عدل
عدل
شہر خواب ۔۔۔
صفدر علی حیدری
عدل کی اصطلاح بہت سننے میں آتی ہے۔ دیکھتے ہیں عدل سے اصل میں ہے کیا ؟۔
راغب اصفہانی کے نزدیک عدل مساوات کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ عدل یعنی برابری کی بنیاد پر تقسیم کرنا۔
کہتے ہیں ہر چیز اپنی ضد سے پہچانی جاتی ہے۔ اب عدل کا متضاد ظلم و جور ہے۔
اور ظلم کی مشہور و معروف تعریف ہے ’’ کسی چیز کو اس کے مقام سے ہٹا دینا ‘‘۔
گویا ’’ کسی چیز کو اس کے اپنے مقام کی بجائے دوسرے مقام پر رکھنا ‘‘ ظلم کہلائے گا اور کسی چیز کو اس کے موزوں مقام پر رکھ دینا عدل۔
قیمتی ترین جوتا بھی ہو تو سر پر نہیں رکھا جا سکتا۔ اور پھٹی پرانی دستار بھی ہو ہو تو قدموں میں نہیں رکھ سکتے۔
دین میں اس کی اہمیت کا اندازہ اس امر سے لگائیں کہ امامیہ و معتزلہ اس کی اہمیت کے پیش نظر اسے اصول دین میں سے قرار دیتے ہیں۔
تحقیقی اعتبار سے عدل کا مادہ ایک ہی اصل میں استعمال ہوتا ہے جس کا معنی افراط و تفریط کا وسط اور درمیان ہے اس طرح سے کہ جس میں نہ تو کمی ہو اور نہ ہی اس میں کسی قسم کی زیادتی ہو۔ اسی اصل کی مناسبت سے اقتصاد، مساوات، قسط اور استقامت کے لیے کسی ایک اضافی قید اور شرط کے ساتھ استعمال ہوتا ہے۔ جب اسی لفظ کو عن کے ساتھ استعمال کرتے ہیں تو یہ اعراض اور انصراف کے معنی پر دلالت کرتا ہے۔
اصطلاحی اعتبار سے علم فقہ اور علم کلام میں عدل کا لفظ دو مختلف معانی میں استعمال ہوتا ہے۔
علم کلام میں عدل سے مراد یہ ہے کہ اللہ سبحانہ تعالیٰ عادل ہے ظالم نہیں ہے۔ وہ فعل قبیح کو انجام نہیں دیتا مثلا ظلم کرنا اور واجب کو ترک نہیں کرتا ہے۔ جیسے یہ عقیدہ رکھنا کہ اللہ ظالم نہیں وہ عادل ہے۔ وہ اپنا فیصلہ کرنے اور حکم لگانے میں ظلم سے کام نہیں لیتا ہے۔ اطاعت گزاروں کو جزا اور گناہ گاروں کو سزا دیتا ہے۔ انسانوں پر ان کی استطاعت سے زیادہ کوئی ذمہ داری نہیں ڈالتا۔
علماء کے نزدیک عادل اس شخص کو کہا جاتا ہے جو دین ، احکام اور مروت میں عادل ہو۔ دین میں عادل ہونا یعنی کسی شخص میں اسباب فسق نہ پائے جاتے ہوں: مروت میں عادل ہونا یعنی ایسے امور سے اجتناب کرنا کہ جس کی وجہ سے اس کی مروت میں کمی آتی ہو جیسے راستے میں کھڑے ہو کر کھانا۔
احکام میں عادل ہونا یعنی کسی شخص کا بالغ او عاقل ہونا۔ جب کسی شخص میں تینوں صفات پائی جائیں گی تو ایسے شخص کی گواہی قبول کی جائے گی۔
