Column

حرف جاوید

حرف جاوید
سیلاب کے دہانے پر پاکستان۔۔۔ کب سیکھیں گے ہم؟
تحریر: جاوید اقبال
ہم اپنے اسکول کے زمانے سے ’’ بارش، رحمت یا زحمت‘‘ کے عنوان سے مضمون لکھتے آئے ہیں، اور جب بھی یہ موضوع سامنے آتا ہے، دل میں ایک عجیب سے کرب کا احساس ہوتا ہے۔ افسوس کی بات یہ ہے کہ اتنے سال گزر جانے کے باوجود ہم اس سوال کا جواب نہیں تلاش کر سکے کہ وہ بارش جو اللہ کی رحمت اور فصل کا ذریعہ ہوتی ہے، آخرکار ہمارے لیے رحمت کیوں نہیں بن جاتی ہے؟
حالیہ بارشوں کی تباہی، ان کے بعد پیدا ہونے والی صورتحال اور ان سے ہونے والے نقصانات کو دیکھ کر یہ حقیقت ہمارے سامنے آتی ہے کہ بارش اب پاکستان کے لیے کم سے کم رحمت نہیں، بلکہ زحمت بن چکی ہے۔ اس کے پیچھے سب سے بڑی وجہ ہمارے حکمران ہیں، جنہوں نے اتنے برسوں میں اس معاملے میں کوئی ٹھوس حکمت عملی وضع نہیں کی۔ ان کی بے حسی اور عدم توجہی نے ہماری تقدیر کو مزید تاریک کر دیا۔
اگر ہم ماضی میں نظر دوڑائیں، تو یہ بات عیاں ہو جاتی ہے کہ ہمارے حکمرانوں نے برساتی نالوں، دریا کے راستوں اور قدرتی آبی ذخائر تک کو ذاتی مفادات کے لیے فروخت کر دیا۔ غیرقانونی ہاسنگ سوسائٹیز، پکنک پوائنٹس اور ہوٹلوں کی تعمیر کے نام پر انہوں نے عوام کو ایک مستقل پریشانی میں مبتلا کر دیا ہے۔ وہ راستے جو کبھی قدرت کی طرف سے ہمارے لیے تحفظ فراہم کرتے تھے، آج انہی راستوں پر تعمیرات نے ہماری زندگیوں کو اجیرن بنا دیا ہے۔
آج جب ہم ان بارشوں کو دیکھتے ہیں جو قدرت کی رحمت ہونے کے باوجود زحمت بن کر برس رہی ہیں، تو دل میں یہ سوال اٹھتا ہے کہ ہم کب وقت تک اس نقصان کا سامنا کرتے رہیں گے؟
بارش اللہ کی ایک عظیم رحمت ہے۔ یہ وہ نعمت ہے جو مردہ زمین کو جلا بخشتی ہے، کھیتوں کو ہریالی اور فصلیں لہلہاتی ہیں، دریاں کو موج اور انسان کے لیے روزگار کا ذریعہ بنتی ہے۔ مگر افسوس کہ ہمارے ہاں یہی بارش جب برستی ہے تو اکثر رحمت کے بجائے زحمت بن جاتی ہے۔ شہروں میں سڑکیں ڈوب جاتی ہیں، گھروں میں پانی بھر جاتا ہے، دیہات اجڑ جاتے ہیں اور دریاں میں آنے والا سیلاب اپنے ساتھ بستیاں بہا کر لے جاتا ہے۔ بارش بذاتِ خود مسئلہ نہیں، اصل مسئلہ ہماری ناقص منصوبہ بندی، حکومتی غفلت، ناجائز قبضے اور وہ رویے ہیں جن کی وجہ سے ہم قدرت کے نظام کے ساتھ چلنے کے بجائے اس میں رکاوٹیں ڈالنے لگے ہیں۔
گزشتہ ہفتوں میں ہونے والی موسلا دھار بارشوں نے ایک بار پھر یہ حقیقت عیاں کر دی کہ پاکستان ابھی تک قدرتی آفات سے نمٹنے کے لیے اپنے آپ کو تیار نہیں کر سکا۔ کراچی میں بارش کے بعد گھنٹوں بلکہ دنوں تک پانی کھڑا رہا۔ لاہور میں نکاسی آب کا نظام مکمل طور پر ناکام ہو گیا۔ سرحد اور بلوچستان میں درجنوں قیمتی جانیں لقمہ اجل بن گئیں۔ دیہات میں کھڑی فصلیں پانی میں بہہ گئیں اور ہزاروں خاندان بے گھر ہو گئے۔ یہ مناظر کوئی نئے نہیں۔ ہر سال برسات کے موسم میں یہی ہوتا ہے، اور ہم سب حیران ہوتے ہیں جیسے یہ سب پہلی بار ہوا ہو۔
