Columnمحمد مبشر انوار

منافقانہ کردار

منافقانہ کردار
تحریر : محمد مبشر انوار(ریاض)

ابتلاء ہے کہ فلسطینیوں کی ہمرکابی سے الگ ہونے کے لئے تیار نہیںاور ہر گزرتا لمحہ ان کے لئے ایک نئی آزمائش لئے کھڑا ہے اورآفرین ہے غزہ کے ان نہتے و بے بس و بے کس مسلمانوں پر جو ظالم کے سامنے سر جھکانے کے لئے تیار نہیں۔ کون سا دکھ ہے جو غزہ کے مسلمانوں پر نہیں آزمایا جا چکا ہے، بھوک، پیاس، گولہ و بارود، موت کے ننگے ناچ سمیت ایسا کون سا دکھ ہے جو غزہ کے شہریوں پر نہیں ڈھایا گیا،کون سا خوف ہے جس سے ان کو ڈرایا نہیں گیا،گولہ و بارود، مائوں کے سامنے چھوٹے بچے،سہاگنوں کے سہاگ،بہنوں کے بھائی،والدین کے سامنے جوان اولادکے لاشے،بچوں کے سامنے بوڑھے بیمار والدین ،ان کی میتیں لیکن غزہ کے شہری اس سب کے باوجود ڈٹ کرکھڑے ہیں۔ آج کی خودساختہ مہذب دنیا کے بڑے بڑے نام،رہنما اور عالمی طاقتوں کے سربراہان کس قدر بے حسی کے ساتھ انسانی جانوں کا زیاں دیکھ رہے ہیں لیکن مجال ہے کہ امریکی آشیر باد سے ہونے والی اس نسل کشی کے خلاف کوئی ایک بھی بزور بروئے کار آئے؟ کس میں اتنی ہمت ہے کہ انسانی قیمتی جانوں کا راگ الاپنے والے ،غزہ کے شہریوں کی جانوں پر عملا کوئی اقدام کریں ؟ سوال مگر یہ بھی ہے کہ غیر مسلم کیوں اس سانحہ عظیم پر بروئے کار آئیں، جب مسلم ممالک ہی اپنے بھائی بندوں کی مدد کے لئے اترنے کو تیار نہیں بلکہ خبریں تو یہ بھی ہیں کہ کئی ایک مسلم ممالک بیک وقت قاتل و مقتول کے ساتھ اپنے تعلقات برقرار رکھنے میں عافیت سمجھ رہے ہیں کہ ایک طرف قاتل کو اسلحہ کی ترسیل میں کسی نہ کسی ذریعہ سے معاون ہیں تو دوسری طرف دنیا کے چودھریوں سے جنگ بندی کی التجائیں کرتے دکھائی دیتے ہیں ۔ بدقسمتی سے ان کے پلڑے کا وزن قاتل کے حق میں زیادہ دکھائی دیتا ہے کہ اگر قاتل کو اسلحہ کی ترسیل سے ہی ہاتھ کھینچ لیں تو کم ازکم مقتولین کی تعداد ہی کم ہو جائے،ظالم کا ہاتھ روک نہیں سکتے تو کم ازکم ظالم کے ہاتھ میں اسلحہ نہ دے کر بھی مظلوم کا ساتھ دیا جا سکتا ہے لیکن یہاں نو معاملہ ہی الگ ہے ۔ خیر ان حقائق کا رونا رونے سے کچھ حاصل نظر نہیں آتا کہ ہر حکمران اپنے ذاتی مفادات کا اسیر دکھائی دیتا ہے اور یوں سمجھتا ہے کہ وہ نہ صرف اپنی ریاست بلکہ اپنا اقتدار بھی بچا پائے گا جس کا امکان بہرطور کم ہی دکھائی دیتا ہے۔ امریکہ کی جانب دیکھتے دیکھتے غزہ کا جو حشر اسرائیل کرچکا ہے،وہ باقی مسلم دنیا کی آنکھیں کھولنے کے لئے کافی ہونا چاہئے بلکہ امریکہ کی جانب سے بھی جو سلوک اس وقت بھارت کے ساتھ روا رکھا جارہاہے،اس میں بھی مسلم ریاستوں بالخصوص جب کہ باقی دنیا کے لئے بالعموم سبق ہے لیکن تاریخ کا سبق یہ ہے کہ تاریخ سے کوئی سبق نہیں سیکھتا۔ امریکہ سے یہ توقع رکھنا کہ امریکہ اپنے ریاستی مفادات پر کسی دوسرے مفاد کو ترجیح دے سکتا ہے،عبث ہے کہ امریکی سب سے پہلے ترجیح اپنے ریاستی مفادات کو دیتے ہیں جبکہ باقی امور میں ان کارویہ انتہائی سے زیادہ اپنے مفادات کشید کرنے کا ہوتا ہے کہ اس معاشرے میں ’’ نو فری لنچ‘‘ کا قانون چلتا ہے۔
