عمران خان کے دانتوں کو سپورٹیو مینجمنٹ کی ضرورت

عمران خان کے دانتوں کو سپورٹیو مینجمنٹ کی ضرورت
تحریر : امتیاز عاصی
یہ قدرتی امر ہے انسان جب قید و بند میں ہوتا ہے تو اسے کے منفی اثرات انسانی جسم پر رونما ہوتے ہیں۔ عام طور پر دوران اسیری سکن، عارضہ قلب، ٹی بی اور دیگر کئی بیماریاں لاحق ہو جاتی ہیں۔ چنانچہ اس مقصد کے لئے جیلوں میں ہسپتال قائم کئے گئے ہیں جہاں پہلے ایک میڈیکل افسر ہوتا تھا جبکہ آج کل کئی ایک میڈیکل افسر تعینات ہیں لیکن سپشلسٹ ڈاکٹر ناپید ہیں۔ کئی برس قبل اس وقت کے چیف جسٹس آف پاکستان جناب افتخار محمد چودھری نے سینٹرل جیل اڈیالہ کا دورہ بھی کیا تھا، جس کے بعد انہوں نے سرکاری ہسپتالوں سے ماہر ڈاکٹروں کو ماہانہ تمام جیلوں کا دورہ کرنے کے احکامات جاری کئے تھے، جن پر شدومد سے عمل جاری ہے۔ اس کے برعکس جیلوں میں ڈینٹل ڈاکٹر نہیں ہوتے، حالانکہ ڈینٹل چیئر موجود ہوتی ہے اور ایک ٹیکنشن بھی موجود ہوتا ہے، لیکن دانتوں کے ڈاکٹر نہیں ہوتے جس کی وجہ سے قیدیوں کی مشکلات بڑھ جاتی ہیں۔ ایک اردو معاصر میں خبر نظر سے گزری سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کی میڈیکل رپورٹ میں آیا ہے ان کے دانتوں کو سپورٹیو مینجمنٹ کی ضرورت ہے۔ اب سپورٹیو مینجمنٹ کیا ہوتی ہے جب کسی کے مسوڑے دانتوں کو چھوڑنا شروع کر دیں تو بھی دانت حساس ہو جاتے ہیں، جس سے کوئی چیز کھاتے وقت وہ دانتوں کو لگتی ہے اور دوسری وجہ یہ ہو سکتی ہے دانتوں کے اوپر ایک طے ہوتی ہے جسے انگریزی میںEnamalکہتے ہیں خراب ہو جائے تو بھی دانتوں کو گرم ٹھنڈا لگنا شروع ہوجاتا ہے، جس کا اگر بروقت علاج معالجہ نہ کیا جائے تو دانتوں میں انفکیشن کا قوی امکان ہے۔ یہ بات صوبائی محکمہ داخلہ پر منحصر ہے وہ سابق وزیر اعظم کو علاج معالجہ کے لئے جیل سے باہر سرکاری ہسپتال بھیجتے ہیں یا کسی ماہر ڈاکٹر کو جیل میں بلا کر ان کا علاج کرایا جاتا ہے۔ جہاں تک میرا خیال ہے عمران خان کو جیل سے باہر بھیجنے کا سوال پیدا نہیں ہوتا، البتہ حکومت کسی دانتوں کے ماہر ڈاکٹر کو بلا کر ان کا چیک اپ کرا سکتی ہے۔ کتنی بدقسمتی ہے بات ہے ایک شخص جو کبھی ملک کا وزیراعظم تھا اسے جیل میں بی کلاس میں رکھنے کی بجائے سزائے موت کے سیلوں میں رکھا گیا ہے، حالانکہ جیل میں باقاعدہ بی کلاس کے لئے ایک علیحدہ سے احاطہ موجود ہے، جس میں کئی ایک کمرے ہیں، جن کے ساتھ واش روم ہیں۔ اس سے قبل جب نوازشریف، آصف علی زرداری اور سید یوسف رضا گیلانی کو جیل بھیجا گیا تو انہیں بی کلاس کے لئے مختص جگہ پر رکھا گیا تھا۔ دراصل عمران خان اس وقت طاقتور حلقوں کے ناپسندیدہ شخصیت ہیں لیکن نواز شریف، زرداری اور یوسف رضا گیلانی جیل میں رہتے ہوئے بھی انہی حلقوں کے قریب تھے۔ ہمیں کسی سیاسی شخصیت سے کچھ لینا دینا نہیں، نہ ہی پی ٹی آئی سے کوئی تعلق ہے، تاہم ایک غیر جانبدار صحافی کی حیثیت سے غیر جانبدارانہ تجزیہ کرنا بھی ہماری ذمہ داری ہے۔ عرب ملکوں میں صحافت کو ایک امانت کے طور پر جانا جاتا ہے، ان کے نزدیک صحافت ایک امانت ہوتی ہے، لہذا جو لوگ اس پیشے سے وابستہ ہوں انہیں ایمانداری کے ساتھ اپنے پیشہ وارانہ فرائض کی انجام دہی کرنی چاہیے۔ اس ناچیز کے پاس بے شمار مثالیں ایسی ہیں، جن میں اچھے بھلے صحت مند قیدیوں کو جیل سے باہر سرکاری ہسپتالوں میں علاج معالجے کے بہانے بھیجا گیا، جہاں سے وہ فرار ہوگئے۔ سابق چیف جسٹس افتخار چودھری کے قریبی دوست سردار خان سابق اٹارنی جنرل کے قاتل کو علاج معالجے کے لئے جیل سے باہر بھیجا گیا تو وہ فرار ہو گیا، جس کے بعد وہ کئی سال تک روپوش رہا۔ فیس بک پر ایک صاحب کہہ رہے تھے عمران خان کی قوت سماعت اور آنکھوں کا بھی کوئی مسئلہ ہے۔ جہاں تک جرم کی بات ہے جس کسی نے جرم کیا ہو خواہ قتل کا ملزم کیوں نہ ہو، ایک انسان کے ناطے قیدیوں کے جو حقوق ہیں، اس سے محروم نہیں رکھا جا سکتا۔ قدرتی بات ہے جب انسان آزاد فضائوں میں ہوتا ہے چھوٹی موٹی تکالیف کی پروا نہیں کرتا، لیکن قید و بند میں معمولی سے تکلیف انسان کو زیادہ محسوس ہوتی ہے۔ عمران خان کو صحت کے جو مسائل درپیش ہیں حکومت چاہیے تو ایک دن میں ان کا علاج ہو سکتا ہے۔ سرکاری ہسپتالوں سے سپشلسٹ ڈاکٹروں کو بلا کر سابق وزیراعظم کا علاج کرایا جا سکتا ہے۔ بدقسمتی سے اس وقت انسانی حقوق کی بین الاقوامی تنظیموں نے بھی چپ سادہ رکھی ہے، حالانکہ وہ پاکستان سے موت کی سزا کو ختم کرانے کے لئے ہر حکومت پر دبائو ڈالے رکھتے ہیں۔ پاکستان میں اگر سزائے موت پر عمل درآمد رکا ہوا ہے تو یورپی یونین کے دبائو اور انسانی حقوق کی عالمی تنظیموں کے دبائو کی وجہ سے رکا ہوا ہے۔ عالمی انسانی حقوق کی تنظیموں کو عمران خان کے ساتھ ہونے والے ناروا سلوک دکھائی نہیں دے رہا ہے۔ سابق وزیراعظم کے دانتوں کے علاج کے لئے صرف ایک مرسلہ سرکاری ہسپتال کے میڈیکل سپرنٹنڈنٹ کو لکھنے کی ضرورت ہے، اگلے روز ڈاکٹر جیل جا کر اس کا علاج معالجہ کر سکتے ہیں۔ آج پاکستان اور اس کے عوام کو بہت سے ایسے مسائل کا سامنا ہے جن کے حل کرنے کے لئے عوام کو پرامن جدوجہد کی اشد ضرورت ہے۔ ملک کے عوام دو جماعتوں سے عاجز آئے ہوئے ہیں، جن کے رہنمائوں کے خلاف مبینہ منی لانڈرنگ کے مقدمات کے باوجود انہیں کلین چٹ دے دی گئی ہے، جس کے بعد عوامی مینڈیٹ برخلاف اقتدار ان کے حوالی کر دیا گیا ہے۔ آزاد عدلیہ کا تصور ملک میں ختم ہو چکا ہے، آئین میں من پسند ترامیم کرکے ججوں کو بے اختیار بنا دیا گیا ہے۔ تاسف ہے اسلام آباد ہائیکورٹ کے ان پانچ ججوں کی شکایت کا ابھی تک کوئی فیصلہ نہیں ہو سکا ہے تو ایک عام شہری کو عدلیہ سے انصاف کی کیا توقع ہو سکتی ہے۔ ملکی تاریخ کا یہ پہلا موقع ہے کسی سابق وزیراعظم کے خلاف ان گنت مقدمات قائم کئے گئے ہیں۔ عمران خان کے خلاف مقدمات کی سماعت آزادانہ اور باقاعدگی سے ہو تو کسی ایک مقدمہ میں سزا کا کوئی امکان نہیں۔







