Column

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی سیلابوں میں ملیں

اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی سیلابوں میں ملیں
تحریر : سیدہ عنبرین
دور زوال شروع ہو تو پھر ہر شعبہ زندگی میں زوال نظر آنے لگتا ہے، ہماری فلم انڈسٹری اپنے نکتہ کمال کو پہنچ چکی تھی، جس کے بعد زوال ہی آنا تھا، پھر ہمارے آپ کے دیکھتے ہی دیکھتے اس کا زوال شروع ہو گیا، لیکن اس کی وجہ زوال یہ نہ تھی کہ ہمارے پاس ڈھنگ کے ہیرو یا ہیروئنز نہ تھیں، اعلیٰ درجے کے فلمی پیئر موجود تھے، صلاحیتوں سے مالا مال کریکٹر ایکٹر، ولن، ڈانسرز، کیمرہ مین اور ٹیکنیشن بھی تھے۔ بات رائٹرز اور ڈائریکٹرز کی ہوتی تو بات پانچ سات پر آ کر رک جاتی، اس کے علاوہ درجنوں افراد تھے، جن کے نام کے ساتھ رائٹر اور ڈائریکٹر تو لکھا جاتا تھا لیکن وہ فوٹو کاپی مشین بنے ہوئے تھے یا پرنٹر کا کام کر رہے تھے، اندازہ کیجئے پنجابی کی سپر ہٹ فلم بشیرا اور مولا جٹ کے بعد بھی موضوع غالباً پانچ سو فلموں میں فلمایا گیا۔ نامور ہیرو سلطان راہی نے ایک ہی کردار سیکڑوں فلموں میں ادا کیا، حماقتوں کی انتہا یہ تھی کہ ان سیکڑوں فلموں میں انکا لاچہ کرتا، مونچھیں، جوتی اور وگ بھی ایک ہی تھی، لہجہ اور ڈائیلاگ بھی ایک ہی طرح کے تھے۔ ہیروئن سے محبت کرتے ہوئے قریبی درختوں کے پتے توڑنا، ہیروئن کی طرف پشت کر کے اس سے بیزاری اور کبھی کبھی اظہار یا زیادہ پیار آنے پر دو چار مرتبہ اسے اپنے سینے سے ایک ہی انداز میں چمٹا لینا، ناراضی کا اظہار کرتے ہوئے اس انداز میں چیخنا جیسے کسی پاگل کتے نے کاٹ لیا ہے اور فلم کے آخری سین میں سینے پر چھ گولیاں کھانے کے بعد بھی عدالت کے روبرو پہنچ جانا یا ہیروئن کی ماں کے پاس پہنچ کر اسے خوشخبری سنانا کہ اس نے ہیروئن کو اٹھالے جانے والے تمام غنڈے ٹھکانے لگا دیئے ہیں، جس پر ہیروئن کی ماں ہیروئن کا رشتہ کھڑے کھڑے سلطان راہی کے ساتھ طے کر دیا کرتی تھی۔ چوری چھپے اپنی ماں کی گفتگو سننے والی ہیروئن اپنی ماں کی طرف سے ’’ ہاں ‘‘ ہوتے ہی بھاگم بھاگ ملک کے باغ پہنچ جاتی اور ثابت کرتی کہ بھینس دو کلو سونا پہن کر کس طرح ناچتی ہے، چھلانگیں لگاتی ہے۔
پنجابی فلموں کی طرح ہماری سیلاب کہانی کا سکرپٹ بھی بہت پرانا ہے، گزشتہ پچاس برس سے اسے ایک ہی انداز میں پیش کیا جا رہا ہے، مرکزی کردار سی ایم اور سائیڈ ہیرو کے طور پر ان کے قریب ترین دوست منسٹر نظر آتے ہیں، ہر زمانے میں خانہ پری کیلئے ایک خاتون کی گنجائش رکھی جاتی ہے، خاتون وزیر دستیاب نہ ہو تو نائب وزیر، وہ بھی نہ ہو تو فردوس عاشق اعوان جیسی صلاحیتوں سے مالا مال مشیر جھاڑ پونچھ کر ترجمانی کیلئے دستیاب ہوتی ہے۔
سکرپٹ کے مطابق سیلابوں سے پندرہ روز قبل محکمہ موسمیات کی پیش گوئی سامنے آتی ہے کہ فلاں فلاں مہینے میں سیلاب آ سکتا ہے، اس کے چند روز بعد اشتہارات میں بتایا جاتا ہے کہ سیلاب آنے کی صورت میں عوام نے کیا کرنا ہے، مزید چند روز بعد شدید بارشوں کی اطلاع دی جاتی ہے، چار روز گزرنے کے بعد خبر دی جاتی ہے کہ کثیر رقم خرچ کر کے فلاں فلاں دریا، ندی نالوں کے پشتے مضبوط بنائے جا چکے ہیں، تین روز بعد افسر مجاز سوٹ بوٹ واسٹک پہنے آنکھوں پر سیاہ چشمہ لگائے دریا کنارے حالات کا جائزہ لیتے نظر آتے ہیں اور حکام بالا کو رپورٹ دیتے ہیں حالات کنٹرول میں ہیں ۔ سرکار یہی بیان جاری کر دیتی ہے، ابھی اس بیان کی باز گشت ختم نہیں ہوئی کہ ٹی وی چینلز اور سوشل میڈیا دکھانا شروع کرتا ہے کہ کس کس شہر میں پہلی ہی بارش سے سڑکیں، گلیاں تالاب کا منظر پیش کر رہی ہیں، سرکار پوچھتی نظر آتی ہے پانی کہاں کہاں کھڑا ہے۔ پانی نکالنے کے احکامات جاری کر کے قوم کو خوشخبری دی جاتی ہے پانی نکال دیا ہے، کبھی کبھی تو بتایا جاتا ہے پانی ریکارڈ ٹائم میں نکال دیا گیا ہے۔ اس بیان کے بعد سوشل میڈیا دکھاتا ہے پانی مکمل نہیں نکلا بلکہ اپنی جگہ پر پائوں پسارے بیٹھا ہے اور کہیں کہیں تو لیٹا ہوا ہے۔
