ColumnTajamul Hussain Hashmi

ننھی بچی کا سوال

ننھی بچی کا سوال
تحریر: تجمّل حسین ہاشمی
محب وطن کی تعریف ہر کوئی اپنی سمجھ کے مطابق کرتا ہے، کیونکہ ہمارے ہاں غداری جیسے الزامات کی بھرمار ہے، لیکن ریاستِ پاکستان کی نظر میں غدار کون ہو سکتا ہے، اس حوالے سے کئی برس سے الجھائو چلا آ رہا ہے۔ کسی فرد کو غدار کہنا آسان ہے، مگر اسے ثابت کرنا انتہائی مشکل ہوتا ہے۔ ہمارے ہاں غداری جیسے الفاظ میں ذاتی نفرت، مفادات اور انا کی آمیزش ہے۔ ایسے رویوں کی پرورش اقتدار کے ایوانوں کے ساتھ ساتھ رات کے اندھیروں میں کی جانے والی خفیہ میٹنگز ہوتی رہی۔ پکڑو، اندر ڈالو ، نہیں مانتا کیس بنائو، مان جائے گا۔ میری حکومت کے چکر میں بہت کچھ ہوتا رہا۔ جب بڑے لوگوں کے رویے ایسے ہوں تو پھر ہمارے بچے کیسے اچھا سوچ سکتے ہیں، ملک میں منفی رجحانات عام ہوں گے، لا اینڈ آرڈر بہتر ہونے کی بجائے مزید خراب ہو گا۔ جب وقت کے سابق وزیراعظم کی سوچ بھی یہی ظاہر کرتی ہو کہ ’’ وزیراعظم جیل جاتے ہیں‘‘۔ سابق وزیراعظم شاہد خاقان عباسی سے مری میں ایک ننھی بچی نے سوال کیا کہ ’’ وہ وزیراعظم کیسے بن سکتی ہے؟‘‘، عباسی صاحب نے جواب دیا: ’’ وزیراعظم جیل جاتے ہیں، جیل جانے کے لیے تیار ہو؟‘‘۔ معصوم بچی خاموشی سے حیران نظروں کے ساتھ سابق وزیراعظم کو دیکھتی رہ گئی۔ ایک معصوم بچی اس جواب کے بعد اور کیا کہہ سکتی تھی؟، ایسا جواب دینے سے پہلے عباسی صاحب کو سوچنا چاہیے تھا کہ جیل کا دروازہ جرم کی پاداش میں کھلتا ہے۔ ملک کا کوئی بھی وزیراعظم جب عوام کے اعتماد کو توڑ دے، جب اس کا پورا خاندان اور قریبی حلقہ سرکاری و غیر سرکاری ڈیلوں میں اربوں روپے کمائے، جب قومی خزانے کو ذاتی تجوری سمجھ کر لٹا دیا جائے، منی لانڈرنگ کے ذریعے بیرون ملک اربوں کی جائیدادیں بنائی جائیں، جب اللہ پاک کی عطا کردہ عزت کے بدلے تعلیم، صحت اور انصاف کے نظام کو بہتر بنانے کے بجائے مال و دولت اور لوٹ مار کو ترجیح دی جائے تو پھر ایسے وزیراعظم کے لیے جیل ہی بنتی ہے۔
وزیراعظم کا منصب اور محب وطنی کا تقاضا یہ ہے کہ وہ اسے اپنے کندھوں پر ایک بھاری ذمہ داری سمجھے، نہ کہ بیرون ملک آف شور کمپنیوں کے ذریعے بینک اکائونٹس بھرنے کا سنہری موقع۔ شاہد خاقان عباسی صاحب بچی کو بہتر مشورے دے سکتے تھے۔ وہ اسے ایمانداری، محنت، پڑھائی اور قابلیت کی تلقین کر سکتے تھے تاکہ وہ ایک دن اپنی صلاحیت اور خدمت کے جذبے کے ساتھ وزیراعظم بنے۔ لیکن جب وزیراعظم بننے کے راستے کو جیل، کرپشن اور لوٹ مار سے جوڑا جائے تو یہ نہ صرف ہمارے سیاسی نظام پر بدنما داغ ہے بلکہ عباسی صاحب کی سوچ اور ذہنی کیفیت کی بھی عکاسی کرتا ہے۔ کیونکہ وہ خود بھی وزیراعظم رہے ہیں، جیل بھی گئے اور ان پر لگائے گئے الزام ثابت نہ ہو سکے۔ وزیر حنیف عباسی نے اسمبلی فلور پر جواب دیتے ہوئے کہا کہ پیچھے 40سال سے حکومت کا حصہ رہے لیکن نظام سیدھا نہ ہو سکا۔ آج سابق وزیر اعظم کو اس بات کا افسوس ہے کہ وزیر اعظم بننے کیلئے جیل جانا پڑتا ہے، لیکن اہم سوال آج بھی وہیں کھڑا ہے، قومی خزانہ کو لوٹا جاتا رہا لیکن فیصلہ ساز آرام سے پروٹوکول کے مزے لیتے رہے۔ کسی کو کسی کی پروا نہیں رہی، عوام پر سارا بوجھ ڈالا جاتا ہے، عوام ان کی سنتے رہے، لیکن قدرتی فیصلوں نے بھی اب فیصلہ سازوں اور طاقتوروں کی اصلیت کھول دی ہے۔ سیلابی صورتحال میں اب پھر تاجروں صنعت کاروں کی منافع خوری اپنے عروج پر ہے اور وزیر اعظم، وزیر اعلیٰ ایک ڈبہ بریانی پر بھی اپنی تشہیر میں لگے ہیں۔ شائد خاقان عباسی صاحب کئی حکومتوں کا حصہ رہے، جیل بھی کاٹی لیکن کچھ نہ بدل سکے تو شکوہ بناتا نہیں، یہ بات حنیف عباسی بھی کر رہے تھے۔ ملکی مفاد میں اکٹھے ہونے کے دعوے سب جھوٹے ثابت ہیں، مل کر قومی مسائل کا حل آج تک تلاش نہ ہو سکا۔ ایک بعد ایک بیانیہ، لیکن غریب آج بھی بجلی پانی گیس اور طاقتوروں کے ہاتھوں لوٹ رہا ہے۔ عمران خان بھی نوجوان کو نیا پاکستان دے رہا تھا، سچا، کورٹ سے امانتداری کے فیصلے، آخر کار کیا ہوا۔ غریب روٹی کیلئے پہلے بھی مشکل میں تھا اور آج ملک کو ڈیفالٹ سے بچانے والے کے سامنے بھی روٹی سے پریشان ہے۔ آج چند سیاست دانوں کو پرانے دن یاد آ رہے ہیں، لیکن ان کے بچوں کا مستقبل خوشحالی میں ہے۔ پریشانی تو اس غریب کو ہے جس کا کوئی مستقبل نہیں ۔ آج پنجاب کی بیوروکریسی سیلاب متاثرین کے ساتھ فوٹو سیشن میں کھڑی نظر آتی ہے، بھنسوں کے چارے کے ساتھ خود کو پکچر ائز کروا رہی ہے، کسی نے کوئی کسر نہیں چھوڑی، قومی خزانے پر کیا گزار رہی ہے، اس متعلق قابل از وقت کچھ کہنا مناسب نہیں ہے۔

جواب دیں

Back to top button