ColumnQadir Khan

مہاجرین کو قبول کرنا ایک بڑا چیلنج

مہاجرین کو قبول کرنا ایک بڑا چیلنج
پیامبر
قادر خان یوسف زئی
یورپ کی گلیوں میں آج کل ایک عجیب سی بے چینی ہے۔ مہاجرین کی مخالفت میں مظاہرے، مساجد کے باہر نعرے بازی، اور اسلامو فوبیا کی بڑھتی ہوئی لہر، یہ سب ایک ایسی کہانی کا حصہ ہیں جو یورپ کے مستقبل کو ایک نازک موڑ پر لے آئی ہے۔ یہ کہانی صرف سرحدوں پر کھڑی دیواروں یا سیاسی نعروں کی نہیں، بلکہ اس کی جڑیں انسانی خوف، معاشی دبا اور ثقافتی شناخت کے بحران میں پیوست ہیں۔ پولینڈ کے چھوٹے شہروں سے لے کر جرمنی کے بڑے شہروں تک، مہاجر مخالف مظاہرے اب کوئی نئی بات نہیں۔ یہ مظاہرے صرف چند لوگوں کی آواز نہیں رہے، بلکہ ایک بڑے سماجی بے چینی کا عکاس ہیں۔ لوگ سڑکوں پر نکلتے ہیں، نعرے لگاتے ہیں، اور سرحدوں کو بند کرنے کا مطالبہ کرتے ہیں۔ ان کے چہروں پر خوف ہے،نوکریاں چھن جانے کا خوف، ثقافتی شناخت کھو جانے کا خوف، اور ایک ایسی دنیا کا خوف جہاں وہ خود کو اجنبی محسوس کر رہے ہیں۔
یہ سوال اہم ہے کہ آخر وہ کون سے عوامل ہیں جو یورپ کو اس موڑ پر لے آئے ہیں۔ ایک طرف معاشی دبائو ہے، یورپ کے کئی ممالک ابھی تک عالمی معاشی بحرانوں سے مکمل طور پر نہیں نکلے۔ نوکریوں کی کمی، مہنگائی، اور سماجی خدمات پر بڑھتا ہوا دبا لوگوں کے صبر کا امتحان لے رہا ہے۔ جب کوئی شخص اپنی نوکری کھو دیتا ہے یا اپنے بچوں کے لیے بہتر مستقبل کی امید کھو بیٹھتا ہے، تو وہ ایک آسان ہدف تلاش کرتا ہے۔ مہاجرین، جو اکثر مختلف رنگ، زبان، اور ثقافت کے ساتھ آتے ہیں، آسان ہدف کے طور پر سامنے آتے ہیں۔ سیاسی جماعتیں، خاص طور پر دائیں بازو کی، اس موقع کو ہاتھ سے جانے نہیں دیتیں۔ وہ مہاجرین کو ایک ایسی ’’ خارجی خطرے‘‘ کی شکل میں پیش کرتی ہیں جو یورپی اقدار اور معاشرے کو نگل لے گا۔ یہ سیاسی کھیل نیا نہیں، لیکن اس کی شدت 2025ء تک بڑھتی جا رہی ہے۔ پولینڈ میں جب ہزاروں لوگ سڑکوں پر نکلے اور سرحدوں کو بند کرنے کا مطالبہ کیا، تو اس کے پیچھے نہ صرف معاشی خدشات تھے بلکہ ایک منظم سیاسی بیانیہ بھی تھا جو لوگوں کے خوف کو ہوا دے رہا تھا۔
لیکن کیا یہ مہاجرین واقعی وہ خطرہ ہیں جو ان کے بارے میں کہا جاتا ہے؟ یہ سوال اہم ہے، کیونکہ اس کے جواب میں ہی اس مسئلے کی گہرائی چھپی ہے۔ مہاجرین، جو اپنے ساتھ اپنی کہانیاں، اپنی ثقافت، اور اپنی محنت لاتے ہیں۔ لیکن جب انہیں معاشرے میں قبول کرنے کی بجائے شک کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے، تو انضمام کا عمل مشکل ہو جاتا ہے۔ جرمنی میں، جہاں لاکھوں مہاجرین کو پناہ دی گئی، یہ دیکھا گیا کہ جب انہیں تعلیم اور روزگار کے مواقع دئیے گئے، تو وہ معاشرے کا حصہ بن گئے۔ لیکن جہاں انہیں الگ تھلگ کیا گیا، وہاں سماجی تنا بڑھا۔ یہ ایک دو طرفہ عمل ہے، مہاجرین کو قبول کرنے کے لیے معاشرے کو تیار ہونا پڑتا ہے، اور مہاجرین کو بھی اس نئے ماحول میں خود کو ڈھالنا پڑتا ہے۔ لیکن جب دونوں طرف سے دیواریں کھڑی کی جاتی ہیں، ایک طرف تعصب کی دیوار اور دوسری طرف خوف کی،تو نتیجہ وہی ہوتا ہے جو ہم آج یورپ میں دیکھ رہے ہیں۔
