سیلاب سے صورت حال مزید سنگین

اداریہ۔۔۔
سیلاب سے صورت حال مزید سنگین
امسال برصغیر میں شدید بارشیں ہوئی ہیں، وطن عزیز میں پچھلے دو ڈھائی ماہ سے شدید بارشیں جاری ہیں۔ بارشوں، سیلاب، لینڈ سلائیڈنگ اور کلائوڈ برسٹ کے نتیجے میں 900سے زائد اہل وطن جاں بحق ہوچکے ہیں۔ بھارت بھی شدید بارشوں کی لپیٹ میں رہا ہے، وہاں بھی سیلاب کی صورت حال ہے، وہ ماضی کی طرح اس بار بھی اپنی مصیبت متواتر پاکستان کے سر منڈھ رہا ہے۔ مسلسل آبی جارحیت کا مظاہرہ کررہا ہے، جس کے باعث پاکستان کی مشکلات بڑھ رہی ہیں۔ پاکستان کے جنوبی پنجاب، بالخصوص ملتان کی تحصیل جلال پور پیر والا اور سندھ کے مختلف اضلاع میں اس وقت شدید سیلابی صورت حال نے ایک انسانی المیے کی شکل اختیار کر لی ہے۔ دریائے چناب، دریائے ستلج اور دریائے راوی میں اونچے درجے کے سیلاب کے باعث ہزاروں دیہات زیرِ آب آچکے، لاکھوں افراد بے گھر ہوچکے اور فصلیں، مویشی، سرکاری و نجی املاک سبھی کو ناقابلِ تلافی نقصان پہنچا ہے۔ اس موقع پر ریاستی اداروں، خصوصاً پاک فوج، ریسکیو 1122اور ڈیزاسٹر مینجمنٹ اتھارٹیز کی جانب سے کی جانے والی کاوشیں قابلِ تعریف ہیں۔ پاکستان ایک زرعی ملک ہے جس کی معیشت کا بڑا دارومدار دریائوں اور بارشوں پر ہے مگر افسوس کی بات یہ ہے کہ یہی دریائوں کا پانی جب سیلاب کی صورت میں آتا ہے تو وہ فصلوں کو سیراب کرنے کے بجائے انہیں تباہ کردیتا ہے۔ اس سال بھی کچھ مختلف نہیں ہوا۔ دریائے چناب، ستلج، راوی اور سندھ میں پانی کی خطرناک حد تک بڑھتی ہوئی سطح نے لاکھوں لوگوں کو متاثر کیا ہے۔ صرف پنجاب میں 4100دیہات متاثر ہوئے ہیں اور 41لاکھ سے زائد افراد براہِ راست اس بحران کی زد میں آچکے ہیں۔ اموات کی تعداد 56تک جا پہنچی ہے۔ ہم نے نہ تو اپنے انفرا اسٹرکچر کو بہتر بنایا، نہ حفاظتی بندوں کی مرمت کی، نہ ہی بروقت وارننگ سسٹمز فعال کیے۔ کئی علاقوں میں بند ٹوٹنے سے پانی رہائشی بستیوں میں داخل ہوا، جیسے کہ کہروڑ پکا، شیر شاہ اور جلال پور پیر والا۔ کیا یہ بند وقت پر مضبوط کیے جاسکتے تھے؟ بالکل۔ کیا سیلابی پانی کے راستے پہلے سے طے شدہ ہونے چاہیے تھے؟ جی ہاں۔ ایسے مواقع پر جب تمام شہری ادارے ناکام ہو چکے ہوتے ہیں، پاک فوج ہمیشہ کی طرح میدان میں آتی ہے۔ جلال پور پیر والا میں پاک فوج کی 14کشتیاں، ریسکیو 1122 کی 8، اور پولیس کی 5پرائیویٹ کشتیاں مل کر مجموعی طور پر27کشتیوں کے ذریعے متاثرین کو محفوظ مقامات پر منتقل کرنے کا کام کر رہی ہیں۔ جھنگ، راجن پور، رحیم یار خان اور سندھ کے کئی علاقوں میں بھی فوج کے جوان زمینی اور فضائی ذرائع سے امداد پہنچارہے ہیں۔ یہ امر قابلِ ستائش ہے کہ جھنگ کے دوردراز علاقوں میں ہیلی کاپٹرز کے ذریعے 2.8ٹن راشن تقسیم کیا گیا۔ طبی کیمپ قائم کیے گئے اور سیکڑوں افراد کو کشتیوں کے ذریعے بچایا گیا۔ سندھ میں بھی شینک بند، سجاول اور ٹھٹھہ جیسے علاقوں میں نیوی کے میڈیکل کیمپس فعال کردیے گئے ہیں۔ ایک اور تشویشناک پہلو بھارت کی جانب سے دریائے ستلج میں بغیر پیشگی وارننگ کے پانی چھوڑنے کا عمل ہے، جس کے باعث ہریکے اور فیروز پور کے مقامات پر اونچے درجے کے سیلاب کا خطرہ پیدا ہوگیا ہے۔ اگرچہ بھارتی ہائی کمیشن نے پاکستان کو آگاہ کیا، مگر یہ آگاہی بھی تب آئی جب پانی چھوڑا جا چکا تھا۔ پاکستان کی وزارتِ آبی وسائل نے بروقت الرٹ جاری کیا اور متعلقہ اداروں کو متحرک کیا مگر یہ مسئلہ ایک دیرینہ سفارتی تنازع کی صورت اختیار کر چکا ہے۔ یہاں یہ بات ضروری ہے کہ پاکستان، اقوامِ متحدہ اور بین الاقوامی واٹر قوانین کے تحت بھارت کے ساتھ اس معاملے کو سفارتی سطح پر سنجیدگی سے اٹھائے، تاکہ مستقبل میں پیشگی اطلاعات کے بغیر پانی کا اخراج نہ ہو۔ سیلاب سے متاثرہ افراد کی حالت زار انتہائی افسوس ناک ہے۔ لوگوں کو اپنی مدد آپ کے تحت نقل مکانی کرنی پڑ رہی ہے، بچے، بوڑھے، خواتین سبھی کھلے آسمان تلے آگئے ہیں۔ بارشوں کے باعث امدادی کاموں میں بھی رکاوٹ آرہی ہے۔ کھانے پینے، طبی امداد، پینے کے صاف پانی اور رہائش جیسی بنیادی ضروریات کی شدید قلت ہے۔ یہاں ایک بہت بڑا سوالیہ نشان کھڑا ہوتا ہے کہ اگر قدرتی آفات ہر سال آتی ہیں، تو ان سے نمٹنے کے لیے مستقل بنیادوں پر انفرا اسٹرکچر، ویئر ہائوسز اور کمیونٹی لیول پر تیاریاں کیوں نہیں کی جاتیں؟ پاکستان جیسے ترقی پذیر ملک کے لیے سیلاب ایک ناگزیر چیلنج بن چکا ہے، مگر اس سے بچائو کے لیے چند اقدامات ناگزیر ہیں۔ ہر سال مون سون سے پہلے تمام حفاظتی بندوں کی جامع جانچ، مرمت اور ازسرنو تعمیر یقینی بنائی جائے۔ جدید ٹیکنالوجی پر مبنی وارننگ سسٹم نصب کیے جائیں جو لوگوں کو بروقت خطرات سے آگاہ کریں۔ مقامی آبادیوں کو سیلاب سے نمٹنے کی تربیت، ابتدائی طبی امداد اور بچائو کے اقدامات سے آگاہ کیا جائے۔ بھارت کے ساتھ آبی معاہدات پر نظرِثانی اور عالمی سطح پر ان کی خلاف ورزی کو اٹھایا جائے۔ سیلاب سے متاثرہ افراد کے نقصان کی تلافی کے لیے شفاف اور فوری قانونی نظام وضع کیا جائے۔ یہ آزمائش کا وقت ہے مگر سبق بھی اس میں پنہاں ہے، سیلاب نہ صرف ایک قدرتی آفت ہے بلکہ یہ ریاستی مشینری کی کارکردگی، تیاری اور ہمدردی کی بھی آزمائش ہے۔ موجودہ صورت حال نے واضح کر دیا ہے کہ ہمیں نہ صرف ہنگامی اقدامات کی ضرورت ہے بلکہ ایک جامع اور دیرپا منصوبہ بندی کی بھی اشد ضرورت ہے۔ اگر اب بھی ہم نے ہوش کے ناخن نہ لیے تو ہر سال یہ تباہی مزید بڑھتی جائے گی اور ہم صرف امداد، ریسکیو اور فوٹو سیشن میں مصروف رہ جائیں گے۔ وقت آگیا ہے کہ قدرتی آفات کو صرف ’’ آزمائش’’ سمجھنے کے بجائے، ان سے سیکھا جائے اور عوام کی جان و مال کے تحفظ کو اولین قومی ترجیح بنایا جائے۔
