ColumnRana Ijaz Hussain

محسن اعظمؐ

محسن اعظمؐ
تحریر: رانا اعجاز حسین چوہان
ہمارے پیارے نبی محمدؐ پورے عالم کے محسن ہیں کہ جن کے ذریعے سے دین ہم تک پہنچا اور ہم نے ربّ کو پہچانا۔ آپؐ کے ذریعے سے ہمیں نیکی و بدی، اچھائی اور برائی ، گناہ اور ثواب کا فرق معلوم ہوا۔ آپؐ کے ذریعے سے ہی ہمیں جینے کا سلیقہ اور شعور اور آخروی زندگی کی وعید ملی۔ آپ ؐ سردار الانبیاؐ، امام الانبیاؐ اور خاتم المرسلینؐ ہیں۔ آپ ؐ کے مقام کی عظمت و رفعت کا کیا ٹھکانہ ، جہاں باری تعالیٰ کا نام آتا ہے ، وہیں آپؐ کا نام مبارک آتا ہے۔ کلمہ طیبہ آپؐ کے شرف کی دلیل، کلمہ شہادت آپؐ کی صداقت کا ثبوت ہے۔ اللہ ربّ العزت نے آپؐ کو ایسا بنایا کہ نہ اس سے پہلے ایسا کوئی بنایا ہے نہ بعد میں کوئی بنائے گا۔ سب سے اعلیٰ، سب سے اجمل، سب سے افضل، سب سے اکمل، سب سے ارفع، سب سے انور، سب سے آعلم، سب سے احسب، سب سے انسب، تمام کلمات مل کر بھی آپؐ کی شان کو بیان کرنے سے قاصر ہیں، اگر سارے جہاں کے جن و انس ملکر بھی حضرت محمدؐ کی شان اقدس اور سیرت طیبہ کے بارے میں لکھنا شروع کریں تو زندگیاں ختم ہو جائیں مگر رسالت مآبؐ کی شان کا کوئی ایک باب بھی مکمل نہیں ہو سکے گا۔
کیونکہ اللہ ربّ العزت نے قرآن کریم میں ارشاد فرمایا ہے ’’ اے محبوبؐ ہم نے آپؐ کے ذکر کو بلند کر دیا ہے‘‘۔ جس ہستی کا ذکر مولائے کائنات بلند کرے، جس ہستی پر اللہ تعالیٰ کی ذات درود وسلام بھیجے، جس ہستی کا ذکر اللہ رحمٰن و رحیم ساری آسمانی کتابوں میں کرے، جس ہستی کا، چلنا ،پھرنا ،اٹھنا، بیٹھنا،سونا، جاگنا،کروٹ بدلنا، کھانا، پینا مومنین کیلئے باعث نجات، باعث شفائ، باعث رحمت ،باعث ثواب،باعث حکمت، باعث دانائی ہو، اور اللہ ربّ العزت کی ذات نے آپؐ کی ذات کبریا کو مومنین کیلئے باعث شفاعت بنا دیا ہو، اس ہستی کا مقام اللہ اور اللہ کا نبی ؐ ہی جانتے ہیں۔ پھر اس ہستی کے متعلق سب کچھ لکھنا انسانوں اور جنوں کے بس کی بات نہیں۔ اللہ تعالیٰ نے نبی کریمؐ کو بے شمار خصوصیات عطا فرمائی ہیں، جن کو لکھنا تو در کنار سارے جہان کے آدمی اور جن ملکر گن بھی نہیں سکتے۔ آپ ؐ کی ذات اقدس الفاظ اور ان کی تعبیرات سے بہت بلند وبالا تر ہے۔ آپؐ کائنات کا مجموعہ حسن ہیں، آپؐ کا قد نہ زیادہ لمبا تھا نہ پست، ماتھا کشادہ تھا، سر بہت خوبصورتی کے ساتھ بڑا تھا، آپؐ کے بال نیم گھنگریالے تھے، آپؐ کی بھوئیں گول خوبصورت تھیں، جہاں وہ ملتی ہیں وہاں بال نہ تھے، وہاں ایک رگ تھی جو کہ غصے میں پھڑکتی تھی، آنکھ مبارک کے بارے میں ہے کہ آپؐ کی آنکھیں لمبی، خوبصورت، سرخ ڈوروں سے مزین تھیں، موٹی اور سیاہ، سفیدی انتہائی سفید، آپ ؐ کی پلکیں بڑی دراز، آپؐ کی ناک مبارک آگے سے تھوڑا اٹھا ہوا اور نتھنوں سے باریک، ایک نور کا ہالہ تھا جو ناک پر چھایا رہتا تھا، آپؐ کے ہونٹ انتہائی خوبصورت تراشیدہ، تھوڑے دہانے کی چوڑائی کے ساتھ ، دانت بڑے خوبصورت اور متوازی اور ان میں کسی قسم کی کوئی بے ربطگی نہ تھی، انتہائی باہم مربوط، پہلے چار دانتوں میں خلا تھا، جب آپؐ مسکراتے تو دانتوں سے نور نکلتا ہوا سامنے پڑتا تھا، گال مبارک نہ پچکے ہوئے نہ ابھرے ہوئے، چہرہ چودھویں رات کے چاند کی طرح چمکتا ہوا گول تھا، داڑھی مبارک گھنی تھی۔
علامہ قرطبیؒ فرماتے ہیں کہ اللہ تبارک و تعالیٰ نے حضرت محمد ؐ کے حسن و جمال میں سے بہت تھوڑا سا ظاہر فرمایا اگر سارا ظاہر فرماتے تو آنکھیں اس کو برداشت نہ کر سکتیں۔ حضرت یوسفٌ کا سارا حسن ظاہر کیا لیکن رسولؐ اللہ کے حسن کی چند جھلکیاں دکھائی گئیں اور باقی سب مستور رہیں، کوئی آنکھ ایسی نہ تھی جو اس جمال کی تاب لا سکتی ، اس لئے ہم وہی کچھ کہتے ہیں جو صحابہ کرامؓ نے آپ ؐ کو دیکھ کر ہم تک پہنچایا۔ براء بن عازبؓ کی اس بات کو حضرت حسان بن ثابتؓ ( شاعر رسول اللہ ) نے ان الفاظ میں بیان کیا ’’ آپؐ جیسا حسین میری آنکھ نے نہیں دیکھا ، آپ جیسے جمال والا کسی ماں نے نہیں جنا ، آپؐ ہر عیب سے پاک پیدا ہوئے ، آپؐ ایسے پیدا ہوئے جیسے آپؐ نے خود اپنے آپؐ کو چاہا ہو‘‘۔ غرضیکہ آپؐ کے اسوہ حسنہ پر عمل پیرا ہو کر ہی ہم دنیا و آخرت میں کامیابی حاصل کر سکتے ہیں۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے دلوں میں سب سے زیادہ رحمت اللعالمین حضرت محمدؐ کی محبت پیدا فرمائے، آمین۔

جواب دیں

Back to top button