شنگھائی تعاون تنظیم کا سلور جوبلی اجلاس

شنگھائی تعاون تنظیم کا سلور جوبلی اجلاس
روشن لعل
شنگھائی تعاون تنظیم میں شامل مختلف ملکوں کے سربراہوںکا اجلاس، ہر برس کسی نہ کسی رکن ملک میں منعقد کیا جاتا ہے۔ سال 2001ء میں قائم کی گئی اس تنظیم کا سلور جوبلی اجلاس اسے بنانے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے چین کے شہر تیانجن میں 31اگست سے یکم ستمبر 2025ء تک جاری رہا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے تیانجن میں منعقدہ اجلاس کی خاص بات یہ رہی کہ عالمی میڈیا نے ایک عرصہ کے بعد اس کے اجلاس کو اپنی توجہ کا مرکز بنایا۔ اس تنظیم کا پس منظر یہ ہے کہ سوویت یونین کی شکست و ریخت کے بعد اسے چین، روس، قازقستان، کرغیزستان اور تاجکستان نے 1996ء میں شنگھائی فائیو کے نام سے اس مقصد کے تحت بنایا تھا کہ کوئی عالمی طاقت ن کی سیکیورٹی کے لیے چیلنج نہ بن جائے۔ شنگھائی فائیو کو 2001ء میں اس وقت وسعت دیتے ہوئے شنگھائی تعاون تنظیم کا نیا نام دیا گیا جب ازبکستان نے بھی اس میں شمولیت اختیار کر لی۔ 2017ء میں پاکستان اور بھارت کو ایک ساتھ اس تنظیم میں شامل کیا گیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے سمرقند میں منعقدہ 2022ء کے اجلاس میں ایران کو اس کا نیا رکن بنایا گیا ۔ ایران کے رکنیت حاصل کرنے کے بعد بیلاروس 2023ء میں تنظیم کارکن بنا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے دس رکن ملکوں کے علاوہ 14ایسے دیگر ملک بھی ہیں جو مبصر یا ڈائیلاگ پارٹنر کی حیثیت سے اس تنظیم سے وابستہ ہیں ۔ تیانجن میں منعقدہ سربراہی کانفرنس میں رکن ملکوں سمیت کل 24ممالک کے وزرائے اعظم یا صدور نے شرکت کی۔ مختلف ملکوں کی طرف سے شنگھائی تعاون تنظیم سے وابستہ ہونے کا جو رجحان ہے اسے دیکھتے ہوئے یہ کہا جاسکتا ہے کہ یہ تنظیم دنیا کا ایک بڑا اور اہم ادارہ بننے کے مراحل سے گزر رہی ہے۔ فی الحال شنگھائی تعاون تنظیم کی اہمیت کا اندازہ اس بات سے لگایا جاسکتا ہے کہ اس میں شامل ممالک کا اگر پوری دنیا کی جی ڈی پی میں حصہ 30فیصد تو آبادی میں حصہ 40فیصد ہے۔ اس قدر اہم تنظیم کے سربراہی اجلاس کو عالمی میڈیا نے عرصہ بعد ایسے حالات میں پھر سے اہمیت کا حامل سمجھا جب غزہ باسیوں پر ہونے والے مظالم پر خاموش تماشائی بنی اقوام عالم کی بے حسی ہر حد عبور کر چکی ہے ، اسرائیل کا ایسا کردار سامنے آیا ہے کہ وہ بیرونی رد عمل کے خوف سے آزاد ہو کر کسی بھی ملک کو دشمن قرار دے اس کے خلاف کسی بھی حد تک جارحیت کا مظاہرہ کر سکتا ہے۔ ایسے حالات میں وہ امریکہ جس نے کبھی خود ہی عالمی سطح پر ورلڈ ٹریڈ آرگنائزیشن کے ذریعے فری ٹریڈ کے راستے ہموار کیے تھے، اس کا صدر ڈونلڈ ٹرمپ، بیرونی ممالک کی اپنے ملک آنے والی درآمدات پر من مانے ٹیرف عائد کرنے کے احکامات ماضی کے بادشاہوں کی طرح جاری کر رہا ہے۔ عالمی میڈیا نے اس قسم کی حالات میں منعقد ہونے والی شنگھائی تعاون تنظیم کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ کو خاص طور پر اپنے تبصروں کا مرکز بنایا۔
پاکستان میں اگر شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیہ کے متعلق یہ کہا جارہا ہے کہ اس میں جعفر ایکسپریس میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کی گئی ہے تو بھارت میں اس بات کا ابلاغ کیا جارہا ہے کہ اعلامیے میں پہلگام میں کی جانے والی دہشت گردی کی ملامت کا نکتہ بھی شامل ہے۔ واضح رہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم کے اعلامیے میں جعفر ایکسپریس اور پہلگام میں ہونے والی دہشت گردی کی مذمت کرنے کے ساتھ ساتھ دہشت گردی کے خلاف مختلف ملکوں کے دوہرے معیار کو رد کرتے ہوئے یہ بھی کہا گیا کہ دہشت گردوں کی سرحد پار نقل و حرکت سے نمٹنے کے لیے حقیقی عالمی تعاون بہت ضروری ہے۔ تنظیم کے مشترکہ اعلامیے کے ایک نکتے میں اسرائیل اور امریکہ کے ایران پر کیے گئے حملوں کی ملفوف انداز میں مذمت کی گئی ہے۔ اعلامیے میں اسرائیل اور امریکہ کی مذمت کا نکتہ شامل ہونا اس حوالے سے اہم اور حیرت انگیز ہے کہ اپریل 2025ء میں ہونیوالے تنظیم کے اجلاس کا مشترکہ اعلامیہ صرف اس وجہ سے جاری نہیں ہو سکا تھا کیونکہ بھارت نے اسرائیل کی مذمت کرنے سے انکار کر دیا تھا۔
تیانجن اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کے دیگر نکات میں شنگھائی تعاون تنظیم کی طرف سے اس خواہش کا اظہار کیا گیا ہے کہ تنظیم سے وابستہ ممالک تیزی سے بدلتے ہوئے جغرافیائی و سیاسی ماحول میں باہمی تعاون کے ذریعے خود کو سکیورٹی کی غرض سے اور اقتصادی طور پر مضبوط کریں۔ ایٹمی ہتھیاروں سے پاک دنیا قائم کرنے کا عزم ظاہر کرتے ہوئے علاقائی تنازعات کا حل مذاکرات کے ذریعے تلاش کرنے پر زور دیا گیا۔ وسیع پیمانے پر تباہی پھیلانے والے ہتھیاروں کا پھیلائو روکنے کے لیے پہلے سے موجود بین الاقوامی معاہدوں پر عمل درآمد کے لیے اصرار کیا گیا۔ اقوام متحدہ کو قائم کرنے کے اغراض و مقاصد کے تحت اس کی کارکردگی اور کردار کو موثر بنانے کے لیے اس کے ڈھانچے میں جامع اصلاحات کرنے کا مطالبہ کیا گیا۔ اس تسلسل میں، اقوام متحدہ کی سیکیورٹی کونسل جیسی گورننگ باڈیز میں ترقی پذیر ممالک کی نمائندگی بڑھانے پر زور دیا گیا۔ عالمی سطح پر پائیدار ترقی کے لیے سائنس و ٹیکنالوجی کے میدان میں ہونے والی ترقی کو اقوام عالم کا مشترکہ ورثہ قرار دیتے ہوئے مصنوعی ذہانت کی ترقی اور استعمال میں تمام ممالک کے مساوی حقوق کو تسلیم کرنے پر زور دیا گیا۔ ایک زمین ، ایک خاندان اور ایک مستقبل جیسے تصورات کی تائید کرتے ہوئے عالمی سطح پر غربت میں کمی ، خوراک کے تحفظ اور موسمیاتی تبدیلیوں کے مضر اثرات سے بچائو کے لیے کیے گئے عالمی معاہدوں پر عمل درآمد کا اعادہ کیا گیا۔
شنگھائی تعاون تنظیم کو قائم کرنے میں کلیدی کردار ادا کرنے والے چین نے اسے وابستہ ممالک کے لیے موثر مفید بنانے کے لیے بھی ہمیشہ نمایاں کردار ادا کیا۔ اپنے اس کردار کو جاری رکھتے ہوئے چین نے شنگھائی تعاون تنظیم کے اراکین کو اپنے سیٹلائٹ نیویگیشن سسٹم تک رسائی کی پیشکش کی ہے۔ اس کے علاوہ چین نے بنیادی ڈھانچے کی تعمیر، رابطے استوار کرنے اور زرعی ترقی جیسے شعبوں میں شنگھائی تعاون تنظیم کے پلیٹ فارم سے تیار کیے گئے منصوبوں کے لیے تین سالوں کے دوران 1.4بلین ڈالر قرض دینے کا اعلان کیا۔ شنگھائی تعاون تنظیم کو مالی طور پر خود کفیل اور مستحکم بنانے کے لیے ، چین نے SCOترقیاتی بینک کے قیام کی تجویز بھی پیش کی۔
گو کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں چین کا کردار کلیدی ہے لیکن اس تنظیم میں اس کی حیثیت ہر گز ایسی نہیں کہ اسے ویٹو پاور کی حامل طاقت سمجھا جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے دوران دیگر تمام ممالک نے تو چین کے روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کی حمایت کا اعلان کیا لیکن بھارت اس حوالے سے اپنے اس پرانے موقف پر ڈٹا نظر آیا جو موقف اس معاملے میں امریکی موقف کے قریب تر ہے۔ بھارت اس وقت امریکہ سے تو واضع طور پر دور نظر آرہا ہے لیکن روڈ اینڈ بیلٹ منصوبے کے لیے اس کی جاری مخالفت سے یہ نظر آرہا ہے کہ وہ چائنہ کے بھی قریب نہیں آنا چاہتا۔ بھارت کا اس رویے پر مبصروں کا یہ کہنا ہے کہ شنگھائی تعاون تنظیم میں نریندر مودی کی شرکت کا مقصد واضح نہیں بلکہ بہت مبہم ہے۔





