گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے

از : راؤ بلال
لاہور ، پاکستان
پاکستان تحریک انصاف کا سب سے بڑا المیہ یہی ہے کہ یہ جماعت اپنے ہی ہاتھوں اپنے آپ کو کھوکھلا کر رہی ہے۔ یہ وہ سیاسی تحریک تھی جس نے لاکھوں نوجوانوں کو امید دلائی، سیاست کو ایک نئی توانائی دی، اور عوام کو یہ خواب دکھایا کہ اب ملک میں روایتی سیاست نہیں بلکہ ایک نئی شروعات ہوگی۔ لیکن آج کی حقیقت یہ ہے کہ یہ تحریک دوسروں کے وار سے نہیں بلکہ اپنی ہی صفوں سے زخم کھا رہی ہے۔ وہ چراغ جو روشنی دینے کے لیے تھے، وہی آگ بن کر اپنے ہی گھر کو جلا رہے ہیں۔
کل تک یہ جماعت اپنے سوشل میڈیا کی طاقت پر فخر کرتی تھی۔ اپنے مخالفین کو نیچا دکھانا، ان پر غداری کے فتوے لگانا اور ہر مختلف رائے رکھنے والے پر نفرت کی یلغار کرنا پی ٹی آئی کے کارکنوں اور انکے یوٹیوبرز کے لیے ایک کھیل کی طرح تھا۔ مگر آج وہی کھیل الٹا پڑ گیا۔ آج تحریک انصاف کے اپنے رہنما اس سوشل میڈیا کے نشانے پر ہیں۔ شاہ محمود قریشی ہوں یا علی امین گنڈاپور، زرتاج گل ہوں یا بیرسٹر گوہر، کوئی رہنما اس طوفانِ گالی سے محفوظ نہیں رہا۔ وہ عدالتیں جنہیں کل عمران خان حق اور انصاف کی علامت کہتے تھے، اگر آج کسی رہنما کو بری کریں تب بھی وہ مشکوک ہے اور اگر سزا دیں تب بھی وہ غدار ہے۔ یعنی ایک فرد کے سوا سب کٹہرے میں ہیں، باقی سب کے بارے میں سوالیہ نشان ہی سوالیہ نشان ہیں۔
یہ وہ سیاسی شعور ہے جسے عمران خان نے اپنے ووٹرز کے ذہنوں میں بٹھایا۔ ایک ایسا شعور جو حقیقت میں سیاسی نابالغی سے زیادہ کچھ نہیں۔ عمران خان کے بیانیے نے اختلافِ رائے کو اس قدر برا بنا دیا ہے کہ اب پارٹی کے اندر کوئی بھی رہنما اپنی رائے نہیں دے سکتا۔ اگر کوئی رہنما عمران خان کے مؤقف کو دہرا دے تو وہ وفادار ہے، اگر تھوڑا سا اختلاف کرے تو فوراً غدار۔ یہی وجہ ہے کہ پارٹی کے اندر خوف کا ماحول ہے، ہر شخص ڈرا ہوا ہے کہ کہیں کل وہی کارکن جو آج نعرے لگا رہے ہیں، کل اس پر گالیوں اور طعنوں کی بارش نہ کر دیں۔
تحریک انصاف کے سوشل میڈیا نے پاکستان کی سیاسی زبان کو سب سے زیادہ نقصان پہنچایا۔ ٹرولنگ، گالم گلوچ، الزام تراشی اور جھوٹ کو طاقت سمجھا گیا۔ یہ سوچ عمران خان کے قریب رہنے والوں میں بھی سرایت کر گئی۔ مگر آج وہی لوگ اپنی ہی تلواروں کی زد میں ہیں۔ جو کل دوسروں کو غدار کہنے پر خوش تھے، آج اپنے خلاف یہی الزام برداشت نہیں کر پا رہے۔ یہ سچ ہے کہ نفرت کی سیاست ہمیشہ آخرکار اپنے ہی دائرے کو کاٹتی ہے۔
پارٹی کا حال یہ ہے کہ کسی رہنما کی قربانی اور وفاداری بھی بے وقعت ہو گئی ہے۔ شاہ محمود قریشی نے دو سال جیل کاٹی، مگر پھر بھی ان کی نیت پر شک کیا جا رہا ہے۔ علی امین گنڈاپور، جس نے پارٹی کے لیے سیاسی محاذ پر سخت موقف اپنایا، وہ بھی آج مشکوک ہے۔ چیئرمین پی ٹی آئی بیرسٹر گوہر، جنہیں خود عمران خان نے آگے کیا، وہ بھی سوشل میڈیا کی یلغار سے محفوظ نہیں۔ گویا ایک ہی فرد کو مرکزِ کائنات بنا دیا گیا ہے اور باقی سب دوسروں کی نظر میں محض مہرے ہیں۔
