گیا۔ تصور کریں کہ تین بڑے دریا، ستلج، چناب اور راوی ایک ساتھ اپنی شدید ترین طغیانی کی سطح پر پہنچ جائیں، اور یہ تاریخ میں پہلی بار ہو رہا ہو۔ یہ کوئی افسانوی منظر نہیں بلکہ ایک تلخ حقیقت ہے جس نے صوبے بھر میں تباہی پھیلا دی۔ اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 39 سے 40لاکھ افراد اس آفت سے متاثر ہوئے ہیں، جن میں سے تقریباً 18سے 19لاکھ کو اپنے گھروں سے نکال کر محفوظ جگہوں پر منتقل کیا گیا۔ یہ نقل مکانی کی داستان صرف اعداد کی نہیں بلکہ ان لاکھوں خاندانوں کی ہے جو راتوں رات بے گھر ہو گئے، اپنی جائیدادیں، مویشی اور مستقبل کی امیدوں کو پانی کی نذر کر بیٹھے۔ 3900سے زائد دیہات مکمل طور پر زیر آب آ چکے ہیں، اور 13لاکھ 40ہزار مویشیوں کی منتقلی نے زرعی معیشت کی بنیادوں کو ہلا کر رکھ دیا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے وقت میں ہو رہا ہے جب پاکستان پہلے ہی معاشی بحرانوں سے جوجھ رہا ہے، اور یہ سیلاب اس زخم پر نمک چھڑکنے کے مترادف ہے۔
جب ہم انسانی اور سماجی اثرات کی طرف دیکھتے ہیں تو تصویر اور بھی دلخراش ہو جاتی ہے۔ پنجاب میں اب تک 223 سے زائد افراد اس آفت کی بھینٹ چڑھ چکے ہیں، اور قومی سطح پر 26 جون سے اب تک مون سون بارشوں نے 881 سے 905 جانیں لی ہیں اور1044 سے زائدافراد زخمی ہوچکے ہیں۔ تقریباً 20 لاکھ افراد کو گھروں سے نکلنا پڑا، جن میں سے زیادہ تر میزبان برادریوں کے پاس پناہ لیے ہوئے ہیں جبکہ صرف 10 ہزار سے کم حکومتی ریلیف کیمپس میں مقیم ہیں۔ صوبائی ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹی نے اسے پنجاب کی تاریخ کی سب سے بڑی امدادی کارروائی قرار دیا ہے، لیکن کیا یہ کافی ہے؟ یہ سوال ہر اس شخص کے ذہن میں گونجتا ہے جو اس بحران کو قریب سے دیکھ رہا ہے۔ انفراسٹرکچر کا نقصان بھی کم نہیں۔ تعلیمی ادارے، صحت کی سہولیات اور ٹرانسپورٹ نیٹ ورکس 23 اضلاع میں بری طرح متاثر ہوئے، جس نے لاکھوں لوگوں کی روزمرہ زندگی کو مفلوج کر دیا۔ یہ سب کچھ ایک ایسے سماج میں ہو رہا ہے جہاں پہلے ہی غربت اور عدم مساوات کی خلیج گہری ہے، اور یہ سیلاب اس خلیج کو مزید وسیع کر رہا ہے۔ تقریباً ایک ملین لوگ، جن میں بچے بھی شامل ہیں، گھروں سے نکالے گئے ہیں، اور یہ نقل مکانی دیہی علاقوں کی معیشت کو مزید کمزور کر رہی ہے جہاں لوگ پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبے ہوئے ہیں۔
زرعی تباہی اس بحران کا سب سے دل دہلا دینے والا پہلو ہے، کیونکہ پاکستان کی معیشت کا 24 فیصد حصہ زراعت پر منحصر ہے اور 37.4 فیصد ورک فورس اسی شعبے سے وابستہ ہے۔ پنجاب کے وسطی علاقوں میں 13 لاکھ ایکڑ زرعی زمین زیر آب آ گئی، جس نے دھان، مکئی، کپاس، گنا اور سبزیوں کی کھڑی فصلیں مکمل طور پر تباہ کر دیں۔ اعداد دیکھیں تو 60 فیصد دھان کی فصل ختم ہو گئی، کپاس کی پیداوار میں 35 فیصد کمی آئی، گنے کی فصل کا 30 فیصد ضائع ہوا، اور قومی سطح پر 30 فیصد گندم کا ذخیرہ برباد ہو گیا۔ یہ نقصانات اربوں روپے کے ہیں، اور پاکستان بزنس فورم اسے تشویش ناک قرار دے رہا ہے کیونکہ پنجاب ملک کی سالانہ غذائی اجناس کی پیداوار کا 68 فیصد فراہم کرتا ہے۔ چاول کی پیداوار، جو اس سال بمپر کراپ کی امید تھی، بری طرح متاثر ہوئی۔نرخ فی 40کلو 5000سے 5500روپے تک پہنچ گئے، جو بھارت کی برآمدات کے مقابلے میں پاکستانی چاول کو غیر مسابقتی بنا رہے ہیں۔
کپاس کا نقصان ٹیکسٹائل انڈسٹری کے لیے دھچکا ہے، جو ملک کی آدھی سے زیادہ برآمدات پر مشتمل ہے۔ یہ سب کچھ ایک زنجیر کی طرح جڑا ہوا ہے۔زرعی بربادی غذائی بحران کو جنم دے رہی ہے، جہاں گندم کے نرخ بڑے شہروں میں فی 100کلو 9000روپے تک پہنچ گئے، اور اگر فوری درآمد نہ کی گئی تو یہ 15000روپے تک جا سکتے ہیں۔ کراچی جیسی جگہوں میں سبزیوں کے نرخ 30 سے 40 فیصد بڑھ گئے کیونکہ شہر کی 70 سے 80 فیصد سپلائی پنجاب سے آتی ہے۔ یہ بحران محض کسانوں کا نہیں بلکہ پورے ملک کی غذائی تحفظ کا ہے، اور کسان جو پہلے ہی قرضوں اور موسمی عدم استحکام سے لڑ رہے تھے، اب ‘قدرت کے ساتھ جوا کھیلنے’ کی طرح محسوس کر رہے ہیں جہاں ہر فصل ایک خطرہ بن جاتی ہے۔
معاشی اثرات اس سیلاب کی لہر سے کہیں آگے جا رہے ہیں۔ یہ آفت ایک ایسے وقت میں آئی جب پاکستان کی معیشت نازک توازن پر کھڑی تھی۔اگست میں مہنگائی 3 فیصد تک گر گئی تھی، لیکن فصلوں کی تباہی اسے دوبارہ اوپر لے جائے گی۔ خوراک کی مہنگائی، جو 2023ء میں 50 فیصد سے زیادہ پہنچی تھی، اب پھر سے سر اٹھا رہی ہے۔ طویل مدتی اثرات زنجیری ہیں: گندم اور دیگر اجناس کی درآمدی بل میں اضافہ، چاول اور ٹیکسٹائل کی برآمدات میں کمی، سپلائی چین کی رکاوٹیں، اور دیہی غربت کا پھیلا۔ کسان اپنی آمدنی سے محروم ہو گئے، اور یہ غربت شہری علاقوں تک پہنچے گی۔ گندم کی کاشت میں تاخیر، چاول کی برآمدات کی کمی اور کپاس کی درآمد کی ضرورت زرمبادلہ کے ذخائر پر دبائو ڈالے گی۔
یہ سب کچھ ایک ایسے ملک میں ہو رہا ہے جو پہلے ہی قرضوں کے بوجھ تلے دبا ہے، اور یہ سیلاب اس بوجھ کو مزید بھاری بنا رہا ہے۔ ماہرین کا اندازہ ہے کہ زرعی نقصانات اربوں ڈالر تک پہنچ سکتے ہیں، جو نہ صرف کسانوں کی جیبوں کو خالی کریں گے بلکہ پورے ٹیکسٹائل سیکٹر کو متاثر کریں گے جہاں لاکھوں ملازمین کی نوکریاں خطرے میں ہیں۔ مزید برآں، یہ تباہی سپلائی چین کو توڑ رہی ہے، جہاں سبزیوں اور اناج کی قلت شہروں میں مہنگائی کی آگ بھڑکا رہی ہے، اور اگر فوری حکمت عملی اختیار نہ کی گئی تو یہ بحران 2026ء تک گندم کی بوائی کو متاثر کر کے غذائی عدم تحفظ کو مزید گہرا کر دے گا۔ پاکستان کی زرعی معیشت کو بچانے کے لیے ماحولیاتی پالیسیاں، آبی معاہدوں کی بحالی اور دیہی ترقی پر توجہ ضروری ہے، ورنہ یہ سیلاب صرف ایک باب نہیں بلکہ ایک تسلسل بن جائے گا جو ملک کو مزید کمزور کرتا جائے گا۔

جواب دیں

Back to top button