شذرہ۔۔۔۔
سہ ملکی سیریز میں پاکستان کی شاندار فتح
شارجہ میں کھیلی گئی سہ ملکی ٹی ٹوئنٹی سیریز کا فائنل پاکستانی کرکٹ ٹیم کے لیے نہ صرف ایک بڑی کامیابی بلکہ ایک یادگار لمحہ بھی بن گیا۔ محمد نواز کی تباہ کن بولنگ اور ہیٹ ٹرک نے نہ صرف افغانستان کو 75رنز سے شکست دی بلکہ دنیا کو ایک بار پھر یہ پیغام دیا کہ پاکستان کے پاس ایسا ٹیلنٹ موجود ہے جو کسی بھی بڑے مقابلے کا پانسہ پلٹ سکتا ہے۔ یہ میچ بظاہر ایک عام ٹی ٹوئنٹی فائنل تھا، مگر محمد نواز کی بالنگ کا جادو، ٹیم کی اجتماعی کارکردگی اور بعد از فتح جذباتی اظہاریوں نی اسے ایک قومی یادگار میں تبدیل کردیا۔ ٹاس جیت کر بیٹنگ کا فیصلہ بہ ظاہر درست لگا، مگر پاکستان کے بیٹر بڑی اننگز کھیلنے میں ناکام رہے۔ فخر زمان (27)، محمد نواز (25)، سلمان آغا (24) جیسے کھلاڑیوں نے کچھ مزاحمت کی، لیکن کوئی بھی بلے باز کریز پر ٹھہر کر اننگز کو طویل نہ کرسکا۔ 141 رنز کا ہدف ٹی ٹوئنٹی معیار کے مطابق قابل دفاع ضرور تھا، لیکن فتح کی کنجی بولرز کے ہاتھ میں تھی۔ محمد نواز نے فائنل میچ کو خالص پاکستانی انداز میں ختم کیا۔ ان کی ہیٹ ٹرک، جو دو اوورز میں مکمل ہوئی، فائنل کا وہ لمحہ تھا جہاں سے میچ یک طرفہ ہوگیا۔ انہوں نے 4اوورز میں 5وکٹیں لیتے ہوئے صرف 19رنز دئیے، یہ کارکردگی نہ صرف ان کے کیریئر کی یادگار جھلک ہے بلکہ پاکستان کرکٹ کے لیے امید کی کرن بھی ہے۔ چھٹے اوور کی پانچویں اور چھٹی گیند پر وکٹیں حاصل کیں، پھر آٹھویں اوور کی پہلی گیند پر تیسری وکٹ لے کر ہیٹ ٹرک مکمل کی۔ ایسی ترتیب میں ہیٹ ٹرک دیکھنا کم ہی نصیب ہوتا ہے۔ سفیان مقیم، محمد ابرار اور شاہین آفریدی کی معاونت نے بولنگ اٹیک کو مکمل کیا۔ افغانستان کی ٹیم صرف 66رنز پر ڈھیر ہوگئی۔ ان کے کپتان راشد خان ہی صرف17رنز کے ساتھ مزاحمت کر سکے۔ فائنل کے بعد کپتان سلمان علی آغا کا بیان ہر پاکستانی کے دل کو چھو گیا، جب انہوں نے فتح سیلاب متاثرین کے نام کی۔ اس سے بھی بڑھ کر، انہوں نے اور شاہین شاہ آفریدی نے اپنی ساری میچ فیس فلڈ ریلیف فنڈ میں دینے کا اعلان کیا، جو ایک انسانی ہمدردی اور قومی یکجہتی کی شاندار مثال ہے۔ یہ فتح صرف ایک ٹورنامنٹ کی جیت نہیں، بلکہ قومی کرکٹ کے مورال کی بحالی اور سوشل ریسپانسبلٹی کی خوبصورت مثال ہے۔ سہ ملکی سیریز کی یہ فتح اس پیغام کے ساتھ ختم ہوئی، جب ٹیم ایک جذبے کے ساتھ کھیلتی ہے، تو جیت صرف میدان میں نہیں بلکہ دلوں میں بھی حاصل ہوتی ہے۔ اس کامیابی کے بعد پاکستان ٹیم ایشیا کپ کے مقابلوں میں پورے اعتماد کے ساتھ میدان میں اُترے گی۔







