Column

ٹیلی اسکوپ

ٹیلی اسکوپ
علیشبا بگٹی
پلس پوائنٹ
انسانی تہذیب کی بنیاد ہمیشہ سے تجسس، مشاہدے اور کائنات فہمی پر رہی ہے۔ ابتدا سے لے کر آج تک انسان نے اپنی محدود نگاہوں سے آسمان کے اسرار کو سمجھنے کی کوشش کی، لیکن اس سعیِ ناتمام کو حقیقی معنوں میں سمت تب ملی جب دوربین یعنی ٹیلی اسکوپ کی ایجاد ہوئی۔ ٹیلی اسکوپ محض ایک سائنسی آلہ نہیں، بلکہ انسانی فکر و تدبر کی آنکھ ہے۔ جس نے مادّی کائنات کے پردوں کو چاک کر کے ایسے مناظر دکھائے جو ماضی میں محض دیومالائی قصے سمجھے جاتے تھے۔ ٹیلی اسکوپ نے کائنات کو قریب لا کر انسانی علم میں بے پناہ اضافہ کیا۔ ٹیلی اسکوپ کی تاریخ دراصل انسانی علم کے ارتقاء کی داستان ہے۔ ابتدائی دور کی چھوٹی دوربین سے لے کر جدید ترین اسپیس ٹیلی اسکوپس تک، ہر ایجاد ہمیں اس حقیقت سے روشناس کراتی ہے کہ کائنات محض ایک مشاہداتی میدان نہیں بلکہ ایک ایسا لامتناہی معمّہ ہے جسے انسانی عقل ہر لمحہ نئی جہتوں میں دیکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ کچھ مفکرین کے نزدیک، ٹیلی اسکوپس نے نہ صرف سائنسی دریافتیں ممکن بنائیں بلکہ مذہب، فلسفہ، اور انسان کی کائنات میں حیثیت کے تصورات کو بھی متاثر کیا۔ انسانی مرکزیت کے سوال نے ہمیں یہ سکھایا کہ کائنات میں ہماری حیثیت مرکزی نہیں، بلکہ محض ایک ذرے کے برابر ہے۔ اور یہ احساس ہمیں عاجزی سکھانے کے ساتھ ساتھ، دریافت کی جستجو میں بھی متحرک رکھتا ہے۔ ٹیلی اسکوپس نے انسان کو کائنات کی گہرائیوں تک جھانکنے کا موقع دیا ہے۔ آج ہم نہ صرف کہکشائوں کی ساخت کو سمجھ رہے ہیں بلکہ دوسرے سیاروں پر زندگی کی موجودگی کے امکانات کا تجزیہ بھی کر رہے ہیں۔ یہ سفر ابھی ختم نہیں ہوا۔ بگ بینگ کے دھماکے سے لے کر کائناتی پھیلا، تاریک مادہ (Dark Matter)اور تاریک توانائی (Dark Energy)تک، وہ سب کچھ جو ہماری سمجھ سے باہر ہے، اُسے سمجھنے کا آغاز ٹیلی اسکوپ سے ہی ہوتا ہے۔ اور جب تک ہماری نگاہیں آسمان کی وسعتوں میں حیرت سے بھٹکتی رہیں گی، ٹیلی اسکوپ انسان کے سب سے معتبر رفیق کی حیثیت سے قائم رہے گی۔
اگر ٹیلی سکوپ کی ایجاد اور اس میں جدت کا جائزہ لیں تو پتہ چلتا ہے کہ ماضی سے آج تک یہ کیسے جدید سے جدید ہوتا گیا۔
25 ستمبر 1608ء کو ہالینڈ کے ایک عینک ساز ہانس لیپرشی (Hans Lippershey)نے پہلی بار ٹیلی اسکوپ کے ڈیزائن کا پیٹنٹ جمع کروایا۔ لیکن اس کا استعمال عام طور پر زمینی مشاہدے کے لیے تھا۔