اصل المیہ یہ ہے کہ پانی کے قدرتی راستے ختم کر دئیے گئے ہیں۔ جہاں کبھی برساتی نالے بہتے تھے وہاں اب ہاسنگ سوسائٹیز آباد ہیں۔ جہاں دریاں کے کنارے کھلی زمین ہوا کرتی تھی وہاں شادی ہال، فیکٹریاں اور ہوٹل بن گئے ہیں۔ عوام نے بھی کچرا پھینک کر نالوں کو بند کر دیا ہے اور کچی آبادیاں، مارکیٹیں انہی راستوں پر بسا لی ہیں۔ یوں جب بارش کا پانی آتا ہے تو اس کے پاس بہنے کا کوئی راستہ نہیں ہوتا اور وہ بستیوں اور گھروں کو روندتا ہوا نکلتا ہے۔
یہ سب کچھ دیکھتے ہوئے سوال یہ اٹھتا ہے کہ ہمارے حکومتی ادارے کہاں ہیں؟ ہر سال بارش سے پہلے بڑے بڑے دعوے کیے جاتے ہیں کہ نالے صاف کر دئیے گئے ہیں، مشینری تیار ہے، نکاسی آب کے نظام کو بہتر کر دیا گیا ہے، مگر حقیقت اس کے برعکس نکلتی ہے۔ بلدیاتی ادارے محض رسمی کارروائی کرتے ہیں، ہاسنگ اتھارٹیز ناجائز تعمیرات کی اجازت دیتی ہیں، محکمہ ماحولیات خاموش تماشائی بنا رہتا ہے اور سیاستدان بارش کے بعد نمائشی دورے کر کے فوٹو سیشن مکمل کر لیتے ہیں۔ نتیجہ یہ ہے کہ ہر سال وہی مناظر دہرائے جاتے ہیں، سڑکیں نالوں کا منظر پیش کرتی ہیں، بیماریاں پھیلتی ہیں، لوگ املاک سے محروم ہوتے ہیں اور معیشت پر اربوں کا بوجھ پڑتا ہے۔
مون سون کے موسم میں بارشوں اور مقامی بدانتظامی کے ساتھ ساتھ پاکستان کے لیے ایک اور بڑا خطرہ بھارتی آبی جارحیت ہے۔ بھارت نے سندھ طاس معاہدہ کی آڑ میں برسوں سے دریاں پر ڈیم تعمیر کیے اور بارہا پانی کو ہمارے خلاف ہتھیار کے طور پر استعمال کیا۔ کبھی اچانک بغیر اطلاع کے ڈیم کھول دئیے جاتے ہیں جس سے پاکستان میں سیلابی ریلے داخل ہو جاتے ہیں۔ کبھی پانی روک کر قحط جیسی صورتحال پیدا کر دی جاتی ہے۔ بھارت کی اس پالیسی کا مقصد یہی ہے کہ پاکستان کو زرعی اور معاشی طور پر کمزور کیا جائے۔ پاکستان کی زراعت جس کا انحصار دریاں کے پانی پر ہے، بھارتی چالوں کی وجہ سے شدید خطرے سے دوچار ہے۔ برسات کے دنوں میں جب ہمارے پاس پہلے ہی نکاسی آب کا کوئی موثر نظام نہیں ہوتا، ایسے میں بھارت کی طرف سے چھوڑا گیا اضافی پانی تباہی کی شدت کو کئی گنا بڑھا دیتا ہے۔
دریائے سندھ اور اس کے معاون دریا جہلم، چناب، راوی اور ستلج پاکستان کی شہ رگ ہیں۔ یہی دریا ہماری زراعت اور معیشت کو سہارا دیتے ہیں۔ مگر جب ان دریاں میں اچانک سیلابی کیفیت پیدا ہوتی ہے تو بستیاں بہہ جاتی ہیں، کھیت اجڑ جاتے ہیں، پل اور سڑکیں ٹوٹ جاتی ہیں اور ہزاروں خاندان متاثر ہوتے ہیں۔ 2010ء کا سیلاب یادگار ہے جس نے تقریبا دو کروڑ افراد کو متاثر کیا اور پاکستان کو اربوں ڈالر کا نقصان پہنچایا۔ 2022ء کا سیلاب تو دنیا کے لیے بھی چونکا دینے والا تھا جب پاکستان کا ایک تہائی حصہ پانی میں ڈوب گیا۔ اس سانحے میں 1700سے زیادہ لوگ جاں بحق ہوئے، لاکھوں مکانات تباہ ہوئے اور معیشت کو تیس ارب ڈالر سے زائد کا نقصان ہوا۔ مگر افسوس، ہم نے ان سانحات سے کوئی سبق نہیں سیکھا۔
