یہ یوٹوپیائی باتیں نہیں ہیں

یہ یوٹوپیائی باتیں نہیں ہیں
حافظ محمد قاسم مغیرہ
وطن عزیز کی ترقی کی خواہش کرنا اور ترقی کو پرکھنے کے لیے بلند معیارات قائم کرنا محض مثالیت پسندی نہیں ہے۔ چراغوں سے بہلنے کے بجائے صبح صادق کا طالب ہونا کوئی یوٹوپیائی تصور نہیں ہے۔ سیاسی جماعتوں کو جمہوریت کی سخت کسوٹی پر پرکھنا خیالی باتیں نہیں ہیں۔ ہمارا سب سے بڑا مسئلہ یہ ہے کہ ہم ترقی کے نام پر کسی حقیر سی شے سے بہل جانے کے عادی ہیں۔ ہمارے اہل سیاست اور اہل دانش نے یہی سکھایا ہے کہ قصیدے پڑھتے رہو، سوال نہ کرو، شعور کی بات نہ کرو، مزاحمت کا نام نہ لو، فلاں زندہ باد اور فلاں مردہ باد کے نعروں سے ماورا ہوکر نہ سوچو، کھلونوں سے بہل جائو۔
آئیے! ترقی اور جمہوریت کے کچھ خواب دیکھتے ہیں اور سوچتے ہیں کہ ان میں سے کتنے خوابوں کو تعبیر کی منزل ملنا مشکل ہے، کتنے خواب غیر حقیقی تصورات پر مبنی ہیں اور کتنے خوابوں کا سچ ہو جانا ہماری بساط سے باہر ہیں۔
سیاسی جماعتوں کا جمہوری رویے اپنانا از حد ضروری ہے۔ یہاں یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ کیا وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں جمہوری مزاج نہیں رکھتیں؟ جی ہاں ، وطن عزیز کی سیاسی جماعتیں جمہوریت سے کوسوں دور ہیں، آمرانہ اور فسطائی مزاج رکھتی ہیں، جمہوریت سے خوف زدہ ہیں۔ نتیجتاً انٹرا پارٹی الیکشنز، داخلی جمہوریت، بلدیاتی انتخابات اور سٹوڈنٹ یونینز سیاسی جماعتوں کے لیے شجر ممنوعہ ہیں۔ اگر سیاسی جماعتوں کو ان کے حقیقی وظیفہ یعنی جمہوریت کی یاددہانی کرائی جائے تو اس میں حرج ہی کیا ہے؟ سو ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں باقاعدگی سے انٹرا پارٹی الیکشنز کا انعقاد کریں، بہتر اور متبادل قیادت سامنے لائے اور خود کو چینی چوروں ، رسہ گیروں اور بدقماش لوگوں کی آماج گاہ بننے سے بچائیں۔ ضروری ہے کہ سیاسی جماعتیں داخلی جمہوریت پر توجہ دیں، طلباء یونین بحال ہوں۔ ملک میں باقاعدگی سے بلدیاتی انتخابات ہوں، نچلی سطح تک اختیارات کی منتقلی ہو، بلدیاتی نمائندے عوام کی خدمت کے لیے ہمہ وقت حاضر ہوں۔ کیا یہ صرف کہانیاں اور مبالغے ہیں؟ کیا عملاً ایسا ممکن نہیں ہے کہ سیاسی جماعتیں جمہوری رویے اختیار کریں اور انٹرا پارٹی الیکشنز سے لے کر لوکل گورنمنٹ الیکشنز تک۔ جمہوری روش اپنائیں؟۔
آئین پاکستان بالعموم اور عام آدمی سے متعلق شقوں کا بالخصوص نفاذ ہو۔ امر واقعہ یہ ہے کہ علاج، انصاف، عام آدمی کے وقار، مساوات، تعلیم کے فروغ اور استحصال کے خاتمے کے بارے میں آئین کی شقیں کبھی کسی سیاسی جماعت کی ترجیحات میں شامل نہیں رہیں۔ آئین کا علم تو ہر سیاسی جماعت نے اٹھا رکھا ہے لیکن اس علم کے سائے تلے جمہوریت اور آئین سے خوف زدہ سیاست دانوں کا جم غفیر ہے۔ کیا آئین کے نفاذ کی خواہش کوئی غیر حقیقی خواہش ہے؟ کیا یہ امر محال ہے کہ آئین میں تحریر باتوں کو جامہ عمل پہنا دیا جائے؟۔