1609 ء میں گیلیلیو گیلیلی نے پہلی فلکیاتی ٹیلی اسکوپ بنا کر اس سائنسی تحریک کا آغاز کیا جسے بعد ازاں سائنس کا نشاۃ ثانیہ کہا گیا۔ یہ ایک سادہ سا آلہ تھا، جس کا آبجیکٹو لینز محض دو انچ سے بھی کم قطر کا تھا، مگر اس کی مدد سے گیلیلیو نے چند ایسی دریافتیں کیں جنہوں نے صدیوں پرانے ارض مرکزیت (Geocentric)کے نظریے کو رد کر کے شمسی مرکزیت (Heliocentric)کی ماڈل کو سائنسی بنیادوں پر ثابت کیا۔ گیلیلیو کے ہاتھوں اس زمانہ جاہلیت میں مشتری (Jupiter)کے چار بڑے چاند (Io, Europa, Ganymede, Callisto)، زہرہ (Venus)کے مراحل (phases)، اور چاند کی سطح پر پہاڑوں اور گڑھوں کی موجودگی، ان کا سورج کے گرد گردش کرنا، کہکشاں کا ستاروں سے بھرا ہونا، جیسی دریافتوں نے اس وقت کے فلسفیانہ اور مذہبی تصورات کو چیلنج کیا اور علم فلکیات کو ایک سائنسی علم کی حیثیت عطا کی۔ گیلیلیو نے اس دور میں دوربین ( ٹیلی اسکوپ) کو پہلی بار فلکیاتی مشاہدات کے لیے استعمال کیا۔ اس کا مطلب ہے کہ وہ پہلا شخص تھا، جس نے ٹیلی اسکوپ کو آسمانی اجسام ( چاند، سیارے، ستارے وغیرہ) کا مشاہدہ کرنے کے لیے استعمال کیا۔
13مارچ 1781ء کو سر ولیم ہرشل نے اپنے بنائے گئے طاقتور ٹیلی اسکوپ کی مدد سے سیارہ یورینس دریافت کیا۔
اٹھارویں اور انیسویں صدی میں جیسے جیسے عدسہ سازی اور آئینہ سازی کی صنعت نے ترقی کی، ویسے ویسے ٹیلی اسکوپس کی طاقت اور دائرہ مشاہدہ میں اضافہ ہوا۔
20 اکتوبر 1845ء کو ’’ لیویاتھان آف پارسنز‘‘ کے نام سے دنیا کا سب سے بڑا ریفلیکٹنگ ٹیلی اسکوپ مکمل ہوا، جس نے دور دراز کہکشائوں کا مشاہدہ ممکن بنایا۔
1917 ء میں مائونٹ ولسن آبزرویٹری میں نصب کی جانے والی 100انچ کی ٹیلی اسکوپ نے علم فلکیات میں ایک اور باب رقم کیا۔ اسی ٹیلی اسکوپ کے ذریعے ایڈون ہبل نے یہ مشاہدہ کیا کہ کہکشائیں ہم سے مسلسل دور جا رہی ہیں، جس سے کائناتی پھیلائو (expansion of the universe)کا نظریہ وجود میں آیا۔ یہی دریافت بعد ازاں بگ بینگ تھیوری کی بنیاد بنی، جو آج بھی کائنات کی ابتدا کو سمجھنے کا سب سے معتبر نظریہ ہے
2 جون1974ء کو ایریسیبو ریڈیو ٹیلی اسکوپ نے زمین سے پہلا ریڈیو پیغام خلا میں بھیجا۔ اس سے انسان نے کائناتی رابطے کی ایک نئی راہ ہموار کی۔
زمین کی فضا مشاہدے میں بگاڑ پیدا کرتی ہے، لہٰذا سائنسدانوں نے ٹیلی اسکوپس کو خلا میں بھیجنے کا فیصلہ کیا۔
24 اپریل 1990ء کو ناسا نے ہبل اسپیس ٹیلی اسکوپ خلا میں بھیجا گیا، جس نے زمین کے ماحول سے باہر جا کر کائنات کی بے مثال تصویریں فراہم کیں۔ اس نے خلا میں ساکن ہو کر وہ تصاویر فراہم کیں جو زمینی سطح سے ممکن نہ تھیں۔ ہبل ٹیلی اسکوپ کا ڈیزائن اسے انتہائی موثر بناتا ہے۔ یہ ٹیلی سکوپ ایک بہت ہی طاقتور 2.4میٹر کا آئینہ استعمال کرتا ہے، جو کہ روشنی جمع کرنے میں مدد دیتا ہے۔ اس کے ساتھ ہی، ہبل میں مختلف سائنسی آلات موجود ہیں، جو مختلف اعلیٰ نوعیت کی تصاویر کو حاصل کرنے کے قابل بناتے ہیں۔ یہ ٹیلی سکوپ ایک خاص قسم کی تصویری تشکیلات کے لیے ڈیزائن کیا گیا ہے، جو بہترین بصری معلومات فراہم کرتی ہیں اور اس کی تفصیلات کو اجاگر کرتی ہیں۔ ہبل ٹیلی اسکوپ نے اپنی کرنسی میں کئی اہم سائنسی کام کیے ہیں۔ اس ٹیکنالوجی کے ذریعے کائنات کی سرحدوں کی کھوج کی گئی، اور یہ معلوم ہوا کہ مختلف کہکشائوں کے درمیان فاصلوں کی حقیقت کیا ہے۔ اس ٹیلی اسکوپ نے نہ صرف اپنی تخلیق کے بعد چند اہم دریافتیں کیں، بلکہ اس نے دیگر کئی سائنسی مشاہدات کو بھی ممکن بنایا۔ نتیجتاً، ہبل نے انسانی سمجھ بوجھ میں بھرپور اضافہ کیا ہے، جس کو آج بھی سائنسی حلقوں میں بڑی اہمیت دی جاتی ہے۔ ہبل ٹیلی اسکوپ کی 35سال کی تخلیقی تاریخ نے بہت سی اہم سائنسی دریافتوں کو جنم دیا ہے۔ یہ فضا میں بہت سی حیرت انگیز یعنی کہکشائوں، ستاروں، اور کائنات کی وسیع تر خصوصیات کی شاندار تصاویر فراہم کر چکی ہے۔ ان میں سے ایک مشہور دریافت کائناتی وسعت کا اصول ہے۔ یہ دریافت سائنسدانوں کو یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہے کہ کائنات کی توسیع ایک انقلابی عمل ہے جسے کئی عوامل متاثر کرتے ہیں، جیسے کہ تاریک توانائی۔ ہبل کی جانب سے فراہم کردہ تصاویر اتنی واضح اور تفصیلی ہیں کہ یہ نہ صرف کہکشائوں کی مختلف اقسام کو واضح کرتی ہیں بلکہ ان کی عمریں اور ساخت بھی ظاہر کرتی ہیں۔ عموماً، ہبل نے نئے کہکشائوں کے نظام شمسی کی تصاویر کے ذریعے ہمیں ہماری کائنات کی نوعیت کا ایک بہتر تصور فراہم کیا ہے۔ یہ تصاویر ہمیں یہ سمجھنے میں مدد کرتی ہیں کہ کیسے ستارے پیدا ہوتے ہیں، بڑھتے ہیں اور اپنی زندگی کے مختلف مراحل سے گزرتے ہیں۔ خاص طور پر، ہبل نے ایسے ستاروں کی تصاویر فراہم کی ہیں جو اپنے آخری مراحل میں ہیں، جیسے کہ سپرنووا کی پھٹنے کی تصاویر، جو پناہ گزینی کی طاقتور مثال ہیں۔ مزید برآں، ہبل نے مختلف کہکشائوں کی تشکیل و ترقی کے بارے میں بھی اہم معلومات فراہم کی ہیں۔ ہبل کی ان دریافتوں نے نہ صرف فلکیات میں نیا اضافہ کیا ہے بلکہ کئی سائنسی نظریات کو بھی تقویت دی ہے، جیسے کہ یونیورسل بگ بینگ تھیوری۔ اس نے حقیقتاً کائنات کی ساخت اور اس کی وقت کے ساتھ تبدیلی کے بارے میں ہماری سمجھ کو بڑھایا ہے، جو سائنس کی دنیا میں انمول مددگار ثابت ہوا ہے۔ ہبل ٹیلی اسکوپ کی تیاری اور کامیابی نے سائنسی تحقیقات کے ساتھ ساتھ عوامی شعور پر بھی گہرے اثرات مرتب کیے ہیں۔ اس کی تخلیق کے بعد سے ہی، یہ ٹیکنالوجی دنیا بھر کے سائنسدانوں کے لیے ایک قیمتی وسیلہ ثابت ہوئی ہے۔ ہبل ٹیلی اسکوپ نے کائنات کے متعدد پہلوں کی وضاحت کے لیے اہم معلومات فراہم کی ہیں، جیسا کہ کہکشائوں کا ڈارک میٹر، ستاروں کا جنم، اور کائناتی پس منظر کی شعاعیں۔ اس کی مدد سے حاصل کردہ شواہد نے سائنسدانوں کو ایک نئے دور میں داخل ہونے میں مدد کی، جس نے روایتی تصورات میں تبدیلیاں لانے کے ساتھ ساتھ سائنس کی مزید ترقی کی راہیں ہموار کی ہیں۔