یہ ہے تحریک انصاف کی اصل تباہی۔ ایک ایسی جماعت جو جمہوری شعور دینے کا دعویٰ کرتی تھی، آج اپنی جماعت کے اندر بھی جمہوریت ختم کر چکی ہے۔ اختلاف رائے کا حق نہیں، قربانی کی قدر نہیں، حتیٰ کہ برسوں کے ساتھی بھی بے حیثیت ہو گئے ہیں۔ سچ یہی ہے کہ تحریک انصاف اپنے لیڈر کے ہاتھوں نہیں بلکہ اپنے کارکنوں اور سوشل میڈیا کے کلچر کے ہاتھوں برباد ہو رہی ہے۔
جو کل تک یہ سمجھتے تھے کہ وہ سیاسی شعور پھیلا رہے ہیں، دراصل وہ نفرت اور تعصب پھیلا رہے تھے۔ آج جب یہی نفرت ان کے اپنے دامن کو آگ لگا رہی ہے تو انہیں احساس ہو رہا ہے کہ غلطی کہاں ہوئی تھی۔ لیکن شاید اب بہت دیر ہو چکی ہے۔ گھر کے چراغ ہی جب آگ لگا دیں تو پھر باہر سے کسی دشمن کی ضرورت نہیں رہتی۔
تحریک انصاف کا سب سے بڑا امتحان یہی ہے کہ کیا یہ جماعت اپنی سیاست کو شخصی پرستی سے نکال کر اجتماعی شعور کی طرف لا سکتی ہے یا نہیں۔ اگر یہ جماعت اب بھی عمران خان کی ذات کو ہی کائنات سمجھتی رہی، اگر یہ جماعت اب بھی اپنے رہنماؤں کو غدار اور مشکوک قرار دیتی رہی، تو پھر اس کا انجام صرف اور صرف زوال ہے۔ سیاست میں مکالمہ، برداشت اور احترام بنیادی ستون ہیں، اور پی ٹی آئی نے ان ستونوں کو خود اپنے ہاتھوں سے توڑ دیا ہے۔
آج یہ جماعت ایک ایسے دہانے پر کھڑی ہے جہاں باہر کے حملوں کی ضرورت نہیں۔ اندر کی آگ ہی سب کچھ بھسم کرنے کے لیے کافی ہے۔ تحریک انصاف کی سیاست کا اصل المیہ یہی ہے کہ اس نے اپنے ہی لوگوں کو دشمن بنا لیا ہے۔ اور یہی ہے وہ لمحہ جسے محاورے میں کہا گیا "گھر کو آگ لگ گئی گھر کے چراغ سے۔”
میری ادنا سی تمہید کا مقصد پاکستان تحریک انصاف کی برائی کرنا نہیں بلکہ اس جماعت کی سیاسی اپبرننگ پر سوال اٹھانا ہے میں نے جب سے ہوش سنبھالا ہے سیاست دانوں کو سیاسی نعرے اور بیان بازی کرتے تو دیکھا ہے لیکن کبھی کسی ایک جماعت کے سربراہ و کارکنان کو اپنی تو دور کی بات کسی دوسری جماعت کی خواتین پر ایسے کیچڑ اچھالتے نہیں دیکھا۔ سیاست میں گالی کا کلچر متعارف کرانے میں جتنا بڑا ہاتھ بانی پی ٹی آئی کا ہے کسی اور کا نہیں۔ انکا یہ بیانیہ کی مفاہمت نہیں مزاحمت کا مطلب خود بانی نے اور انکی جماعت نے بڑا غلط لیا ہے۔ مزاحمت کا مطلب پہلے سیاسی مخالفین کی پگڑی اچھالنا تھا لیکن یہ سب انکی اپنی جماعت میں ہورہا ہے اور جہاں تک معاملات پہنچ گئے ہیں یہاں سے واپسی مشکل ضرور لیکن نا ممکن نہیں ہے۔ میرا مشورہ یہ ہوگا کہ عوام اور اس ملک خداداد کو شعور کی نئی بلندیوں پر پہنچانے سے پہلے خود اپنے آپ اور اپنی جماعت کو شعور کی پہلی سیڑھی چڑھا لیں۔







