سکول نیوٹریشن پروگرام: عزم، قیادت اور عوامی اعتماد

سکول نیوٹریشن پروگرام: عزم، قیادت اور عوامی اعتماد
تحریر : سید بنیامین حسین
پنجاب میں بچوں کی صحت مند نشو و نما اور معیاری تعلیم کو یقینی بنانے کے لیے ایک انقلابی قدم اٹھایا گیا ہے۔ صوبے کے 40سرکاری سکولوں میں سکول نیوٹریشن پروگرام فیز 2کا آغاز نہ صرف ایک حکومتی پالیسی ہے بلکہ یہ مستقبل کے پاکستان کی ضمانت بھی ہے۔ افتتاحی تقریب میں حکومتی نمائندوں اور فوڈ اتھارٹی کے اعلیٰ افسران نے جو عزم ظاہر کیا، وہ واضح کرتا ہے کہ بچوں کی صحت کو اب محض ایک فلاحی سرگرمی نہیں بلکہ ریاستی ترجیح کے طور پر لیا جا رہا ہے۔
یہ حقیقت کسی سے پوشیدہ نہیں کہ پاکستان میں بچوں کی غذائی صورتحال نہایت تشویشناک ہے۔ نیشنل نیوٹریشن سروے کے مطابق 40فیصد بچے سٹنٹنگ یعنی قد میں کمی کا شکار ہیں، 28فیصد ویسٹنگ یعنی وزن میں کمی کا سامنا کر رہے ہیں جبکہ 30فیصد بچے اپنی عمر کے مقابلے میں چھوٹا قد رکھتے ہیں۔ مزید تشویش ناک بات یہ ہے کہ تقریباً 25 فیصد بچے زنک اور30فیصد بچے آئرن کی کمی کا شکار ہیں۔ ان اعداد و شمار سے یہ واضح ہوتا ہے کہ اگر آج ہم نے بچوں کی صحت پر توجہ نہ دی تو آنے والی نسلیں جسمانی، ذہنی اور تعلیمی کمزوریوں کے ساتھ ہمارا مستقبل سنبھالیں گی۔
سکول نیوٹریشن پروگرام میں بچوں کو مفت لنچ باکس فراہم کیا گیا جس میں فورٹیفائیڈ بریڈ، دودھ اور خشک میوہ جات شامل ہیں۔ یہ خوراک نہ صرف توانائی بخش ہے بلکہ اس میں وہ بنیادی وٹامنز اور منرلز موجود ہیں جو بچوں کے جسم اور دماغ کی نشوونما کے لیے ناگزیر ہیں۔ مجھے ذاتی طور پر یہ اقدام اس لیے بھی خوش آئند لگتا ہے کہ ہمارے دیہی علاقوں میں اکثر بچے بھوکے پیٹ یا غیر متوازن خوراک کے ساتھ اسکول جاتے ہیں، جس کا براہِ راست اثر ان کی پڑھائی اور ذہنی ارتکاز پر پڑتا ہے۔
سول سروسز اکیڈمی لاہور میں پنجاب فوڈ اتھارٹی کی جانب سے سکول نیوٹریشن پروگرام فیز 2کے آغاز کے حوالے سے افتتاحی تقریب منعقد کی گئی، جس میں معاون خصوصی وزیر اعلیٰ پنجاب محترمہ سلمیٰ بٹ، ڈی جی فوڈ اتھارٹی محمد عاصم جاوید اور ڈی جی سول سروسز فرحان عزیز خواجہ نے شرکت کی، سول سروسز سکول سے فیز 2کا فیتہ کاٹ کر افتتاح کیا گیا، بچوں کی پری سکریننگ کے لئے کیمپس لگائے گئے جس میں بچوں کے مختلف ٹیسٹ بھی کیے گئے
سکول نیوٹریشن پروگرام کا ایک اور مثبت پہلو یہ ہے کہ اس کے ذریعے بچوں کی پری اور پوسٹ اسکریننگ کی جاتی ہے۔ یعنی ہر بچے کی صحت کو باقاعدہ مانیٹر کیا جائے گا اور اس کے مطابق غذائی اقدامات کیے جائیں گے۔ اس جدید اور سائنسی اپروچ سے یقینی بنایا جا سکے گا کہ کوئی بھی بچہ نظر انداز نہ ہو اور ہر ایک کو اس کی ضرورت کے مطابق سہولت میسر آئے۔
یہاں یہ بات بھی قابل ذکر ہے کہ ورلڈ ہیلتھ آرگنائزیشن (WHO)اور یونیسف بارہا اس حقیقت پر زور دے چکے ہیں کہ بچوں کی ابتدائی پانچ سال کی خوراک اور پھر اسکول جانے کی عمر میں متوازن غذا ان کی زندگی کے باقی سفر کا تعین کرتی ہے۔ اگر بچہ اس عمر میں غذائیت کی کمی کا شکار رہے تو نہ صرف اس کا قد اور وزن متاثر ہوتا ہے بلکہ سیکھنے کی صلاحیت اور ذہنی استعداد بھی بری طرح متاثر ہوتی ہے۔
صحت مند بچے مستقبل میں صحت مند نوجوان بنیں گے، اس پروگرام کے تحت 4ملین طلباء و طالبات کو ”’’ فوڈ چیمپئنز‘‘ بنانے کا ہدف رکھا گیا ہے، جو بلاشبہ ایک بڑا اور حوصلہ افزا مقصد ہے۔