اب سوال یہ ہے کہ ہم کیا کریں؟ کیا ہم ہر سال بارش کے بعد یہی دہائی دیتے رہیں گے یا پھر کوئی مستقل حل تلاش کریں گے؟ ہمیں سب سے پہلے یہ تسلیم کرنا ہوگا کہ قدرتی نظام کے ساتھ چھیڑ خانی اور اس سے جنگ جیتنا ممکن نہیں۔ پانی کا راستہ بند کریں گے تو پانی اپنا راستہ خود بنائے گا اور اس عمل میں بستیاں اور شہر اپنے ساتھ بہا لے جائے گا۔ اس لیے سب سے پہلی ترجیح یہ ہونی چاہیے کہ برساتی نالوں اور دریاں کے قدرتی راستوں کو بحال کیا جائے۔ جو تعمیرات ان راستوں پر ہو چکی ہیں، چاہے وہ ہائوسنگ سوسائٹیاں ہوں، پکنک پوائنٹ، ہوٹل ہوں یا کچی آبادیاں، انہیں ہٹایا جائے۔
دوسرا بڑا قدم یہ ہونا چاہیے کہ شہروں میں بارش کے پانی کے لیے الگ ڈرینیج سسٹم بنایا جائے۔ دنیا کے ترقی یافتہ ممالک میں بارش کے پانی کو ضائع نہیں کیا جاتا بلکہ اسے ذخیرہ کیا جاتا ہے تاکہ بعد میں پینے یا زرعی مقاصد کے لیے استعمال ہو۔ ہمیں بھی بڑے ڈیموں کے ساتھ ساتھ چھوٹے آبی ذخائر اور رین واٹر ہارویسٹنگ پر توجہ دینی ہوگی۔
بھارتی آبی جارحیت کے مقابلے کے لیے پاکستان کو عالمی سطح پر آواز بلند کرنی چاہیے۔ سندھ طاس معاہدہ کی خلاف ورزیوں کو دنیا کے سامنے لانا ہوگا اور اپنے موقف کو موثر طریقے سے پیش کرنا ہوگا۔ اگر بھارت پانی کو ہتھیار کے طور پر استعمال کرتا رہا تو پاکستان کی زراعت اور معیشت دونوں کے لیے یہ انتہائی نقصان دہ ہوگا۔
عوامی شعور بھی اس مسئلے میں اہم کردار ادا کرتا ہے۔ ہمیں اپنے گھروں اور محلوں میں نکاسی آب کا نظام بہتر کرنا ہوگا، نالوں میں کچرا پھینکنے کی عادت ختم کرنا ہوگی اور شجرکاری کو فروغ دینا ہوگا تاکہ زمین بارش کے پانی کو جذب کر سکے۔ جنگلات کی کٹائی نے بھی بارش کے اثرات کو زیادہ شدید بنا دیا ہے۔ اگر ہم بڑے پیمانے پر شجرکاری کریں تو نہ صرف بارش کا پانی بہتر طریقے سے جذب ہوگا بلکہ ماحولیاتی آلودگی بھی کم ہوگی۔
آخر میں یہ بات واضح ہے کہ پاکستان میں بارش کی تباہی محض ایک قدرتی آفت نہیں بلکہ انسانی غفلت، ناقص منصوبہ بندی، ناجائز قبضوں اور بھارتی آبی جارحیت کا مجموعہ ہے۔ اگر ہم نے اب بھی اپنی پالیسیوں اور رویوں کو نہ بدلا تو ہر سال یہی مناظر دہرائے جائیں گے اور نقصان بڑھتا ہی جائے گا۔ وقت کا تقاضا ہے کہ ہم قدرت کے ساتھ جنگ چھوڑ کر اس کے ساتھ ہم آہنگی پیدا کریں۔ جب ہم پانی کے راستے بحال کریں گے، جدید منصوبہ بندی اپنائیں گے اور بھارتی آبی جارحیت کا موثر جواب دیں گے تب ہی بارش ایک بار پھر ہمارے لیے رحمت ثابت ہوگی۔ ورنہ یہ زحمت ہماری آنے والی نسلوں کو بھی بھگتنا پڑے گی۔
ہمیں اب یہ سوال خود سے پوچھنا ہوگا کہ کیا یہ بارش صرف قدرتی امر ہے، یا ہمارے حکمرانوں کی غفلت اور خود غرضی کا نتیجہ ہے؟ اگر ہم اپنے گزرے ہوئے وقت سے کچھ سیکھ نہ پائے، تو شاید یہ بارشیں ہمیشہ ہمارے لیے زحمت ہی بن کر رہ جائیں گی۔

جواب دیں

Back to top button