نبوت اور قیامت اصول دین میں سے دو ایسی اصلیں ہیں جنہیں اس وقت تک ثابت نہیں کیا جا سکتا جب تک انسان خدا کے متعلق اس کے عادل ہونے کا یقین نہ رکھتا ہو۔ جب کسی نبی کی نبوت ثابت نہیں ہو گی تو اس کے لوازمات جیسے کسی بھی نبی کی صداقت، کوئی بھی شریعت، کسی بھی آسمانی کتاب کا نزول اور اسی طرح قیامت اور اس کے لوازمات جیسے مسلمانوں کے ان کے اچھے عمل کی جزا اور مشرکین ، کفار اور فاسقین وغیرہ کو ان کے برے اعمال کی سزا وغیرہ بھی ثابت نہیں ہوں گے۔ چوں کہ نبوت اور قیامت جیسے اہم اصول دین کا اثبات خدا کی عدالت کے عقیدے پر موقوف ہے۔
نبی جب اللہ کی جانب سے مبعوث ہونے کا دعویٰ کرتا ہے تو وہ تصدیق کی غرض سے معجزہ دکھاتا ہے۔
ہر وہ شخص جس کی خدا تصدیق کر دے تو وہ اپنے دعویٰ میں سچا ہے۔
عدل اللہ کی صفات کمالیہ میں سے ہے اور اس کا معنی یہ ہے:
خدا اپنے فیصلوں اور احکام میں ظلم نہیں کرتا، نیک لوگوں کو جزا اور گناہ گاروں کو عقاب دیتا ہے۔ نیز اپنے بندوں پر ان کی استطاعت اور قدرت سے زیادہ ذمہ داری نہیں ڈالتا ہے اور ان کے استحقاق سے زیادہ انھیں سزا نہیں دیتا ہے۔ ظلم عیب ہے اور خدا اس سے منزہ ہے
ارشاد قدرت ہے
’’ ہم کسی شخص کو اس کی وسعت سے زیادہ تکلیف نہیں دیتے اور ہمارے پاس وہ کتاب ( نامہ اعمال) ہے جو حق کے ساتھ بولتی ہے اور ان پر ظلم نہیں کیا جائے گا‘‘۔
احادیث میں ملتا ہے کہ انسان اپنے اور دوسروں کے درمیان ہر معاملے میں خود کو میزان قرار دے، جو اپنے لیے پسند کرتے ہو وہی دوسروں کے لیے بھی پسند کرے اور جو اپنے لیے نہ چاہے اُسے دوسروں کے لیے بھی نہ چاہے۔
مولا علیؓ عدل کو ایمان کے چار ستونوں میں ایک قرار دیتے ہوئے فرماتے ہیں :
’’ ایمان، چار ستونوں پر قائم ہے: ’’ صبر ، یقین، عدل اور جہاد ‘‘۔
اور عدل کی بھی چار شاخیں ہیں:
تہوں تک پہنچنے والی فکر ، علمی گہرائی ، فیصلہ کی خوبی اور عقل کی پائیداری ۔
آنجناب اس بات کو عدل کے منافی قرار دیتے ہیں کہ ظن و گمان پر اعتماد کرتے ہوئے فیصلہ کیا جائے ۔
آپ ہی کا فرمان ہے
’’ ظالم کے لیے انصاف کا دن اس سے زیادہ سخت ہو گا جتنا مظلوم پر ظلم کا دن ‘‘۔
آپ سے عدل اور سخاوت کے حوالے سے سوال کیا گیا تو فرمایا:
’’ عدل تمام امور کو ان کے موقع و محل پر رکھتا ہے اور سخاوت ان کو ان کی حدوں سے باہر کر دیتی ہے۔ عدل سب کی نگہداشت کرنے والا ہے اور سخاوت اسی سے مخصوص ہو گی جسے دیا جائے۔ لہٰذا عدل سخاوت سے بہتر و برتر ہے‘‘۔
آپ نے فرمایا
’’ عدل یہ ہے کہ ظلم و قبح کی جتنی صورتیں ہو سکتی ہیں ان کی ذات باری سے نفی کی جائے‘‘۔
نیز
’’ عدل کے تقاضوں کو پورا کرنے میں وسعت ہے اور جسے عدل کی صورت میں تنگی محسوس ہو اُسے ظلم کی صورت میں اور زیادہ تنگی محسوس ہو گی‘‘۔
