
جگائے گا کون؟
ایس سی او اجلاس سے مودی فرار
تحریر: سی ایم رضوان
ایس سی او اجلاس کے اعلامیہ میں پاکستان کے موقف کو تسلیم کر لیا گیا جبکہ اس سے چند روز قبل امریکہ کی جانب سے جعفرآباد ایکسپریس اور خضدار حملوں کی نہ صرف مذمت کی گئی بلکہ دہشتگردی پر پاکستان کے موقف کی واضح اور دوٹوک انداز میں تائید بھی سامنے آ چکی ہے۔ اب یہ کہنا کسی طور بھی مشکوک یا قابل تردید نہیں رہا کہ پاکستان کے موقف کو امریکہ اور چین سمیٹ پوری دنیا نے تسلیم کر لیا ہے اور اب ایس سی او اجلاس کے مذکورہ اعلامیہ میں بھی گویا فیلڈ مارشل جنرل سید عاصم منیر کی اصولی طور پر موثر، مستحکم اور مستقل نوعیت کی عسکری و سفارتی کوششوں کو اب ایس سی او اجلاس میں دہشتگردی کی تمام اقسام کو قابل مذمت قرار دینا پاکستان کے موقف کی ایک مرتبہ پھر تائید ہے، چین کی تیانجن یونیورسٹی میں شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) کے سربراہی اجلاس کے اعلامیہ میں کہا گیا ہے کہ دہشتگردی پر پاکستان کا موقف ہمیشہ سے واضح اور دو ٹوک رہا ہے جسے پوری دنیا نے تسلیم کیا ہے۔ اعلامیہ میں دہشتگردی کی تمام اقسام کو قابل مذمت قرار دینا پاکستان کے موقف کی تائید کی گئی ہے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہی کہ دہشتگردی کے خلاف جنگ میں دہرے معیار کو کسی صورت قبول نہیں کیا جا سکتا۔ اعلامیے میں جعفر ایکسپریس اور خضدار میں بچوں کی سکول بس پر حملے کی شدید الفاظ میں مذمت کی گئی اور زور دیا گیا ہے کہ دہشتگردوں کی سرحد پار نقل و حرکت سمیت دہشتگردی کے تمام پہلوئوں کا موثر انداز میں مقابلہ کیا جائے۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک نے اس بات پر بھی زور دیا گیا کہ اقوام متحدہ کی سلامتی کونسل کی متعلقہ قرار دادوں، عالمی انسداد دہشتگردی کی حکمت عملی اور اقوام متحدہ کے اصولوں کے مطابق تمام دہشتگرد تنظیموں کے خلاف مشترکہ اور موثر کارروائی کی جائے۔ اعلامیے میں کہا گیا ہے کہ افغانستان میں پائیدار امن کے لئے تمام نسلی سیاسی گروہوں کے نمائندوں کی شمولیت سے وسیع شرکت کے ساتھ حکومت قائم کی جائے۔ یہ بھی کہا گیا کہ ہر قوم کو آزادی سے اپنے سیاسی، سماجی اور اقتصادی راستے کا انتخاب کرنے کا حق حاصل ہے، دہشتگرد گروہوں کو سیاسی یا کرائے کے مقاصد کے لئے استعمال کرنا ناقابل قبول ہے۔