دوسری جانب، ہبل ٹیلی اسکوپ نے عوامی شعور میں بھی ایک اہم کردار ادا کیا ہے۔ اس کی شاندار تصویریں اور کائناتی کہانیوں نے عام لوگوں کے دل میں خلا کی محبت اور سائنس کی دلچسپی کو بڑھایا ہے۔ ٹیلی اسکوپ کے ذریعے پیش کی گئی شبیہات نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کرائی، جس کے نتیجے میں عوام میں علم کی تڑپ مزید بڑھ گئی۔ سکولوں اور یونیورسٹیوں میں سائنس کے موضوعات پر تعلیم کی اہمیت میں اضافہ ہوا ہے، جو کہ ہبل کے مشاہدات کے اثرات کا ایک نمایاں ثبوت ہے۔ ہبل کی کامیابی نے اس بات کو بھی واضح کیا کہ سائنسی تحقیق اور عوامی دلچسپی کے درمیان ایک مضبوط رابطہ موجود ہے۔ جب عوام کو سائنسی تحقیقات سے متعارف کرایا جاتا ہے، تو وہ ان کے نتائج کی قدر کرتے ہیں اور نئی معلومات کے ساتھ اپنی سوچ اور علم کو وسعت دیتے ہیں۔ پراگندہ سائنسی اعداد و شمار کی بجائے، ہبل ٹیلی اسکوپ کی بصری شواہد نے سائنسی تجربات کی تقریباً ہر پہلو کی وضاحت فراہم کی ہے، جو عام لوگوں کے لیے سمجھنا آسان ہیں۔ ہبل ٹیلی اسکوپ کی کامیابی نے نہ صرف سائنس کی دنیا میں انقلابی تبدیلیاں لائیں بلکہ اس نے نئی تحقیقاتی اور تکنیکی منصوبوں کے لئے ایک راستہ بھی ہموار کیا ہے۔ ہبل نے ہمیں کائنات کی وسعتوں کے بارے میں جاننے کی ایک نئی بصیرت فراہم کی، جس کے نتیجے میں ایڈوانسڈ اوبزرویٹریز، جیسے کہ جیمز ویب ٹیلی اسکوپ (JWST)، کی ترقی ممکن ہوئی۔ یہ نئے منصوبے نہ صرف ہبل کی وراثت کو جاری رکھتے ہیں بلکہ انھیں مزید ترقی دیتے ہیں، جیسے کہ مختلف جہتوں میں کائنات کی گہرائی میں جھانکنے کی صلاحیت۔ علاوہ ازیں، کئی دیگر سائنسی مشنز کے بارے میں بھی ہمیں امید افزا اطلاعات ہیں جو مستقبل میں شروع ہونے والی ہیں۔ ان جدید مشنز میں جدید ترین ٹیکنالوجی کا استعمال اور نئی گرامر، جیسے کہ اگلی نسل کی سٹیراوسکوپک ٹیکنالوجی، شامل ہیں جو نہ صرف کائناتی اجسام کے بارے میں معلومات جمع کرنے کی صلاحیت میں اضافہ کریں گی بلکہ مختلف فضائی خطرات کے لئے ایک نیا دفاعی نظام بھی فراہم کریں گی۔ یونیورسٹیوں اور سائنسی اداروں میں جاری تحقیق بھی ہبل کی وراثت کی پیروی کرتی ہے۔ نئی ڈیٹا اینالیسس ٹیکنیکس، جیسے کہ مشین لرننگ اور آرٹیفیشل انٹیلیجنس، کی مدد سے کائناتی ڈیٹا کو بہتر انداز سے سمجھنے کی قابل ہوئی ہے۔ اس طرح کے نئے اپروچز کی مدد سے ہم آنے والے سالوں میں نہ صرف موجودہ قدرتی مظاہر کی وضاحت کر سکیں گے بلکہ نئے سوالات بھی دریافت کرنے کی صلاحیت حاصل کریں گے۔
