کیا 2025ء کا سیلاب، 1988ء کے سیلاب سے زیادہ ہولناک تھا؟

کیا 2025ء کا سیلاب، 1988ء کے سیلاب سے زیادہ ہولناک تھا؟
حمزہ شاہد
پاکستان نے اپنے قیام سے لے کر اب تک 24 شدید سیلابی واقعات کا سامنا کیا ہے، جن میں شامل ہیں 1950، 1955، 1956، 1957، 1959، 1973، 1975، 1976، 1977، 1978، 1981، 1983، 1984، 1988، 1992، 1994، 1995، 2010، 2011، 2012، 2013، 2014، 2015، 2016، 2017، 2019، 2020اور 2025۔
ان میں 1976، 1988، 1992، 2010اور 2022کے سیلاب ملک کی تاریخ کے بدترین سیلابوں میں شمار ہوتے ہیں۔
اس وقت پنجاب میں بپھرے 3دریائوں نے تباہی کی داستان رقم کردی ہے۔
پاکستان کے صوبہ پنجاب سے گزرنے والے دریائے چناب، روای اور ستلج مختلف علاقوں میں تباہی مچاتے ہوئے آگے بڑھ رہے ہیں۔
حکام کے مطابق پنجاب میں سیلاب کی وجہ سے اب تک کم از کم 2300دیہات زیر آب، 33افراد ہلاک جبکہ 20لاکھ افراد متاثر ہو چکے ہیں۔
7لاکھ سے زائد افراد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا ہے جبکہ سیکڑوں مویشی ہلاک اور کھڑی فصلیں تباہ ہوگئیں۔
پنجاب کے دریاں میں طغیانی اور دیہات زیرِ آب، مگر حکومت پنجاب نے فوری ریلیف آپریشن کو یقینی بنایا۔ کیمپس، علاج، خوراک، پناہ گاہیں اور بڑے پیمانے پر انخلاء ، وزیراعلیٰ مریم نواز کی قیادت میں ہر قدم اس بات کا ثبوت ہے کہ عوام کو اس کٹھن گھڑی میں تنہا نہیں چھوڑا جائے گا۔
متعدد شہروں اور دیہاتوں میں تھرمل ڈرونز کے استعمال سے رہائشیوں اور جانوروں کا انخلاء کیا گیا اور جن جن مقامات پر طغیانی کا خدشہ ہے وہاں تھرمل ٹیکنالوجی سے نگرانی کا عمل مسلسل جاری ہے۔
پنجاب میں قدرتی آفات سے نمٹنے کے ادارے پی ڈی ایم اے کے مطابق تینوں دریا مختلف ہیڈ ورکس اور بیراجز سے گزرتے ہوئے جنوبی پنجاب اور سندھ کی جانب بڑھ رہے ہیں۔ ڈی جی پی ڈی ایم اے پنجاب عرفان کاٹھیا نے کہا کہ فلڈ پلان ایکٹ کے تحت اب آبی گزرگاہوں میں موجود تمام غیرقانونی تعمیرات کو خالی کرایا جائے گا تاکہ مستقبل میں بڑے نقصانات سے بچا جاسکے اگر خالی نہ کیا تو ہمیشہ تقصان اٹھاتے رہیں گے
ماہرین کا کہنا ہے کہ یہ 1988ء کے بعد ان تینوں دریائوں میں آنے والی سب سے بڑی طغیانی ہے۔
دریائے چناب کے سیلابی ریلے سے گجرات، جھنگ اور چنیوٹ اور دیگر اضلاع میں نقصان ہوا ہے تو وہیں دریائے راوی نے لاہور شہر اور اس کے مضافات میں تباہی مچائی ہے۔ اُدھر دریائے ستلج بھی بپھرا ہوا ہے اور قصور سمیت دیگر ملحقہ اضلاع میں سیلابی صورتحال ہے۔ حکومت نے آٹھ اضلاع سیالکوٹ، نارووال، حافظ آباد، سرگودھا، لاہور، قصور، اوکاڑہ اور فیصل آباد میں فوج کو بھی مدد کے لیے بلا رکھا ہے۔
سینئر وزیر پنجاب مریم اورنگزیب نے کہا کہ تاریخ میں پہلی بار پنجاب کو اس نوعیت کے شدید سیلاب کا سامنا ہے۔
اس وقت جھنگ، ملتان، مظفر گڑھ، اوکاڑہ، ساہیوال، ٹوبہ ٹیک سنگھ، فیصل آباد، خانیوال، پاکپتین، رحیم یار خان، وہاڑی، بہاولنگر، بہاولپور اور راجن پور کو ہائی الرٹ علاقے قرار دے دیا گیا ہے۔ پنجاب حکومت کی بروقت حکمت عملی سرانجام دینے سے سیلاب کا خطرہ کافی ٹل بھی گیا ہے۔
دریائے راوی کی بات کی جائے تو یہ دریا جسڑ کے مقام پر انڈیا سے پاکستان میں داخل ہوتا ہے۔ دریائے راوی نے ضلع نارووال میں بھی تباہی مچائی اور شکر گڑھ کے مختلف علاقوں کے ساتھ ساتھ کرتارپور راہداری بھی زیر آب آ گئی۔
ضلع نارووال میں تباہی مچانے کے بعد دریائے راوی میں سیلابی ریلے نے لاہور کے نواحی علاقے شاہدرہ کا رُخ کیا جس سے ریور بیڈ ( دریا کے راستے) میں قائم آبادیاں زیر آب آ گئیں اور املاک کو نقصان پہنچا۔