یاد رہے کہ پاکستان کے مقابلے میں بھارت کے حسد اور دہشتگردی کے ضمن میں بھارت کے احساس جرم نے اسی سال جون میں کمال یہ کیا تھا کہ اس نے تب جاری ہونے والے اسی ایس سی او اعلامیہ کو پاکستان نواز قرار دے کر مسترد کر دیا تھا۔ تب انڈین وزیر دفاع راج ناتھ سنگھ نے الزام عائد کیا تھا کہ وہ مشترکہ اعلامیہ پاکستان کے بیانیے کے مطابق تھا کیونکہ اس میں پہلگام حملہ شامل نہیں کیا گیا تھا لیکن یاد رہے کہ اس میں بلوچستان میں عسکریت پسندوں کی سرگرمیوں کا ذکر ضرور کیا گیا تھا۔ 26جون 2025ء کو مشرقی چین کے صوبہ شان ڈونگ کے شہر چنگ ڈائو میں شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع اجلاس کے موقع پر بیجنگ کی جانب سے علاقائی قیادت کی کوششوں کو جمعرات کو اس وقت دھچکا لگا تھا جب انڈیا نے چین کی میزبانی میں شنگھائی تعاون تنظیم ( ایس سی او) کے رکن ممالک کے وزرائے دفاع اجلاس کے مشترکہ اعلامیے کو ’’ پاکستان حامی‘‘ قرار دے کر دستخط کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ راج ناتھ سنگھ نے پاکستان کا نام لئے بغیر ایس سی او پر زور دیا تھا کہ وہ ان ممالک پر تنقید کرے جو سرحد پار دہشتگردی کو پالیسی کے ایک آلے کے طور پر استعمال کرتے ہیں اور دہشتگردوں کو پناہ دیتے ہیں۔ انہوں نے کہا تھا کہ اراکین کو دہشتگردی کے خاتمے کے لئے متحد ہونا چاہیے اور اس طرح کی سرگرمیوں میں مدد کرنے والوں کا احتساب یقینی بنانا چاہیے جبکہ پاکستان کے وزیر دفاع خواجہ محمد آصف نے شنگھائی تعاون تنظیم کے وزرائے دفاع اجلاس سے خطاب میں ایران کے خلاف اسرائیل کے بلاجواز اور غیر قانونی فوجی اقدامات کی مذمت کرتے ہوئے عالمی برادری پر کشمیر اور فلسطین جیسے دیرینہ تنازعات حل کرنے کی ضرورت پر زور دیا تھا۔ انہوں نے کہا تھا کہ پاکستان بین الاقوامی طور پر تسلیم شدہ متنازعہ اور غیر قانونی طور پر مقبوضہ علاقے جموں و کشمیر ( کے علاقے پہلگام) میں دہشت گرد حملے کی مذمت کرتا ہے۔ انہوں نے کسی ملک کا نام لئے بغیر کہا تھا کہ ہم تمام ممالک سے مطالبہ کرتے ہیں کہ وہ ان ریاستوں کو جواب دہ بنائیں جو جعفر ایکسپریس جیسے دہشتگرد حملوں کی منصوبہ بندی، مالی معاونت اور سرپرستی کرتی ہیں، جیسا کہ بلوچستان، پاکستان میں ہوا۔ وزیر دفاع نے عالمی تنازعات پر گہری تشویش کا اظہار کرتے ہوئے ایران کے خلاف اسرائیل کے بلاجواز اور غیر قانونی فوجی اقدامات کی بھی مذمت کی تھی۔ انہوں نے غزہ میں بڑھتی ہوئے تشدد اور انسانی بحران پر بھی گہری تشویش کا اظہار کیا اور اسرائیل کی فلسطینی شہریوں پر وحشیانہ اور مسلسل حملوں کو روکنے اور انسانی امداد کی آزادانہ فراہمی کو یقینی بنانے کے لئے مستقل فائر بندی کے فوری نفاذ کا مطالبہ بھی کیا تھا۔ دہشتگردی کے معاملے پر انہوں نے کہا تھا کہ یہ ایک مشترکہ خطرہ ہے اور اس کا مقابلہ اجتماعی طور پر کرنا ہو گا۔ بقول خواجہ آصف، پاکستان تمام ممالک سے مطالبہ کرتا ہے کہ وہ بین الاقوامی برادری کی دہشت گردی کے خلاف مشترکہ کوششوں کو سیاسی مقاصد کے لئے استعمال نہ کریں اور اپنی داخلی ناکامیوں سے توجہ ہٹانے کے لئے اس جدوجہد کو نہ الجھائیں۔ انہوں نے دہشت گردی کی ہر شکل اور ہر صورت میں بھرپور مذمت کا اعادہ کیا۔ اپنے خطاب میں وزیر دفاع نے ایس سی او کے اصولوں اور مقاصد سے پاکستان کی پختہ وابستگی کا اعادہ کرتے ہوئے اجتماعی سلامتی، انسداد دہشتگردی کی مربوط کوششوں اور علاقائی رابطے کے فروغ کی اہمیت کو اجاگر کیا۔ انہوں نے کہا تھا کہ ایس سی او اپنے رکن ممالک کے درمیان مکالمے، باہمی اعتماد اور شراکت داری کو فروغ دیتے ہوئے استحکام کا اہم ستون ہے۔ خواجہ آصف نے اقوام متحدہ، ایس سی او کے منشور اور عالمی سطح پر تسلیم شدہ بین الاقوامی قوانین کی پاسداری کرنے کا اعادہ کرتے ہوئے کہا تھا کہ پاکستان امن، سلامتی، ہمسایہ ممالک کے درمیان خوشگوار تعلقات اور ملکوں کے درمیان تعاون کے فروغ کے لئے پرعزم ہے۔ ایس سی او کے تحت علاقائی خوشحالی کے مشترکہ مقصد کے حصول کے لئے پرامن اور مستحکم افغانستان ناگزیر ہے تاکہ علاقائی رابطے کو فروغ مل سکے۔
یہاں یہ امر بھی قابل ذکر ہے کہ چین کافی عرصے سے 10رکنی شنگھائی تعاون تنظیم کو مغربی طاقتوں کے اتحاد کے مقابلے میں متبادل قوت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ اس نے تنظیم کے رکن ممالک کے درمیان سیاست، سکیورٹی، تجارت اور سائنس کے شعبوں میں تعاون مضبوط بنانے کی کوشش کی۔ چنگ ڈائو میں تنظیم کے اعلیٰ دفاعی حکام کی یہ ملاقات ایک ایسے وقت میں ہوئی تھی جب اسرائیل اور ایران کے درمیان 12روزہ جنگ کے بعد نافذ ہونے والی جنگ بندی فی الحال برقرار تھی۔ یہ ملاقات دی ہیگ میں ہونے والے نیٹو کے سربراہی اجلاس کے اگلے دن ہوئی، جس میں رکن ممالک نے امریکی صدر ڈونلڈ ٹرمپ کے مطالبے پر اپنے دفاعی بجٹ بڑھانے پر اتفاق کیا تھا۔ اب جبکہ بیجنگ کے ماسکو کے ساتھ تعلقات بھی نمایاں ہیں۔ چین نے یوکرین کے خلاف روس کی جنگ میں خود کو غیر جانبدار فریق کے طور پر پیش کیا ہے، تاہم مغربی حکومتوں کا کہنا ہے کہ چین کے روس کے ساتھ قریبی تعلقات نے ماسکو کو معاشی اور سفارتی مدد فراہم کی ہے۔ روسی وزیر دفاع آندرے بیلوسوف نے مذکورہ اجلاس میں اپنے ہم منصب وزرا سے خطاب کرتے ہوئے دنیا کی بگڑتی ہوئی جغرافیائی سیاسی کشیدگیوں کی تاریک تصویر پیش کی تھی۔ روسی وزارت دفاع نے کہا کہ دنیا کی موجودہ عسکری اور سیاسی صورت حال مشکل ہے اور مزید خراب ہونے کے آثار نمایاں ہیں۔