مستقبل میں کیے جانے والے یہ سائنسی اقدامات بالواسطہ طور پر ہبل ٹیلی اسکوپ کے کارناموں پر مبنی ہوں گے اور یہ ممکنہ طور پر کائناتی تحقیقات کی نئی راہیں ہموار کریں گے۔
25 دسمبر 2021ء کو جیمز ویب اسپیس ٹیلی اسکوپ لانچ ہوا، جو انفراریڈ شعاعوں کے ذریعے کائنات کی ابتداء کے رازوں کو جانچنے کی صلاحیت رکھتا ہے۔ جیمز ویب ٹیلیسکوپ ایک انفراریڈ ٹیلیسکوپ ہے۔ یہ آسمان کو روشنی کی اُن ویو لینتھس ( طول الموج) میں بھی دیکھ سکتی ہے جو ہماری آنکھیں نہیں دیکھ سکتیں۔ 10ارب ڈالر کی یہ جیمز ویب خلائی دوربین کی لانچ کے ایک سال میں اس سے اب تک کیا کیا نظر آیا ؟ جیمز ویب سپیس ٹیلی اسکوپ نے مشاہدات کو مزید گہرائی بخشی۔ یہ ٹیلی اسکوپ انفرا ریڈ شعاعوں کو پکڑنے کی غیر معمولی صلاحیت رکھتی ہے جس کے ذریعے نہ صرف ابتدائی کہکشائوں کی جھلک دیکھی جا سکتی ہے بلکہ ستاروں کے بننے کے عمل اور دیگر نظام ہائے سیارگان کا تجزیہ بھی ممکن ہوگیا ہے۔ ماہرینِ فلکیات اس کے مختلف کیمروں کا استعمال کرتے ہوئے کائنات کے مختلف حصوں کا جائزہ لیتے ہیں، جیسے کہ گیس اور دھول کے ان بلند و بالا ٹاورز کا۔ پِلرز آف کریئیشن یا تخلیق کے ستون کہلانے والے یہ مینار ہبل سپیس ٹیلی سکوپ کا بھی پسندیدہ ہدف تھے۔ ان کی وسعت کا اندازہ اس بات سے لگائیں کہ اگر آپ روشنی کی رفتار سے بھی چل سکیں تو آپ کو اس پوری جگہ سے گزرنے میں کئی برس لگیں گے۔ فلکیاتی تحقیق میں تازہ ترین اور قابل ذکر پیش رفت ویرا سی روبن آبزرویٹری کی صورت میں سامنے آئی ہے، جو نہ صرف تکنیکی بلکہ نظریاتی سطح پر بھی ایک انقلابی منصوبہ ہے۔ جو آنے والے برسوں میں ہمیں کائنات کے نہ صرف مزید راز بتائے گی بلکہ ممکنہ طور پر ہماری سائنسی تفہیم کو ایک نیا زاویہ دے گی۔ اس کی مرکزی ٹیلی اسکوپ کا قطر 8.4میٹر ہے، جو اسے دنیا کی سب سے بڑی آپٹیکل ٹیلی اسکوپس میں شمار کراتا ہے۔ تاہم، اس آبزرویٹری کا اصل کمال اس میں نصب LSSTکیمرہ ہے، جسے دنیا کا سب سے بڑا ڈیجیٹل کیمرہ قرار دیا جا رہا ہے۔ اس کی3.2گیگا پکسل ریزولوشن اسے فلکیاتی تاریخ کا سب سے زیادہ تفصیلی مشاہداتی آلہ بنا دیتی ہے۔ یہ کیمرہ ہر ایک تصویر میں آسمان کے اتنے بڑے حصے کو قید کرتا ہے کہ 3راتوں میں پورے جنوبی آسمان کا مکمل نقشہ تیار کیا جا سکتا ہے۔ یہ صلاحیت نہ صرف متحرک اجرامِ فلکی کی نگرانی میں مدد دے گی بلکہ ممکنہ طور پر نئے سیارچے، دمدار ستارے، اور دیگر فلکیاتی مظاہر کی دریافت کا ذریعہ بھی بنے گی۔ اس منصوبے کو Time-Domain Astronomyکا آغاز بھی کہا جا رہا ہے، کیونکہ یہ نہ صرف جامد مشاہدات بلکہ وقت کے ساتھ بدلتے مظاہر کا ریکارڈ بھی فراہم کرے گا۔
ان تمام پیش رفتوں نے انسانی بصیرت کو وسعت دی، اور ٹیلی اسکوپ کو ایک سادہ مشاہداتی آلہ سے کائناتی علم کے عظیم ذریعہ میں بدل دیا۔

جواب دیں

Back to top button