ٹھیک تین روز کی بارش کے بعد بتایا جاتا ہے سیلاب کا خطرہ بڑھ گیا ہے، چند گھنٹے بعد اطلاع آتی ہے فلاں فلاں بند ٹوٹ گئے ہیں اور سیلاب پانی نے شہروں کا رخ کر لیا ہے، پانی چڑھتا جاتا ہے، پھر کشتیاں، خیمے، کھانے پینے کے چھوٹے موٹے ڈھابے، جانوروں کیلئے کھرلیاں دکھا کر بتایا جاتا ہے کہ سیلاب سے نپٹنے کیلئے تمام انتظامات بروقت کر لئے گئے ہیں۔ ساتھ ہی اطلاع دی جاتی ہے سیلاب متاثرین کو تنہا نہیں چھوڑیں گے۔ تنہائی کا دکھ بانٹنے کی خبر سن کر قوم کو یقین ہوجاتا ہے کہ اب اگلی خبر کیا آنیوالی ہے، پھر وہ خبر آ جاتی ہے ’’ بھارت نے پانی چھوڑ دیا ہے‘‘ اس کے بعد چراغوں میں روشنی نہیں رہتی، اس کے بعد سیلابی پانی کے ریلے، ان ریلوں میں گھیرے ہوئے کچے پکے مکان، کھڑی فصلوں کے اوپر سے گزرتا پانی، گہرے پانی میں ٹیوب کی مدد سے سفر طے کرتا ایک نوجوان، دو ڈرم جوڑ کر ان کے اوپر چارپائی باندھ کر سفینہ نجات بنائے ایک بزرگ گردن تک آئے پانی میں اپنی بچی کھچی پونچی کے ساتھ کسی کنارے پر پہنچنے کی جدوجہد کرتا نظر آتا ہے، ایک جوان لڑکی سرپر چھابے میں اپنے کمسن بچے کو بٹھائے پانی میں جدوجہد کرتی نظر آتی ہے۔ حلوائی کی بڑی سی کڑاہی میں بیٹھ کر چپو چلاتا بچہ دنیا کو حیران کرتے ہوئے بتاتا ہے موسم خوشگوار ہو تو اس کڑاہی میں دودھ ابالا جاتا ہے، سیلاب آنے پر سرکاری کشتی مدد کو نہ پہنچے تو کڑاہی کی کشتی بنالی جاسکتی ہے۔ دنیا اس ایجاد پر حیران رہ جاتی ہے۔ پنجابی فلم کے آخری مناظر دلدوز ہوتے ہیں، سلطان راہی دشمنوں کے سامنے تن تنہا ڈٹا نظر آتا ہے، گولیوں کی بوچھاڑ ہے، بدن سے لہو جاری ہوچکا ہے، لیکن وہ عزم و ہمت کی داستان بنا نظر آتا ہے، پھر کیمرہ اس کی گولیوں سے مارے گئے دشمن کی لاشیں دکھاتا ہے۔ سیلابی فلم کا آخری منظر بھی انسانوں کی چیخیں نکلوا دیتا ہے، اونچی لہروں کے تھپیڑوں میں بہتے انسان اور جانور بہتے چلے آتے ہیں۔ گائے، بھینسیں اپنی بہنوں اور انسان اپنے بھائیوں کی طرف امید بھری نظروں سے دیکھتے ہیں، لیکن کوئی کسی کی مدد نہیں کر سکتا، کچھ گرتے پڑتے کنارے پہنچ جاتے ہیں، کچھ موت کے گھاٹ اتر جاتے ہیں، کسی کو کفن مل جاتا ہے، کسی کی لاش تک نہیں ملتی۔ سیلابی فلم کے آخری منظر میں امدادی رقوم تقسیم ہوتی نظر آتی ہیں، اس سین کے پس منظر میں المیہ موسیقی بجائی جاتی ہے، اس منظر کو دیکھ کر دیکھنے والوں کی آنکھیں آنسوئوں سے بھیگ جاتی ہیں، فلم بین رونے لگیں تو فلم کامیاب سمجھی جاتی ہے، چار چھ ہفتے بعد فلم ڈبوں میں بند ہوجاتی ہے، لوگ سب کچھ بھول کر نئی فلم کا انتظار کرنے لگتے ہیں۔ فلمساز منافع سمیٹ کر کسی نئے پراجیکٹ پر کام شروع کر دیتے ہیں۔ سیلاب میں بچھڑنے والے اپنے پیاروں کی تلاش شروع کر دیتے ہیں، کالم کے اختتام پر ناصر شیرازی کی سیلاب شاعری سے ایک شعر
اب کے ہم بچھڑے تو شاید کبھی سیلابوں میں ملیں
یا پھر دھکے کھاتے سرکاری ایوانوں میں ملیں

جواب دیں

Back to top button