چین کی سفارتی تاریخ کا یہ بھی ایک نمایاں پہلو ہی کہ اس نے دوسری جنگ عظیم میں جاپانی جارحیت کے خلاف عوامی جنگ اور عالمی سطح پر فاشزم کے خاتمے کی یاد میں ہر سال تقریبات منعقد کرتا ہے اب وہ اسی سلسلے میں 80ویں سالگرہ کی تقریبات شاندار پیمانے پر منا رہا ہے، جسے حالیہ برسوں کی سب سے بڑی سفارتی سرگرمی قرار دیا جا رہا ہے۔ آج 3ستمبر کو ہونے والی ان تقریبات میں پوتن، شہباز شریف، کم جونگ اُن، مسعود پزشکیان سمیت دنیا کے 26ممالک کے سربراہان اور اعلیٰ رہنما شریک ہوں گے جبکہ بھارتی وزیراعظم نریندر مودی کا نام مہمانوں کی فہرست میں شامل نہیں ان کی غیر حاضری نے سب کی توجہ اپنی جانب مبذول کر لی ہے، جسے خطے اور عالمی سیاست کے تناظر میں خاص اہمیت کے ساتھ دیکھا جا رہا ہے۔ چین تقریبات کو عسکریت پسندی اور یک طرفہ پالیسیوں کے خلاف عالمی اتحاد کی علامت کے طور پر پیش کر رہا ہے۔ ماہرین، اعلیٰ سفارتی ذرائع کے مطابق شریک رہنمائوں کی فہرست اس بات کا ثبوت ہے کہ چین نے اپنی سفارت کاری کو ایشیا، افریقہ، یورپ اور لاطینی امریکا تک وسیع کر دیا ہے۔ روسی صدر ولادی میر پوتن، شمالی کوریا کے رہنما کم جونگ اُن، کمبوڈیا کے بادشاہ نورودوم سیہامونی، ویتنام کے صدر تو لام، لائوس کے صدر اور جنرل سیکرٹری تھونگ لون سسولیتھ، انڈونیشیا کے نو منتخب صدر پرابوو سبینتو، ملائیشیا کے وزیراعظم انور ابراہیم اور منگولیا کے صدر اوخنا خورلسوخ تقریب میں شریک ہوں گے جبکہ جنوبی ایشیا سے پاکستان کے وزیراعظم شہباز شریف، نیپال کے وزیراعظم پُشپ کمال دہل پرچنڈا اور مالدیپ کے صدر محمد معیزو نے بھی اپنی شرکت کی تصدیق کی ہے، جو چین کے خطے میں بڑھتے ہوئے اثر و رسوخ کو نمایاں کرتی ہے۔ وسطی ایشیا سے قازقستان کے صدر قاسم جومارت توقایف، ازبکستان کے صدر شوکت مرزیایوف، تاجکستان کے صدر امام علی رحمان، کرغیزستان کے صدر صادیر عاپاروف اور ترکمانستان کے صدر سردار بردی محمدوف بیجنگ پہنچ چکے ہیں۔ تقریب میں دیگر خطوں سے بھی متعدد سربراہان شریک ہیں، جن میں بیلا روس کے صدر الیگزینڈر لوکا شینکو، آذربائیجان کے صدر الہام علییف، آرمینیا کے وزیراعظم نیکول پاشینیان، ایران کے صدر مسعود پزشکیان، کانگو کے صدر ڈینس ساسو نگوسو، زمبابوے کے صدر ایمرسن مننگاگوا، سربیا کے صدر الیگزینڈر ووچچ، سلوواکیہ کے وزیراعظم رابرٹ فیکو، کیوبا کے صدر میگوئل ڈایاز کینل ( جو کمیونسٹ پارٹی کے پہلے سیکرٹری بھی ہیں) اور میانمار کے قائم مقام صدر مینت سوی شامل ہیں۔ اس میں مودی کی عدم شرکت اور اس سے قبل ایس سی او اجلاس کے دوسرے سیشن میں عدم شرکت ظاہر کرتی ہے کہ مودی نہ صرف ان اجلاسوں سے فرار ہو گیا ہے بلکہ وہ اخلاق، اصول پر مبنی دہشتگردی کے خلاف ہر مکالمے سے فرار ہو گیا ہے کیونکہ اب دنیا دہشتگردی اور حقائق پسندی کے حوالے سے پاکستان کا موقف تسلیم کر چکی ہے اور ظاہر ہے مودی جیسا دہشتگرد، جھوٹا پراپیگنڈا کرنے والا اور فتنہ پسند حکمران فرار ہی ہو گا۔