وطن عزیز کے لیے ایک ایسے نظام تعلیم کی خواہش کرنا کہ جو طبقاتی تقسیم پیدا کرنے کے بجائے باشعور شہری، محققین، سائنس دان اور ماہرین پیدا کرے کوئی ایسی خواہش تو نہیں کہ جو احاطہ امکان سے باہر ہو۔ یہ درست ہے کہ سر دست نظام تعلیم شدید تنقید کی زد میں ہے۔ حکومتی پالیسیوں کے نتیجے میں نظام تعلیم نے طبقاتی تقسیم گہری کی ہے۔ نتیجتاً اب سوائے چند استثنائی معاملات کے سرکاری سکولوں اور کالجوں کے بچے ڈاکٹرز ، انجنیئرز اور بیوروکریٹس نہیں بنتے۔ سرکاری سکولوں کی موجودہ صورت حال یہ ہے کہ گزشتہ سات برس سے محکمے میں نئے اساتذہ کا انتخاب نہیں ہوا، سرکاری سکول تیزی سے آئوٹ سورس کیے جارہے ہیں۔ ان حالات میں ترقی کے نام پر کسی حقیر سی شے سے بہل جانا شعور کی کون سی قسم ہے؟ کیا اس صورت حال کو جوں کا توں قبول کر لینا چاہیے؟ مزاحمت، شعور، سوال اور رائے عامہ کی ہمواری کے لیے کوشش نہیں کرنی چاہیے؟۔
ریاست کے نظام کو فراہمی عدل کی کسوٹی پر بھی پرکھنا چاہیے۔ اگر عدالتیں انصاف دے رہی ہیں تو بہت اچھی بات ہے۔ اگر ایسا نہیں ہے اور یقیناً ایسا نہیں ہے تو کیا پھر مبنی بر عدل نظام کی خواہش ترک کر دینی چاہیے کہ عدل تو ہمارے نصیب میں نہیں ہے؟ کیا چند استثنائی معاملات میں چند منصفوں کی اچھی کارکردگی پر انصاف کے شادیانے بجانے چاہئیں اور لوگوں کو اس دلیل سے رام کر دینا چاہیے کہ اس نظام میں تو بس اتنا سا انصاف ہی مل سکتا ہے؟
وطن عزیز میں ابھی بہت کچھ ہونا باقی ہے۔ بے لگام افسر شاہی کو ضابطے کا پابند کیے جانے کی شدید ضرورت ہے۔ سول سروس جس کا فرض منصبی عوام کی خدمت کرنا ہے، عوام کی بے رحم آقا بن کر اس کا لہو چوس رہی ہے۔ اس کی مراعات، خدم و حشم، طرز زندگی اور ٹھاٹھ باٹھ۔ سب عوام پر بوجھ ہیں۔ کیا اس صورت میں ہمیں عوام دوست سول سروس کا خواب دیکھنا چاہیے یا صورتحال کو جوں کا توں قبول کرکے ہاتھ پر ہاتھ دھرے بیٹھے رہنا چاہیے؟ کیا خاموش رہنے اور مزاحمت، بیداری شعور، رائے عامہ کی ہمواری اور سوال اٹھانے کے نتائج یکساں ہو گے؟ ہرگز نہیں، تو پھر ثانی الذکر راستہ کیوں نہ اختیار کیا جائے؟۔
کیا کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی کوشش ہونی چاہیے یا نہیں؟ ٹیکس چوری ملکی معیشت اور عوام سے کھلواڑ ہے۔ اس عمل میں کاروباری طبقے کو حکومتی آشیر باد حاصل ہوتی ہے۔
نتیجتاً تنخواہ دار طبقے کا استحصال ہوتا ہے۔ کیا اس صورت حال میں کاروباری طبقے کو ٹیکس نیٹ میں لانے کی بات نہیں ہونی چاہیے؟۔
وطنِ عزیز میں بار بار برسر اقتدار آنے والی جماعتوں نے پائیدار ترقی کے بجائے شعبدہ بازی کو ہدف بنائے رکھا اور ان حکومتوں کی خواہش رہی کہ اس شعبدہ بازی کو ترقی سمجھ کر اس کے قصیدے پڑھے جائیں؟ تو کیا کسی حقیر شے پر قناعت کرکے قصیدہ گوئی جاری رہے یا پائیدار ترقی کے اہداف کا تعین اور ان کی تکمیل کا خواب دیکھنا چاہیے؟۔
ترقی، خوشحالی، معاشی استحکام، امن، انصاف، تعلیم اور روزگار کی بات کرنا کوئی یوٹوپیائی بات تو نہیں ہے۔ کیا اقوام عالم نے یہ سب کرکے نہیں دکھایا؟ اور پاکستان میں وسائل، مواقع، زرخیز زمینوں، معدنیات، ثقافتی تنوع، سیاحت کے شان دار مواقع، محنتی لوگوں، محل وقوع، تجارتی گزرگاہوں اور نوجوانوں کی کثیر تعداد سمیت کس شے کی کمی ہے کہ ہم ترقی کی خواہش کو ناقابل عمل سمجھ کر تج دیں اور موجودہ صورت پر خاموشی کی ردا اوڑھ لیں؟ ترقی کے اتنے شان دار مواقع ہونے کے باوجود ہم چراغوں سے کیوں بہلیں، صبحِ صادق کے طالب کیوں نہ بنیں؟۔





