ColumnImtiaz Aasi

اسحاق ڈار اور عدلیہ کی آزادی

اسحاق ڈار اور عدلیہ کی آزادی
نقارہ خلق
امتیاز عاصی
نائب وزیراعظم اور وزیر خارجہ جناب اسحاق ڈار سے ہماری ملاقات 1997ء میں مدینہ منورہ میں ہوئی، جب میں پاکستان ہائوسز کا نگران تھا۔ سرکاری ملازمت اور جنگ اخبار سے رخصت لے کر میں سعودی عرب میں ملازمت کر رہا تھا۔ جناب ڈار شریف النفس، حلیمی اور سادگی ان کا طرہ امتیاز ہے۔ ایک دو روز قیام کے بعد وطن واپس چلے گئے مگر اپنی خوبصورت یادوں کے نقوش چھو ڑ گئے۔ پاکستان واپس آنے کے باوجود میری ان سے ملاقات نہیں ہو سکی۔ مجھ ایسے فقیر کی وزیراعظم سیکرٹریٹ کی راہداریوں تک رسائی کہاں جو میں ان سے مل سکتا۔ وفاقی دارالحکومت میں پریس کانفرنس کرتے ہوئے جناب اسحاق ڈار نے طالبان حکومت سے ٹی ٹی پی کے دہشت گردوں کو پاکستان کے حوالے کرنے کے اپنے مطالبے کو دہرایا اور ساتھ ہی انہوں نے پاکستان میں عدلیہ کی آزادی کی بات ہے۔ ان کا کہنا تھا پاکستان میں عدلیہ آزادی سے کام کرتی ہے پڑھ کر میں سوچوں میں گم ہو گیا۔ ایک طرف مجھے نائب وزیراعظم کے عدلیہ کی آزادی بارے بیان پر حیرت ہو رہی تھی، دوسری طرف مجھے اس پہلو کو مدنظر رکھنا پڑا وہ عدلیہ کی آزادی کے سوا اور کہہ بھی کیا سکتے تھے۔ درحقیقت وہ جس منصب پر فائز ہیں اس کا تقاضا بھی یہی تھا وہ عدلیہ کی آزادی کی بات کرتے۔ تو ہم سب سے پہلے عدلیہ کی آزادی بات کرتے ہیں آئین میں 26ویں ترمیم کے بعد عدلیہ کیا آزاد ہے؟ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں کی چیف جسٹس کے نام نالش آزاد عدلیہ کی غماز ہے؟ سابق وزیراعظم اور پی ٹی آئی کے بانی عمران خان کے خلاف لاتعداد مقدمات اور ان کی سماعت میں تاخیر عدلیہ کی آزادی کی نشاندہی ہے؟ سیاسی جماعتوں کے کارکنوں کے خلاف مقدمات کی تاخیر سے سماعت آزاد عدلیہ کی نوید ہے؟ سیاسی جماعت کے کارکنوں کے خلاف بیک وقت دو شہروں میں مقدمات کا اندراج آزاد عدلیہ کی واضح نشانی ہے؟ عدالتی احکامات کے باوجود عمران خان سے ان کے عزیز و اقارب کی ملاقات سے انکار عدلیہ آزاد ہے؟ شہریوں کو دن دھاڑے بغیر کسی وارنٹ کے گرفتار ی عدلیہ کی آزادی کا منہ بولتا ثبوت ہے؟ اسلام آباد ہائی کورٹ کے ایک سابق جج شوکت صدیقی کی پریس کانفرنس عدلیہ کی آزادی کا پیغام دیتی ہے؟ ہاں البتہ ملک میں عدلیہ اس لحاظ سے آزاد ہے جب سابق وزیراعظم نواز شریف اور اسحاق ڈار وطن واپس آئے تو ان کے خلاف چند روز میں مقدمات ختم ہو گئے آزاد عدلیہ ہی کی مرہون منت تھا۔ ملک میں سیاسی حکومت ہو یا مارشل لاء دونوں ادوار میں عدلیہ پر دبائو رہتا ہے۔ ہو سکتا ہے ماضی میں اس طرح کے دبائو کا کچھ بھرم رکھا جاتا ہو مگر اب تو حد ہو گئی ہے ماتحت عدالتوں سے عدالت عظمیٰ تک جو حالات ہیں ان کی تفصیل میں جانا مناسب نہیں ورنہ کہیں ہم بھی کہیں اٹھائے نہ جائیں لہذا انہی خدشات کے پیش نظر اپنی تحریروں اور یو ٹیوب چینل کے وی لاگ میں محتاط رویہ اختیار کرنا پڑتا ہے۔ یہ ناچیز طویل اسیری دیکھ چکا ہے اب پیرانہ سالی کے پیش نظر ہمت جواب دے گی ہے اس لئے بہت سے پہلوئوں کو مدنظر رکھتے ہوئے کالم لکھنا پڑتا ہے۔ جب کبھی ذوالفقار علی بھٹو کی پھانسی کی بات ہوتی ہے تو میں جنرل ضیا ء الحق کو انہیں پھانسی دینے کا ذمہ دار نہیں ٹھہراتا۔ قارئین! آپ کو پڑھ کر حیرت ہو رہی ہو گی کہ میں کیا کہہ رہا ہے۔ اسلام آباد ہائیکورٹ کے پانچ ججوں اور سابق جج شوکت صدیقی کا کیس سب کے سامنے ہے ان سب ججز نے کسی ادارے کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیا تھا۔ میرا یہی موقف رہا ہے بھٹو کو پھانسی کی سزا سنانے والے مولوی مشتاق کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیتے تو شائد ذوالفقار علی بھٹو اپنی طبعی موت مرتے لیکن مولوی مشتاق صاحب نے لاہور ہائیکورٹ کا چیف جسٹس بننا تھا ورنہ جسٹس صمدانی بھی تھے جنہوں نے جناب بھٹو کو ضمانت پر رہا کرنے کا حکم دے دیا تھا، جس کے بعد بھٹو رہا کر دیئے گئے، جنہیں بعد ازاں لاڑکانہ سے دوبارہ گرفتار کیا گیا تھا۔ اگر عدلیہ کے ججز صاحبان کسی عہدے اور منصب کی فکر کئے بغیر کسی قسم کا دبائو قبول کرنے سے انکار کر دیں تو کوئی وجہ نہیں عوام انہیں شاندار الفاظ میں یاد نہ کریں۔ گو جسٹس صمدانی نے بھٹو صاحب کو ضمانت پر رہا کر دیا تھا اور جسٹس مولوی مشتاق نے انہیں پھانسی کی سزا دے دی اور وہ اگلی دنیا کو سدھار گئے لیکن جسٹس صمدانی آج بھی عوام کے دلوں میں بستے ہیں، لیکن جسٹس مولوی مشتاق کو کوئی اچھے الفاظ میں یاد نہیں کرتا۔ میر ی ان تمام باتوں کا خلاصہ یہ ہے اگر عدلیہ کے لوگ باضمیر ہوں تو کوئی وجہ نہیں وہ کسی کا بھی دبائو قبول کریں۔ شریف خاندان کا ناقد ہونے کے باوجود میں نواز شریف کو اقامہ کیس میں سزا کے خلاف ہوں انہیں غلط سزا دی گئی جس نے عدلیہ پر منفی اثرات چھوڑے ہیں۔ سابق جج شوکت صدیقی کے معاملے کو دیکھ لیں انہیں نواز شریف کو سزا دینے کے لئے دبائو ڈالنے کی کوشش کی گئی مگر وہ کسی کے دبائو میں نہیں آئے اور ملازمت چھوڑنی پڑی۔ آج جسٹس صدیقی صاحب کو جس عزت و توقیر کی نگاہ سے دیکھا جاتا ہے اگر وہ دبائو قبول کر لیتے تو عوام کی نظروں میں ہمیشہ کے لئے گر جاتے۔ آج پاکستان کی عدلیہ بالکل آزاد نہیں ہے خصوصا ملک کی سب سے بڑی سیاسی جماعت کے معاملے میں بالکل آزاد نہیں ہے۔ ہماری معلومات کے مطابق اب بھی قریبا ایک ہزار رہنما اور ورکر پی ٹی آءی کے جیلوں میں ہیں۔ جن لوگوں کو سزائیں دی گئی ہیں ان کی اپیلوں کی سماعت کو جانے کتنے برس لگے گئے جب تک وہ اپنی قید پوری کرکے رہا ہو جائیں گے۔ ہم جناب اسحاق ڈار کے حوالے سے آزاد عدلیہ کی بات کر رہے تھے۔ پاکستان کی عدلیہ میں جسٹس ایم آر کیانی، جسٹس رستم ایس سدھوا اور جیسے کیکاوس جیسے منصف ناپید ہیں۔ جس روز پاکستان کی عدلیہ آزاد ہوگی اور انتخابات کا انعقاد منصفانہ ہو گا ہمارا ملک ترقی کی راہ پر گامزن ہو سکے گا ورنہ عدلیہ کی آزادی اور غیر جانبدارانہ الیکشن خواب رہے گا۔

جواب دیں

Back to top button