ہم عدل پر غور کرتے ہیں تو معلوم پڑتا ہے کہ عدل پر ہی کائنات کا نظام قائم ہے۔ بڑے بڑے سیاروں سے لے کر چھوٹے چھوٹے ذرات تک، سب میں عدالت کار فرما ہے اور اگر ان میں عدالت کا توازن ذرا سا بگڑ جائے تو نظام ہستی درہم برہم ہو جائے گا۔ خود انسان کا وجود اور اس کے بدن کا سسٹم ، خدا کے نظام توازن اور تعادل کا بہترین مظہر ہے ۔ خلل کی صورت میں انواع و اقسام کی مہلک امراض وجود میں آتی ہیں۔
اسی سی اندازہ لگائیں کہ اتنا بڑا انسانی سماج اور پورا نظام حیات، عدالت و توازن کے بغیر کیسے منزل مقصود تک پہنچ سکتا ہے؟
انسانی معاشرے کی اسی ضرورت کے پیش نظر، اللہ تعالیٰ نے انبیاء و مرسلین کو بھی دنیا میں عدل قائم کرنے کیلئے بھیجا ہے۔
’’ ہم نے واضح دلائل کے ساتھ اپنے رسولوں کو بھیجا اور ان کے ساتھ کتاب و میزان نازل کیا تاکہ انسانی سماج میں عدالت کا قیام ہو ‘‘۔
اسلام کی نظر میں عدالت کا تعلق بین الاقوامی حقوق سے ہے ، یعنی اسلام عدالت کا برتائو برتنے میں مسلمانوں اور غیر مسلمانوں کے درمیان تفریق کا قائل نہیں ہے ۔
’’ اے صاحبان ایمان! ہمیشہ اللہ کے لئے قیام کرو اور بر بنائے عدالت گواہی دو اور کہیں ایسا نہ ہو کہ کسی قوم کی دشمنی تم کو عدالت کے راستہ سے ہٹا دے تم ہمیشہ عدل و انصاف کا برتائو کرو کہ عدالت پرہیزگاری کے زیادہ نزدیک ہے ‘‘۔
اسلامی تعلیمات میں عدل تین مقامات پر استعمال ہوا ہے
عدالت الٰہی
عدالت ذاتی، جو کہ قضاوت، نماز جمعہ و جماعت کی امامت وغیرہ کی شرط ہے۔
عدالت اجتماعی، جو کہ سماج اور معاشرہ کے تمام شعبوں کو اپنے اندر شامل کر لیتی ہے۔
سرکار ختمی مرتبت قوموں کی تباہی کی وجہ عدل کے نہ ہونے کو قرار دیتے ہیں کہ امراء کو معاف دیا جاتا ہے اور غرباء کو سخت ترین سزا دی جاتی ہے۔
ظاہر ہے اسے عدالت تو نہیں کہیں گے
مولا علیؓ کا ایک مشہور قول ہے
’’ حکومت کفر سے تو قائم ہو سکتی ہے ظلم سے نہیں ‘‘۔
وہ معاشرے جن میں جمہوریت اپنی اصل روح کے ساتھ موجود نہیں ہے وہ اسی لیے تو زوال و انحطاط کا شکار ہیں۔ تاریخ عالم گواہ ہے کہ کوئی قوم کبھی بھی عدل و انصاف کے بغیر ترقی نہیں کر پائی اور اگر کوئی ترقی یافتہ معاشرہ زوال کا شکار ہوا ہے تو وجہ عدل و انصاف کی کمی ہی رہی ہے۔
پاکستانی معاشرے کے بارے میں عموماً کہہ دیا جاتا ہے کہ یہاں سب چلتا ہے۔ ظاہر ہے پھر ایسا ملک نہیں چلتا۔ اور ہمارے ملک کی صورت حال ہمارے سامنے ہے۔ دعا ہے کہ اللہ تعالیٰ ہمارے حال پر نظر کرم فرمائے اور ہمارے لیے عدل و انصاف کا نظام قائم کر دے۔ ایسا مگر تبھی ہو گا جب ہم خود اس کے لیے کوئی کوشش کریں گے۔ کیوں کہ سنت الٰہیہ ہے کہ کسی قوم کی حالت تب تک نہیں بدلی جاتی جب تک وہ خود اپنی حالت نہ بدلنا چاہے۔
کسی نے کیا اچھا کہا ہے:
ظلم بچے جن رہا ہے کوچہ و بازار میں
عدل کو بھی صاحب اولاد ہونا چاہیے





