Aqeel Anjam AwanColumn

جیلوں میں ایڈز کا پھیلائو؟؟؟

جیلوں میں ایڈز کا پھیلائو؟؟؟
عقیل انجم اعوان
گزشتہ دنوں روز نامہ جہان پاکستان کی ایک چونکا دینے والی رپورٹ نظر سے گزری جو کہ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کا ایک خوف ناک انکشاف تھا۔ اس رپورٹ کے مطابق پنجاب کی 43جیلوں میں 645قیدیوں میں ایڈز کے مرض کی موجودگی کا انکشاف ہوا ہے جو نہ صرف صحت کے شعبے کے لیے بلکہ ریاستی نظم و نسق، قیدیوں کے بنیادی انسانی حقوق اور سماجی تحفظ کے نظام کے لیے ایک سنگین سوالیہ نشان بن کر سامنے آیا ہے۔ اعداد و شمار کے مطابق ان 645مریضوں میں سے سب سے زیادہ تعداد اڈیالہ جیل کی ہے جہاں 148قیدی ایڈز کا شکار ہیں۔ یہ محض چند اعداد نہیں بلکہ ایک بڑے اور دیرینہ مسئلے کی نشاندہی کر رہے ہیں۔ یہ صورتحال اس وقت مزید پیچیدہ ہو جاتی ہے جب ہم دیکھتے ہیں کہ جیلوں میں پہلے ہی گنجائش سے کہیں زیادہ قیدی موجود ہیں، علاج معالجے کی سہولتیں محدود ہیں، عملے کی تربیت ناکافی ہے اور منشیات سمیت وہ تمام عوامل موجود ہیں جو ایڈز کے پھیلائو کو بڑھاوا دیتے ہیں۔ دنیا کے مختلف ممالک میں کی جانے والی تحقیقات سے یہ بات واضح ہو چکی ہے کہ جیلوں میں ایچ آئی وی اور ایڈز کے پھیلائو کی بنیادی وجوہات میں غیر محفوظ جنسی تعلقات، نشہ آور اشیاء کے استعمال میں مشترکہ انجکشنز کا استعمال ، صفائی کی ناقص صورتحال اور طبی سہولتوں کی کمی شامل ہیں۔ پاکستان کی جیلوں میں ان تمام عوامل کی موجودگی اس بیماری کے پھیلائو کے لیے ایک سازگار ماحول فراہم کرتی ہے۔ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کی حالیہ رپورٹ سے یہ حقیقت بھی آشکار ہوئی ہے کہ جیلوں میں صحت عامہ کے حوالے سے کبھی کوئی منظم پالیسی مرتب نہیں کی گئی۔ اگرچہ وقتاً فوقتاً اسکریننگ کی جاتی رہی ہے مگر یہ زیادہ تر نمائشی اقدامات سے آگے نہیں بڑھ پاتی۔ قیدیوں کی بڑی تعداد جیلوں کی اصل گنجائش سے کئی گنا زیادہ ہے اور اس بھیڑ میں بیمار قیدیوں کے لیے علیحدہ وارڈ قائم کرنا یا انہیں مکمل علاج فراہم کرنا ایک دشوار امر بن چکا ہے۔یہ مسئلہ محض صحت تک محدود نہیں بلکہ قانونی اور اخلاقی پہلوؤں کو بھی چھوتا ہے۔ پاکستان کے آئین کے تحت ہر شہری کو زندگی اور صحت کے بنیادی حقوق حاصل ہیں اور قید کی سزا اس حق کو سلب نہیں کر سکتی۔ عالمی سطح پر قیدیوں کے حقوق سے متعلق مختلف معاہدوں اور کنونشنز میں بھی یہ بات زور دے کر کہی گئی ہے کہ قیدیوں کے لیے وہی طبی سہولتیں فراہم کی جائیں جو آزاد شہریوں کے لیے دستیاب ہوں۔ اس اعتبار سے جیلوں میں ایڈز کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد محض قیدیوں کی ذاتی کوتاہی یا بے احتیاطی نہیں بلکہ ریاستی اداروں کی غفلت اور ترجیحاتی ناکامی کا نتیجہ بھی ہے۔ دنیا کے دیگر ممالک میں ایسے مسائل سے نمٹنے کے لیے مختلف اقدامات کیے گئے ہیں جن سے مثبت نتائج سامنے آئے ہیں۔ یورپی ممالک میں نشہ آور اشیاء استعمال کرنے والے قیدیوں کے لیے سوئیوں کی تبدیلی کے پروگرام متعارف کرائے گئے تاکہ مشترکہ انجکشنز کے استعمال سے ایڈز کے پھیلائو کو روکا جا سکے۔ آسٹریلیا اور کینیڈا میں محفوظ جنسی تعلقات سے متعلق آگاہی پروگرام چلائے گئے جنہوں نے بیماری کے پھیلائو کو نمایاں حد تک کم کیا۔ جنوبی افریقہ نے جیلوں میں ایڈز کے علاج و اسکریننگ اور علیحدہ وارڈز کی پالیسی اپنائی جس کے نتیجے میں ایک بڑی تبدیلی دیکھنے کو ملی۔ اس کے مقابلے میں پاکستان میں زیادہ تر اقدامات رپورٹنگ اور وقتی انتظامی ہدایات تک محدود رہے ہیں اور طویل المدتی حکمت عملی کا فقدان رہا ہے۔ اس صورتحال کے مالی پہلو بھی کم پیچیدہ نہیں۔ ایڈز کے علاج میں استعمال ہونے والی ادویہ مہنگی ہیں اور ان کی بروقت فراہمی کے لیے ایک مضبوط سپلائی چین، مستقل بجٹ اور شفافیت درکار ہے۔ پنجاب ایڈز کنٹرول پروگرام کی رپورٹ کے مطابق کئی جیلوں میں ان ادویہ کی فراہمی سست روی کا شکار ہے جس کی ایک بڑی وجہ بجٹ کی کمی، بیوروکریٹک تاخیر اور بعض اوقات بدعنوانی کے الزامات بھی ہیں۔ انتظامی سطح پر بھی جیلوں کو جدید تقاضوں کے مطابق ڈھالنے کی ضرورت ہے۔ جیل عملے کی صحت کے حوالے سے تربیت ناکافی ہے۔ متاثرہ قیدیوں کے علاج کے لیے سہولتیں محدود ہیں اور اکثر اوقات بیماری کے پھیلائو کو روکنے کے بجائے اسے چھپانے کی کوشش کی جاتی ہے۔ یہ طرزِ عمل نہ صرف متاثرہ قیدیوں کے لیے نقصان دہ ہے بلکہ دیگر قیدیوں، جیل عملے اور بالآخر پورے معاشرے کے لیے خطرناک نتائج کا حامل ہے۔ سماجی سطح پر اس مسئلے کے اثرات اور بھی زیادہ سنگین ہیں۔ ایڈز کے شکار قیدی دوہری سزا بھگتتے ہیں ایک طرف وہ اپنی قید کاٹ رہے ہیں اور دوسری طرف معاشرتی نفرت، بدنامی اور محرومی کا شکار ہو رہے ہیں۔ پاکستان جیسے معاشرے میں ایڈز آج بھی ایک سماجی داغ سمجھا جاتا ہے جس کے باعث متاثرہ افراد علاج کے لیے بھی ہچکچاہٹ کا شکار رہتے ہیں۔ جب یہ قیدی اپنی سزا پوری کر کے معاشرے میں واپس آئیں گے تو ان کے لیے روزگار کے دروازے بند ہوں گے معاشرتی قبولیت مشکل ہو گی اور وہ علاج کے سلسلے میں بھی لاتعلقی کا شکار رہیں گے۔ یہ ایک ایسا سماجی بحران ہے جو محض ایک طبی مسئلہ نہیں بلکہ معاشرتی انحطاط کی علامت بھی ہے۔ اس مسئلے سے نمٹنے کے لیے فوری اور طویل المدتی اقدامات کی ضرورت ہے۔ ہر قیدی کی جیل میں داخلے کے وقت ایچ آئی وی اسکریننگ لازمی ہونی چاہیے اور قید کے دوران بھی وقتاً فوقتاً یہ عمل جاری رہنا چاہیے تاکہ نئے کیسز کی بروقت نشاندہی ہو سکے۔ متاثرہ قیدیوں کے لیے علیحدہ وارڈز قائم کیے جائیں اور انہیں اینٹی ریٹرو وائرل ادویہ مستقل بنیادوں پر فراہم کی جائیں۔ جیلوں میں منشیات کی ترسیل روکنے کے لیے جدید اسکیننگ آلات نصب کیے جائیں اور عملے کی ذمہ داری طے کی جائے کہ کوئی غیر قانونی سرگرمی اندر نہ جا سکے۔ جیل عملے کو صحت عامہ اور ایڈز کے حوالے سے خصوصی تربیت فراہم کی جائے تاکہ وہ متاثرہ قیدیوں کی دیکھ بھال میں موثر کردار ادا کر سکیں۔ مزید برآں معاشرتی بدنامی کو کم کرنے کے لیے آگاہی مہمات چلانا بھی ناگزیر ہے تاکہ قیدی رہائی کے بعد بھی علاج جاری رکھ سکیں اور معاشرے میں واپس آ کر مثبت کردار ادا کر سکیں۔ حکومت کو چاہیے کہ عالمی اداروں جیسے عالمی ادارہ صحت (WHO)اور اقوام متحدہ کے ایڈز پروگرام (UNAIDS)سے شراکت داری کرے تاکہ وسائل اور تکنیکی معاونت حاصل ہو سکے۔ پنجاب کی جیلوں میں ایڈز کے مریضوں کی بڑھتی ہوئی تعداد ہمیں اس حقیقت سے آگاہ کر رہی ہے کہ جیلوں کو صرف سزائوں کی جگہ سمجھنے کا وقت گزر چکا ہے۔ انہیں اصلاحی اور صحت مند مراکز میں تبدیل کرنا وقت کی ضرورت ہے تاکہ قیدی اپنی سزا کے ساتھ ساتھ اپنی صحت بھی بہتر بنا سکیں اور معاشرے میں واپس آ کر مثبت کردار ادا کر سکیں۔ یہ مسئلہ کسی وقتی اعلان یا نمائشی مہم سے حل نہیں ہوگا بلکہ اس کے لیے مستقل مزاجی، شفافیت اور قانون کے موثر نفاذ کی ضرورت ہے۔ حکومت کی یہ ذمہ داری ہے کہ وہ اپنے ہر شہری کی صحت کا تحفظ کرے چاہے وہ جیل کی سلاخوں کے پیچھے ہو یا آزاد فضا میں۔

جواب دیں

Back to top button