دریائے راوی کے سیلابی ریلے نے ٹھوکر نیاز بیگ اور موہلنوال کے نواح میں واقعہ رہائشی سوسائٹیز میں بھی تباہی مچائی اور سیکڑوں گھروں میں سیلابی پانی داخل ہو گیا۔ درجنوں سوسائیٹیز اور علاقے ڈوبنے کے بعد صرف پارک ویو سٹی کے ہی چرچے کیوں ہورہے ہیں؟، کیونکہ اس سوسائٹی کے مالک علیم خان وزیر بھی ہیں اور حکومتی اتحادی بھی۔ پارک ویو سٹی لاہور کے مختلف بلاک پانی میں ڈوب گئے، جس کی وجہ سے رہائشیوں کی زندگی مفلوج ہوگئی اور لاکھوں کے املاک کا نقصان ہوگیا۔ کچھ رہائشی تو سراپا احتجاج بھی ہیں۔ آج کل سوشل میڈیا پر بھی چرچے ہورہے ہیں کہ جو ریور بیڈ ( دریا کے راستے) میں قائم سوسائیٹیز ہیں، دریا ان سے اپنی زمین واپس لینے آگیا ہے کیوں کہ جیسے انسان اپنی زمین نہیں چھورتا ایسے ہی دریا بھی اپنی جگہ کسی کو نہیں دیتا۔
کیا ابھی بھی مزید سیلاب کا خدشہ ہے؟
سیلاب کا یہ معاملہ ابھی تک تھما نہیں کیونکہ بھارت نے سلال ڈیم کے تمام 12دروازے کھول کر مزید پانی چھوڑ دیا ہے جس سے دریائے چناب میں 8لاکھ کیوسک کے ریلا آنے کا خدشہ ظاہر کیا جا رہا ہے، مساجد کے ذریعے اعلانات کیے جا رہے ہیں، جن میں رہائشیوں سے محفوظ مقامات پر منتقل ہونے کی اپیل کی جا رہی ہی۔ اسسٹنٹ کمشنر وزیرآباد کی ہدایت پر مساجد سے اعلانات کیے جا رہے ہیں، جن میں شہریوں کو محفوظ علاقوں میں منتقل ہونے کا مشورہ دیا جا رہا ہے۔ علاوہ ازیں مقامی انتظامیہ کی جانب سے گوجرانوالہ، جھنگ، سیالکوٹ،وزیرآباد ،سمبڑیال ،گجرات ،ہیڈ مرالہ ،
خانکی سے ملحقہ علاقوں میں شہریوں کے انخلا کے لیے اعلانات کیے جا رہے ہیں، اور ہنگامی صورت حال سے نمٹنے کیلئے تیاریاں مکمل کرلی ہیں۔
1988ء اور 2025ء میں سیلابی تباہی کا تقابلی جائزہ:
1988ء کا سیلاب: لاہور سمیت پنجاب کے لیے 20ویں صدی کا بدترین سیلاب تھا۔
پانی کا بہائو: شاہدرہ کے مقام پر 575941 کیوسک (16309کیومیکس) ریکارڈ ہوا۔
جانی نقصان: 731افراد جاں بحق ہوئے۔
متاثرہ افراد:1250000افراد بے گھر ہوئے۔
متاثرہ علاقے: شاہدرہ سے کالا شاہ کاکو تک کا وسیع علاقہ زیرِ آب آیا۔
انفراسٹرکچر نقصان: شاہدرہ ڈسٹری بیوٹری بند ٹوٹ گیا، بلوکی اور سدنائی ہیڈ ورکس پر حفاظتی بند توڑنے پڑے تاکہ مزید تباہی سے بچا جا سکے۔
لاہور کے نشیبی علاقے جیسے شادباغ، بادامی باغ، بھمے جھگیاں اور صدر بھی زیر آب آ گئے تھے۔
2025ء کا سیلاب اگرچہ جانی نقصان کے لحاظ سے 1988ء سے کم رہا، تاہم دائرہ اثر، شدت اور نقصان کے پھیلائو کے اعتبار سے کہیں زیادہ مہلک ثابت ہوا۔
پانی کا بہائو: راوی پر شاہدرہ کے مقام پر 220000کیوسک ریکارڈ ہوا ( جو 1988ء کے بعد سب سے بڑا ریلا ہے)
جانی نقصان: اب تک کی اطلاعات کے مطابق 33افراد جاں بحق ہو چکے ہیں۔
متاثرہ افراد: 20لاکھ سے زائد افراد متاثر ہوئے، جن میں سے 7لاکھ سے زائد کو محفوظ مقامات پر منتقل کیا گیا۔
متاثرہ علاقے: 2300سے زائد دیہات زیرِ آب آئے، جن میں پنجاب کے وسطی اور جنوبی اضلاع شامل ہیں۔
انفراسٹرکچر و مالی نقصان: ہزاروں ایکڑ فصلیں تباہ، سیکڑوں مویشی ہلاک، اور اربوں روپے کی املاک کا نقصان ہوا۔
شہری علاقے متاثر: لاہور میں ٹھوکر نیاز بیگ، موہلنوال، پارک ویو سٹی، شاہدرہ سمیت کئی ہائوسنگ سوسائٹیز ڈوب گئیں۔
امید ہے کہ آنے والے دنوں میں مزید سیلاب کے خدشے سے نمٹا جائے گا جس کے لیے پنجاب حکومت اور سندھ حکومت نے پوری تیاریاں کر رکھی ہیں۔