معاون خصوصی برائے وزیر اعلیٰ پنجاب سلمیٰ بٹ نے افتتاحی تقریب میں درست کہا کہ غذائیت کی کمی پر قابو پانے کے لیے پوری قوم کو متحد ہونا ہوگا۔ یہ صرف حکومت یا فوڈ اتھارٹی کی ذمہ داری نہیں بلکہ والدین، اساتذہ، میڈیا اور سول سوسائٹی سب کو اپنا کردار ادا کرنا ہوگا۔ والدین کو چاہیے کہ وہ گھریلو سطح پر بچوں کی خوراک پر توجہ دیں، اساتذہ طلبہ میں صحت مند خوراک کی عادت ڈالیں، اور میڈیا مثبت مہم چلا کر عوام میں شعور اجاگر کرے۔
میری ذاتی رائے میں یہ پروگرام صرف ایک پالیسی اقدام نہیں بلکہ ایک سماجی انقلاب ہے۔ اگر لاہور سے راجن پور تک ہر بچے کو یہ سہولت میسر آ گئی تو نہ صرف ہسپتالوں کا بوجھ کم ہوگا بلکہ تعلیمی نتائج بھی بہتر ہوں گے۔ ایک ایسا بچہ جو غذائی طور پر مضبوط ہے، وہی اچھی طرح پڑھ سکتا ہے، کھیل سکتا ہے اور آگے جا کر ملک کی خدمت کر سکتا ہے۔
آج دنیا بھر میں وہی قومیں ترقی کر رہی ہیں جنہوں نے اپنی آنے والی نسلوں کی صحت اور تعلیم پر سب سے زیادہ سرمایہ کاری کی۔ ہمیں بھی یہی راستہ اختیار کرنا ہوگا۔ نیوٹریشن کے مضمون کو نصاب میں شامل کرنے کی تجویز نہایت دانشمندانہ ہے کیونکہ تعلیم ہی وہ ذریعہ ہے جو آنے والی نسل کو بہتر فیصلے کرنے اور اپنی صحت کی حفاظت کرنے کے قابل بناتی ہے۔
میری ذاتی رائے کے مطابق سکول نیوٹریشن پروگرام فیز 2امید کی ایک نئی کرن ہے۔ یہ صرف بچوں کو کھانا کھلانے کا منصوبہ نہیں بلکہ پاکستان کے روشن مستقبل کا بیج ہے۔ اگر حکومت، والدین اور معاشرہ مل کر اسے کامیاب بنا دیں تو آنے والے برسوں میں پاکستان ایک صحت مند، تعلیم یافتہ اور خوشحال قوم کے طور پر دنیا کے سامنے ابھر سکتا ہے۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کے یہ تمام اقدامات اس بات کا ثبوت ہیں کہ اگر نیت صاف ہو، وژن واضح ہو اور قیادت پرعزم ہو تو عوامی خدمت کے بڑے سے بڑے ہدف کو حاصل کیا جا سکتا ہے۔
یہاں پر ایک بات واضح کرتا چلوں کہ پنجاب فوڈ اتھارٹی محض ایک سرکاری ادارہ نہیں، یہ اس سوچ اور احساس کا نام ہے جو چاہتا ہے کہ پنجاب کی ہر گلی، ہر بازار، ہر کچن اور ہر دسترخوان پر صرف خالص اور محفوظ خوراک موجود ہو۔ یہ ادارہ وہاں بھی پہنچا جہاں پہلے کبھی قانون کی رسائی نہیں تھی، وہاں بھی دستک دی جہاں عوام کو شعور کی روشنی کی ضرورت تھی، اور وہاں بھی کارروائی کی جہاں ملاوٹ کو طاقت کا تحفظ حاصل تھا۔
ڈی جی فوڈ اتھارٹی عاصم جاوید کی قیادت میں یہ محکمہ جس عزم، بہادری اور مسلسل محنت سے کام کر رہا ہے، وہ بلاشبہ لائقِ تحسین ہے۔ نہ صرف جعلسازوں کے گرد قانون کا شکنجہ سخت کیا گیا، بلکہ عوام کو ساتھ لے کر ایک صاف اور محفوظ خوراکی نظام کی بنیاد رکھی گئی۔ قانون پر عمل درآمد کی بات ہو، خواتین اور بچوں کی غذائی تربیت، کاروباری آسانیاں ہوں یا ٹیکنالوجی سے لیس نگرانی کا نظام، ہر محاذ پر فوڈ اتھارٹی نے نئی راہیں متعین کی ہیں۔
آج اگر پنجاب کے شہریوں کو سبزی، گوشت، دودھ یا پانی کے معیار پر اعتماد حاصل ہو رہا ہے تو اس کے پیچھے اسی ادارے کی دن رات کی جدوجہد ہے۔
یہ سفر ابھی رکا نہیں، بلکہ آگے بڑھ رہا ہے، نئی سوچ، جدید حکمت عملی، اور عوامی شمولیت کے ساتھ۔ اگر ہم سب اس مشن میں شامل ہو جائیں، تو وہ دن دور نہیں جب پنجاب صرف زرخیز نہیں بلکہ ملاوٹ سے پاک، صحت مند اور محفوظ پنجاب کہلائے گا۔
پنجاب فوڈ اتھارٹی کی یہ کوششیں نہ صرف موجودہ نسل، بلکہ آنے والی نسلوں کی صحت کی ضمانت ہیں اور یہ ہی اصل کامیابی ہے۔ کیونکہ جب روٹی خالص ہو، پانی صاف ہو اور نیت سچی ہو تو صحت مند معاشرے کی تشکیل صرف خواب نہیں حقیقت بن جاتا ہے۔





