قدرتی آفات یا سیاسی محاذ آرائی : پاکستان کس طرف جا رہا ہے ؟

از : راؤ بلال
لاہور ، پاکستان
پاکستان کی زمین اس وقت بارشوں اور دریاؤں کے سیلابی ریلوں کے بوجھ تلے دبی ہوئی ہے۔ صرف پنجاب میں 24 لاکھ سے زائد افراد متاثر ہو چکے ہیں، 3200 دیہات ڈوب گئے، اور درجنوں جانیں جا چکی ہیں۔ حکومت کے اعداد و شمار بتاتے ہیں کہ 395 ریلیف کیمپ اور درجنوں میڈیکل مراکز قائم کیے گئے ہیں، لیکن سیلاب کے پانی کے آگے یہ انتظامات ایک کمزور سی لکیر دکھائی دیتے ہیں۔ ہیڈ محمد والا کے کنارے ڈائنامائٹ نصب کر کے شہر بچانے کی کوشش دراصل اس حقیقت کا اعتراف ہے کہ ہمارے پاس پانی کو روکنے کی پائیدار پالیسی نہیں، ہم ہر بار ایمرجنسی میں اپنی زمینوں اور بستیوں پر شگاف ڈال کر جانیں بچانے کی کوشش کرتے ہیں۔
ادھر سیاسی منظرنامہ بھی اپنی پوری شدت کے ساتھ موجود ہے۔ وفاقی وزیر ریلوے حنیف عباسی کا اپنی ہی کابینہ کے وزیر دفاع خواجہ آصف پر تنقید کرنا اس بات کا مظہر ہے کہ حکومت کے ایوان میں اتفاق کم ہو رہا ہے۔ ایک طرف سیلابی ریلے عوام کو ڈبو رہے ہیں اور دوسری طرف وزراء ایک دوسرے کو بیوروکریسی کے نام پر نشانہ بنا رہے ہیں۔ یہ تضاد ہمارے سیاسی نظام کی کمزوری کو عیاں کرتا ہے۔ حکومت میں بیٹھ کر اپوزیشن کا لہجہ اختیار کرنا محض عوامی اعتماد کو مزید مجروح کرتا ہے۔
خیبرپختونخوا میں علی امین گنڈاپور کی گفتگو اس سیاسی بحران کو ایک اور رخ دیتی ہے۔ صدارتی نظام کی حمایت، نئے صوبوں کا مطالبہ اور کالا باغ ڈیم جیسے پرانے زخم کو چھیڑنا دراصل قومی اتفاقِ رائے کو مزید تقسیم کرنے کا عمل ہے۔ گنڈاپور کے بیانات نے نہ صرف سندھ بلکہ بلوچستان اور اپنے ہی صوبے کے اندر سخت ردعمل پیدا کیا۔ نثار کھوڑو نے جب کہا کہ کالا باغ ڈیم سندھ کو بنجر بنانے کی سازش ہے تو یہ بیان محض ایک سیاسی جملہ نہیں تھا بلکہ ایک تاریخی خوف کا اظہار ہے۔ یہ وہی خوف ہے جو چار دہائیوں سے اس ڈیم کے سائے میں پل رہا ہے۔
پی ٹی آئی کے پارلیمانی واک آؤٹ نے بھی سیاسی تھیٹر میں ایک نیا منظر جوڑ دیا۔ اسد قیصر نے کہا کہ ہم سیلاب متاثرین کے ساتھ ہیں لیکن ان کا ایوان سے نکل جانا عوامی نمائندگی کے سوال کو جنم دیتا ہے۔ کیا یہ وقت احتجاج کا ہے یا ایوان میں رہ کر متاثرین کی آواز بلند کرنے کا؟ اسپیکر ایاز صادق کی یہ بات بالکل درست محسوس ہوئی کہ "جن کے علاقے ڈوبے تھے انہیں بات کرنا چاہیے۔” مگر ہماری سیاست نے ہمیشہ موقع پرستی کو اصول پر ترجیح دی ہے۔
یوں لگتا ہے جیسے ملک دو محاذوں پر لڑ رہا ہے۔ایک فطرت کی قہر انگیزی کے خلاف اور دوسرا سیاسی انتشار کے خلاف۔ افسوس یہ ہے کہ سیاستدانوں کے ایجنڈے اور بیانیے میں قدرتی آفات ہمیشہ ثانوی رہتی ہیں۔ پی ٹی آئی ہو یا حکومتِ وقت، ہر کوئی اپنے لیے تالی بجوانا چاہتا ہے لیکن متاثرہ کسان، بے گھر عورتیں اور کیچڑ میں کھیلتے بچے کسی کی ترجیح نہیں بنتے۔
اصل سوال یہ ہے کہ کیا پاکستان کے حکمران اس دوہرے بحران کو ایک موقع بنا سکتے ہیں؟ کیا یہ وقت نہیں کہ حکومت اور اپوزیشن دونوں مل بیٹھ کر ایک قومی ایمرجنسی پلان ترتیب دیں جس میں نہ صرف سیلاب کی فوری ریلیف بلکہ آئندہ دہائیوں کے لیے واٹر مینجمنٹ اور ڈیزاسٹر رسک ریڈکشن کے عملی منصوبے ہوں؟ یا پھر یہ بحران بھی ان گنت نعروں اور ٹی وی مباحثوں کی نذر ہو جائے گا؟
یہ پیغام ہے کہ ملک کے مستقبل کا فیصلہ اب صرف عدالتوں، اسمبلیوں یا جلسوں میں نہیں ہوگا۔ اصل فیصلہ اس بات پر ہوگا کہ ہم اپنی ترجیحات کو کب بدلتے ہیں۔ اگر سیاست دانوں نے طاقت کے کھیل کو عوام کی زندگیوں پر ترجیح دی تو سیلاب کا ہر نیا ریلا نہ صرف کھیت اور مکان بہائے گا بلکہ قوم کے اعتماد کو بھی بہا لے جائے گا۔ لیکن اگر یہی بحران ہمیں جگا دے اور ہم اپنے اداروں، معیشت اور سیاست کو ایک قومی ایجنڈے کے تحت جوڑ دیں تو شاید یہ آفت ایک موقع میں بدل جائے۔
یہ وقت ہے کہ سیلابی پانیوں میں ڈوبتے پاکستان کو سیاست کی آلودگی سے نکالا جائے۔ ورنہ تاریخ ہمیں یہ بتائے گی کہ جب دریاؤں کے کنارے ڈوب رہے تھے تو ایوانِ اقتدار میں سیاستدان محاذ آرائی کے سیلاب میں بہہ رہے تھے۔