دوسری اہم بات یہ ہے کہ بڑی طاقتوں میں یہ ایک قدر مشترک ہے کہ وہ اپنے مفادات کے حصول میں کسی جلد بازی سے کام نہیں لیتے بلکہ بڑے سکون اور تحمل کے ساتھ معاملات کو چلاتے ہوئے اس نہج تک لے ہی جاتے ہیں جہاں ان کے منصوبوں کو ہی کامیابی ملتی ہے وگرنہ طاقت کے حوالے سے دیکھا جائے تو وہ اتنے کمزور قطعا نہیں کہ غزہ جیسی صورتحال سے نبردآزما نہ ہوسکیں یا اس کا فوری تدارک نہ کر سکیں۔ یہ کیسے اور کیونکر ممکن ہے کہ امریکہ جیسی ریاست ،غزہ میں ہونے والے جنگی جرائم ،نسل کشی اور انسانی حقوق کی پامالی کو نہ رکوا سکے؟یہ بھی ممکن نہیں کہ عالمی عدالت انصاف و جرائم کی جانب سے مجرم قراردئیے گئے شخص کوامریکہ یاترا کرنے کی نہ صرف اجازت ملے بلکہ اس کے ساتھ امریکی اعلی حکام کی طویل ترین نشتیں بھی ممکن ہو،جبکہ دوسری طرف اقوام متحدہ کا مجوزہ اجلاس ،جس میں مظلوم فلسطینیوں کے حق میں رائے شماری کا قوی امکان ہے،میں فلسطینیوں کے رہنما کے علاوہ کئی دیگر فلسطینیوں کے ویزا ہی منسوخ کر کے،دنیا بھر کی ملامت اپنے چہرے پر انڈیلنے سے بھی گریز نہ کیا جائے کہ فلسطینیوں کے اقوام متحدہ اجلاس میں شرکت سے امریکی منصوبوں /مفادات کو ٹھیس پہنچنے کا امکان ہے۔فلسطینیوں کے ویزے ایسے وقت میں منسوخ کئے گئے ہیں کہ جب اقوام متحدہ کا اجلاس تقریبا سر پر ہے اور اس اجلاس میں فرانس کے ساتھ سعودی کاوشوں کا ثمر ظاہر ہونے والا تھا لیکن فلسطینیوں کے ویزے منسوخ کرنے سے عین ممکن ہے کہ اس اجلاس کا بڑے پیمانے پر بائیکاٹ سامنے آجائے بشرطیکہ فلسطینیوں کے ویزے بحال نہیں ہوتے۔اس امریکی اقدام سے بہرحال ،امریکی روایات کو تو جو ٹھیس پہنچنی تھی،پہنچ چکی ہے اور جس کے متعلق صدر ٹرمپ معروف بھی ہیں کہ ان سے کسی بھی وقت کوئی بھی اقدام متوقع ہو سکتا ہے خواہ اپنے تئیں وہ ایسا کوئی بھی اقدام امریکہ کی برتری و بہتری کے لئے اٹھا رہے ہوں مگر درحقیقت ایسا اقدام امریکی ہزیمت کا باعث بنتا ہے مگر جس کی لاٹھی اس کی بھینس کے مصداق امریکی صدر کو اس سے کوئی فرق ہی نہیں پڑتا۔
علاوہ ازیں! جو نیا اقدام صدر ٹرمپ کی جانب سے سامنے آیا ہے،اس نے امریکی رویوں کو مزید آشکار کردیا ہے کہ امریکہ ،ہر طرح سے اسرائیلی مظالم کے ساتھ کھڑا دکھائی دے رہا ہے گو کہ زبانی جمع خرچ میں امریکہ ہنوز اسرائیل کو جنگ بندی کے لئے اصرار کر رہا ہے مگر درپردہ اسرائیل کو دی جانے والی مسلسل مہلت اس امر کی غمازی کر رہی ہے کہ امریکہ ہر صورت یہ چاہتا ہے کہ اسرائیل کسی بھی طرح غزہ کو شہریوں سے خالی کرائے۔ غزہ کو خالی کروانے کے لئے جو نیا منصوبہ سامنے آیا ہے اس کے مطابق، اسرائیل کو غزہ میں کھل کھیلنے کی اجازت مل چکی ہے اور اگلے چند گھنٹوں ( ممکنہ طور پر تحریر شائع ہونے تک ) اسرائیل کی فوج باقاعدہ طور پر غزہ میں پورے اسلحہ سے لیس داخل ہو چکی ہو اور شہریوں کے قتل عام میں مشغول ہو ( اللہ نہ کرے کہ ایسا ہو مگر مبینہ اطلاعات ایسی ہی ہیں )۔ گو کہ چند دن قبل حماس کی جانب سے دوبدو لڑائی میں، اسرائیلی فوجیوں کو جہنم واصل کرنے کی بجائے، حماس مجاہدین نے کوشش کی اسرائیلی فوجیوں کو قید کیا جائے، جس میں حماس مجاہدین کامیاب بھی ہوئے ہیں، اطلاعات یہی ہیں کہ حماس مجاہدین کی اولین کوشش یہی ہو گی کہ ممکنہ دوبدو لڑائی میں اسرائیلی فوجیوں کی اکثریت کو قیدی بنایا جائے لیکن کیا یہ ممکن ہو سکے گا؟ بلاشبہ حماس تاحال اپنے پورے عزم و استقلال کے ساتھ، اسرائیلی فوج کے سامنے ڈٹ کر کھڑی ہے لیکن کیا حماس کے پاس اتنے افرادی قوت باقی ہے یا اس کے پاس اتنا اسلحہ موجود ہے کہ وہ اسرائیلی فوج کے براہ راست حملے کا مقابلہ کماحقہ کر سکیں ؟بالخصوص جب انہیں کسی بھی طرف سے واضح طور پر کمک کی امید بھی نہیں کہ ان کے اڑوس پڑوس مسلم ریاستیں، اتنی سفاکی و درندگی دیکھنے کے باوجود براہ راست ان کی امداد کو نہیں پہنچی اور اب تو حماس تک اسلحہ پہنچنے کے امکانات بھی انتہائی معدوم ہیں، کب تک اسرائیلی جارحیت کا مقابلہ کر پائے گی؟ گو کہ ہمارا ایمان و یقین ہے کہ اللہ کی مدد و نصرت ہمیشہ مظلوم کے ساتھ رہتی ہے لیکن اس کی باوجود دنیاوی وسائل کے حوالے سے تیاری کے متعلق امکانات کو بہرطور نظر انداز نہیں کیا جا سکتا، اور یہ ہمیشہ کی طرح پرخلوص دعائیں فلسطینی مجاہدین کے ساتھ ہیں اور اللہ رب العزت سے یہ امید بھی کہ وہ ان کی غیبی مدد فرمائے، آمین۔
اسرائیل کو براہ راست جارحیت کی اجازت دینے کے پیچھے امریکی عزائم بھی واشنگٹن پوسٹ میں شائع ہو چکے ہیں جس میں دس سالہ منصوبے کا اعلان کیا جا چکا ہے کہ کس طرح فلسطینیوں کو غزہ خالی کرنے کا عوضانہ دیا جائے گا، انہیں دنیا کے دیگر خطوں میں بسانے کے لئے اخراجات ادا کئے جائیں گے، ان کے لئے کم از کم چار سال کے لئے رہائش کا عوضانہ ڈالروں میں دیا جائے گا، ایک سال تک کھانے کی مد میں مخصوص رقم ادا کی جائے گی، جبکہ غزہ نہ چھوڑنے والوں کے لئے غزہ ہی میں مختصر سی جگہ میں انہیں محبوس رکھا جائے گا، جو ویسے اس وقت بھی غزہ کے شہری محبوس ہی ہیں لیکن پوری دنیا میں سب سے زیادہ آزاد کہلائے جانے کے حقدار بھی وہی ہیں۔ جبکہ غزہ سے شہریوں کے انخلاء کے بعد، امریکہ، اسرائیل سے یہ خطہ حاصل کرکے یہاں بڑے بڑے ترقیاتی منصوبوں پر کام کرنا چاہتا ہے، جس میں سرمایہ کاری بھی امریکہ خود نہیں کرے گا لیکن منافع کا حصہ دار ہو گا۔ امریکہ کے اس چہرے سے واقف تو ساری دنیا پہلے سے ہی ہے لیکن امریکہ اس طرح اپنے چہرے کی نقاب کشائی خود کرے گا، اس کی توقع کسی کو بھی نہ تھی لیکن اس کا کریڈٹ بہرطور صدر ٹرمپ کو جاتا ہے کہ جن کے متعلق یہ مشہور ہے کہ وہ انتہائی غیر متوقع شخصیت ہیں اور اپنی خاصیت کے باعث صدر ٹرمپ نے امریکی منافقانہ کردار کو بھی ساری دنیا میں بے نقاب کر دیا ہے۔

جواب دیں

Back to top button