یورپ کی تاریخ میں غیر ملکیوں کے ساتھ تعلقات ہمیشہ سے پیچیدہ رہے ہیں۔ استعماری دور سے لے کر آج تک، یورپ نے اپنی شناخت کو ایک خاص ثقافتی اور مذہبی ڈھانچے سے جوڑا ہے۔ جب یہ شناخت بدلتی ہوئی نظر آتی ہے، تو ایک فطری ردعمل خوف کی شکل میں سامنے آتا ہے۔ لیکن یہ خوف صرف ثقافتی نہیں، بلکہ سیاسی بھی ہے۔ دائیں بازو کی جماعتیں، جو اب یورپ کے کئی ممالک میں مضبوط ہو رہی ہیں، اس خوف کو اپنی انتخابی مہمات کا ایندھن بنا رہی ہیں۔ وہ مہاجرین اور مسلم کمیونٹیز کو ایک ایسی ’’ دھمکی‘‘ کے طور پر پیش کرتی ہیں جو یورپی اقدار کو ختم کر دے گی۔ یہ بیانیہ نہ صرف گمراہ کن ہے بلکہ خطرناک بھی ہے، کیونکہ یہ معاشرے کو تقسیم کرتا ہے اور نفرت کو ہوا دیتا ہے۔
اس ساری صورتحال میں سوشل میڈیا /ذرائع ابلاغ کا کردار بھی ناقابلِ انکار ہے۔ جب ایک دہشت گرد حملہ ہوتا ہے، تو اسے بار بار دہرایا جاتا ہے اور اسے اسلام سے جوڑ دیا جاتا ہے۔ لیکن جب کوءی مسلم کمیونٹی دہشت گردی کا شکار ہوتی ہے، یا جب کوئی مسلم شخص اپنے معاشرے کے لیے کچھ اچھا کرتا ہے، تو وہ سرخیاں نہیں بنتی۔ بلکہ یکطرفہ بیانیہ لوگوں کے ذہنوں میں ایک خاص تصویر بنائی جاتی ہے۔ ایک ایسی تصویر جو حقیقت سے بہت دور ہے۔ مثال کے طور پر، جرمنی میں ہزاروں مہاجرین نے کورونا کی وبا کے دوران ہسپتالوں اور دیگر ضروری خدمات میں کام کیا، لیکن ان کی کہانیاں کم ہی سنائی گئیں۔ اسی طرح، برطانیہ میں مسلم کمیونٹیز نے خیراتی اداروں کے ذریعے ہزاروں لوگوں کی مدد کی، لیکن یہ خبریں سرخیوں کا حصہ نہیں بنیں۔ یہ عدم توازن نہ صرف غلط فہمیوں کو جنم دیتا ہے بلکہ اسلاموفوبیا کو بھی بڑھاوا دیتا ہے۔
مہاجرین کو نئے معاشرے کے قوانین اور اقدار کو قبول کرنا ہوگا، لیکن معاشرے کو بھی انہیں قبول کرنے کے لیے اپنے دل کھولنے ہوں گے۔ تعلیم، روزگار، اور سماجی رابطوں کے مواقع اس عمل کو آسان بنا سکتے ہیں۔ لیکن اس کے ساتھ ساتھ، نفرت کے بیانیے کو روکنے کے لیے سخت قوانین اور میڈیا کی ذمہ داری بھی اہم ہے۔ یہ امر بھی قابل غور ہے کہ اسلامو فوبیا صرف مہاجرین کا مسئلہ نہیں، بلکہ یہ ان لاکھوں مسلمانوں کو بھی متاثر کرتا ہے جو یورپ میں پیدا ہوئے اور پلے بڑھے۔ وہ لوگ جو یورپ کو اپنا گھر سمجھتے ہیں، لیکن پھر بھی اپنے مذہب یا شناخت کی وجہ سے امتیازی سلوک کا شکار ہوتے ہیں۔ یہ ایک ایسی ناانصافی ہے جو نہ صرف انفرادی سطح پر تکلیف دیتی ہے بلکہ پورے معاشرے کو کمزور کر رہی ہے۔ جب ایک کمیونٹی کو الگ تھلگ کیا جاتا ہے، تو وہ معاشرے کا حصہ بننے کے بجائے خود کو کنارے پر پاتی ہے۔
یہ کہانی صرف یورپ کی نہیں، بلکہ انسانیت کی ہے۔ جب ہم مہاجرین کو صرف ’’ مسئلہ‘‘ کے طور پر دیکھتے ہیں، تو ہم ان کی انسانیت کو نظر انداز کر دیتے ہیں۔ وہ لوگ جو اپنے گھر بار چھوڑ کر، اپنی جانیں خطری میں ڈال کر یورپ پہنچتے ہیں، وہ کوئی فتح کرنے نہیں آتے۔ وہ ایک بہتر زندگی کی تلاش میں آتے ہیں۔ وہی زندگی جو ہر انسان کا حق ہے۔ اور جب ہم اسلاموفوبیا کو ہوا دیتے ہیں، تو ہم نہ صرف ان مہاجرین کے ساتھ ناانصافی کرتے ہیں بلکہ اپنی ہی اقدار کو پامال کرتے ہیں۔ مہاجرین کو قبول کرنا ایک بڑا چیلنج ہے، لیکن اس سے بھی بڑا چیلنج ہے اس تعصب کو ختم کرنا جو مغربی ممالک کے عوام کے دلوں میں جاگزیں ہو چکا ہے۔ اس کا سدباب کرنا ناگزیر ہے۔

جواب دیں

Back to top button